Express News:
2025-06-09@20:04:59 GMT

مذاکرات من پسند نتائج کے لیے کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے مذاکرات کی دوسری پیشکش پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے مذاکرات کی پیش کش کر کے اچھا قدم اٹھایا کیونکہ جو بھی راستہ نکالنا ہے وہ مذاکرات کے ذریعے ہی نکالنا ہے اور امید رکھنی چاہیے کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوں اور کوئی اچھا نتیجہ نکلے۔ پی ٹی آئی اپنے من پسند ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن چاہتی ہے جو حکومت کو منظور نہیں ہوگا مگر لگتا ہے حکومت دوبارہ مذاکرات چاہتی ہے، اس لیے مذاکرات ضرور ہونے چاہئیں۔

 پی ٹی آئی موجودہ حکومت سے مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتی تھی اور حکومت کو فارم47 کی پیداوار اور جعلی قرار دیتی تھی اور اپنے بانی کی ہدایت پر صرف اور صرف بالاتروں سے مذاکرات چاہتی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بھی پی ٹی آئی کے بانی و سابق وزیر اعظم نے اپنے صدر مملکت پر زور دیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے ملاقات کا اہتمام کیا جائے جس پر انھیں انکار کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر پی ٹی آئی کے صدر مملکت نے جو فوج کے سپریم کمانڈر بھی تھے سابق وزیر اعظم کے دباؤ پر کوشش جاری رکھی ۔

بالاتروں کی حمایت حاصل کرنے میں مکمل ناکامی کے بعد بانی نے 2017 میں اپنی عدالتی نااہلی کے بعد بالاتروں کے خلاف بیانیہ بنانے کے لیے یوٹرن لیا اور ان کی شدید مخالفت شروع کردی کیونکہ بالاتروں کے خلاف سب سے بڑا بیانیہ بنانے والے نواز شریف بھی بالاتروں کی مخالفت میں اس انتہا تک نہیں گئے تھے جب انھیں اقتدار سے عدالتی فیصلے کے ذریعے ہٹایا گیا تھا۔ بالاتروں کے خلاف نواز شریف کی خاموشی کے بعد موقعہ جان کر بانی پی ٹی آئی نے ملک میں جلسوں میں بالاتروں کی مخالفت شروع کی ۔

اگر بالاتر غیر جانبداری چھوڑ کر بانی پی ٹی آئی کی بات مان لیتے تو پھر صورت حال مختلف ہونی تھی مگر جب من پسند نتائج نہ نکلے تو بانی بالاتروں کے خلاف ہو گئے تھے۔ پی ڈی ایم حکومت نے اپنے دور میں بانی کو کھل کر سیاست کرنے دی اور ان کے الزامات پر خاموشی اختیار کرکے ملک کی معاشی بہتری پر توجہ مرکوز رکھی اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا جب کہ بانی نے پی ڈی ایم حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کامیاب کرایا تھا۔

فروری کے انتخابات میں ملنے والی کامیابی بانی پی ٹی آئی کو ہضم نہیں ہوئی جب کہ انھیں (ن) لیگ اور پی پی نے حکومت بنانے کی دعوت دی تھی جو انھوں نے ٹھکرا دی تھی، ورنہ اس وقت بانی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرکے اپنی رہائی سمیت بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے۔ بانی کے انکار پر (ن) لیگ اور پی پی کو مل کر حکومت بنانا پڑی جسے پی ٹی آئی مذاکرات کے بعد بھی جعلی حکومت قرار دیتی اور وہی (ن) لیگی حکومت پھر مذاکرات کی پیشکش کر رہی ہے جب کہ پی ٹی آئی اسی حکومت سے مذاکرات کر چکی ہے اور اپنے مطلوبہ مطالبات تسلیم نہ ہونے پر قبل از وقت مذاکرات ختم کر چکی ہے۔

28 جنوری کو مذاکرات میں اگر پی ٹی آئی شریک ہو کر حکومت کی طرف سے اپنے مطالبات کا جواب سن لیتی اور مذاکرات یکطرفہ طور ختم نہ کرتی تو قوم کو حقائق کا پتا چل جاتا کہ کون مذاکرات کی ناکامی یا کامیابی چاہتا تھا مگر پی ٹی آئی نے جلد بازی میں مذاکرات ختم کر دیے جب کہ ممکن تھا کہ ان مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آتا۔

جس حکومت سے بانی مذاکرات کرنا نہیں چاہتے تھے اسی حکومت سے مذاکرات بھی ہوئے مگر 14 سال کی سزا کا فیصلہ اگر مزید تاخیر سے آتا اور حکومت پی ٹی آئی کے کچھ مطالبے مان لیتی تو پی ٹی آئی مذاکرات ختم نہ کرتی مگر بانی نے سزا کے بعد سمجھ لیا کہ ان کی رہائی اب ناممکن ہے انھوں نے من پسند نتیجہ نہ نکلنے پر مذاکرات ہی ختم کرا دیے جو بانی کا غلط اور ذاتی مفاد کا فیصلہ تھا۔ مذاکرات ناکام نہیں ہوئے تھے جو حکومت جاری بھی رکھنا چاہتی تھی اور اب بھی چاہتی ہے مذاکرات ہوں۔ وزیر اعظم کی پھر پیشکش پر پی ٹی آئی اپنے بانی کو رضامند کرے اور مزید دھمکیاں نہ دی جائیں تو مذاکرات پھر شروع ہو سکتے ہیں۔

مذاکرات کے کبھی من پسند نتائج نہیں نکلتے دونوں فریقوں کو پیچھے ہٹ کر لچک بھی دکھانا پڑتی ہے تب ہی مذاکرات کا کچھ نہ کچھ نتیجہ نکل آتا ہے مگر دھمکیاں اور بے مقصد مذاکرات کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ حکومت نے انکار نہیں کیا اور جنگوں کا فیصلہ بھی دھمکیوں سے نہیں مذاکرات سے ہوتا ہے۔ ملک میں کوئی حکومت دھمکیوں اور بلیک میلنگ سے اقتدار نہیں چھوڑتی۔ خون خرابے اور نقصانات کے بعد بھی مذاکرات کرنا ہی پڑتے ہیں۔

اس لیے جو مذاکرات پی ٹی آئی نے خود ختم کیے ہیں۔ وزیر اعظم کی نئی پیشکش پی ٹی آئی کو قبول کرکے اس کا مثبت جواب دینا چاہیے۔ مذاکرات سے انکار ملکی مفاد میں نہیں ہوتا، اس لیے من پسند نتائج کی امید رکھے بغیر دونوں سیاسی فریقوں کو کھلے دل سے ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا۔ مذاکرات سے ہی کوئی مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: من پسند نتائج مذاکرات کے مذاکرات کی سے مذاکرات مذاکرات کر پی ٹی آئی حکومت سے کے بعد

پڑھیں:

ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟

اسلام ٹائمز: یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔ تحریر: روزمیری ای کلارک (کالم نگار فارن پالیسی)
 
گذشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری جنگ کی خطرناک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یا تو ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہو جائے گا یا پھر امریکہ اس پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دھمکی آمیز رویہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دو ٹوک انداز میں ایران کی جانب سے اس کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں: "یا مذاکرات کے ذریعے انہیں ختم کیا جائے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر"۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی دھمکیاں کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟
 
سرخ لکیر یا بڑھک؛ واشنگٹن ایران کی جوہری ترقی کے پھندے میں
یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔
 
دھمکی، ٹارگٹ کلنگ، پابندی؛ واشنگٹن کے مقابلے میں ایران کی جوہری ترقی کا راز
دراصل گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں، فوجی دھمکیوں اور خفیہ طور پر انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں نے ہی ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں وسعت اور ترقی لانے پر مجبور کیا ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں تہران کی حالیہ ترقی تین اہم مراحل میں انجام پائی ہے اور ان تینوں مراحل میں واشنگٹن یا تل ابیب کی جانب سے براہ راست دشمنی پر مبنی اقدامات انجام پائے ہیں۔ پہلا مرحلہ ایران سے جوہری معاہدے بورجام کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ اس معاہدے نے 2015ء میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ یہ دستبرداری ایسی صورت میں انجام پائی جب خود ٹرمپ حکومت نے بھی جولائی 2017ء تک اس معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی۔ ایران نے بورجام معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پابندی جاری رکھی۔
 
فیصلہ کن موڑ اس وقت رونما ہوا جب امریکہ نے مئی 2019ء میں دھمکی آمیز اقدام کے طور پر یو ایس ایس ابراہم جنگی بحری بیڑہ ایران کے پانیوں کے قریب بھیج دیا تاکہ یوں اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے بقول ایران کو واضح پیغام دے سکے۔ اسی فوجی تناو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے بورجام معاہدے کی پابندی ختم کر دی اور چند ماہ بعد ایران کی یورینیم افزودگی 4.5 فیصد تک جا پہنچی۔ دوسرا قدم ایران نے دسمبر 2020ء میں اٹھایا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اس اعلان کے چند دن بعد ہی ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپریل 2021ء میں یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
 
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ "یا معاہدہ یا جنگ" کا نعرہ نہ صرف انتہائی سادہ لوحی پر مبنی ہے بکہ انتہائی شدید حد تک خطرناک بھی ہے۔ ایران کے خلاف فوجی اقدام نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں جو واشنگٹن کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوں، جیسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی۔ اگرا امریکہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار اپناتا ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ پر عزم نہ ہو جائے اور اپنی جوہری ترقی میں مزید تیزی نہ لے آئے؟
 
ممکن ہے اسرائیل کو امریکی سیاست میں یہ یوٹرن ناگوار گزرے لیکن ایسے فیصلے کے سفارتی نتائج ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ذات کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اعلانیہ طور پر "پاگل شخص" والے ماڈل کا پیروکار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو غیر متوقع اقدامات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ خود کو "معاہدہ یا جنگ" جیسے دو راہے کے پھندے میں پھنسائے۔ ایران کی موجودہ جوہری صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی حالت میں برقرار ہے اور وہ کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے جس کا فوری راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔

متعلقہ مضامین

  • پسند کی شادی کرنے پر میاں بیوی قتل؛ سابق منگیتر ملوث نکلا
  • ہمایوں سعید اپنی بیوی کے پاؤں کیوں دباتے ہیں؟ اداکار نے خود انکشاف کردیا
  • طاقتور شخصیات کی جنگ، ٹرمپ کی مسک کو ڈیموکریٹس کی حمایت پر سنگین نتائج کی دھمکی
  • ٹرمپ بمقابلہ مسک: ڈیموکریٹس کی حمایت کی تو سنگین نتائج کیلئے تیار رہو،امریکی صدر
  • ٹرمپ نے مسک کو خبردار کر دیا، ڈیموکریٹس کی حمایت کی تو سنگین نتائج کیلیے تیار رہو
  • کشمیر میں اگر سب کچھ معمول پر ہے تو جامع مسجد کیوں بند ہے، التجا مفتی
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • انکار کیوں کیا؟