سپریم کورٹ: 100 روز میں 8174 مقدمات نمٹائے، جوڈیشل کونسل، شکایت پر 5 ججز سے وضاحت طلب
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس یحیی آفریدی کے پہلے 100 دن میں سپریم کورٹ کے زیر التوا مقدمات میں تین ہزار کی بڑی کمی واقع ہوئی۔ سپریم کورٹ کی طرف جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق سپریم کورٹ نے 8 ہزار 174 مقدمات کا فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ میں 4 ہزار 963 نئے مقدمات کا اندراج ہوا۔ سپریم کورٹ کے اعلامیہ کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے دو میٹنگز میں ججز کیخلاف 46 شکایات کا جائزہ لیا، جوڈیشل کونسل نے ججز کیخلاف 40 شکایات کو نمٹایا۔ اعلامیہ کے مطابق جوڈیشل کونسل نے 5 شکایات پر 5 ججز سے ابتدائی جواب مانگا۔ جج کیخلاف ایک شکایات پر مزید تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں ججز کے خلاف 46 شکایات نمٹادی گئیں جبکہ 5 شکایات پر ججز سے وضاحت طلب کرلی گئی۔ میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے 100 دنوں کے عدالتی اصلاحات اور اقدامات کی تفصیلات جاری کردیں جس کے مطابق 26 اکتوبر سے 6 فروری 2025ء تک چیف جسٹس پاکستان کی قیادت میں عدلیہ نے نمایاں اصلاحات نافذ کیں۔ چیف جسٹس نے عدالتی اصلاحات میں سٹیک ہولڈرز کی شمولیت کے لیے ایک ’’آن لائن فیڈ بیک فارم‘‘ سپریم کورٹ کی سرکاری ویب سائٹ پر فراہم کیا گیا۔ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ایک اہم پیش رفت ای حلف نامے اور فوری تصدیق شدہ نقول کی فراہمی ہے، جس سے قانونی کارروائیوں میں تاخیر کم ہوئی اور سائلین و وکلاء کے لیے عدالتی عمل تک رسائی آسان ہوگئی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ساتھ مشاورت کے بعد مقدمات کی جلد سماعت کے لیے رہنما اصول مرتب کیے گئے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ 100 دنوں میں سپریم کورٹ 4,963 نئے مقدمات آئے، 100 دنوں میں 8,174 مقدمات نمٹائے، جو عدالتی عمل میں بہتری اور مقدمات کے تصفیے میں تیزی کی عکاسی کرتا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمشن کے سیکرٹری کی تقرری کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ پانچوں اعلیٰ عدالتوں میں 36 اضافی ججوں کی تقرری اور سپریم کورٹ و سندھ ہائی کورٹ میں آئینی بینچز کی تشکیل مکمل کر لی گئی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں خوداحتسابی کے فروغ کیلئے جوڈیشل کونسل نے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک علیحدہ سیکرٹریٹ قائم کیا۔ کونسل نے اپنے دو اجلاسوں میں آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت 46 شکایات کا جائزہ لیا، جن میں سے 40 شکایات نمٹا دی گئیں، 5 میں مزید وضاحت طلب کی گئی، جوڈیشل کونسل نے ایک شکایت پر شکایت کنندہ سے مزید معلومات مانگ لیں۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان نے عدالتی کارکردگی اور قانونی نمائندگی کو مضبوط بنانے کے لیے اہم اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن میں ریٹائرڈ ججوں کی جگہ نئے ارکان کی شمولیت اور وسیع تر سٹیک ہولڈرز کی شرکت‘ سینئر وکلاء کو نمائندگی دی گئی۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن میں کراچی کیلئے مخدوم علی خان، پنجاب کیلئے خواجہ حارث کو شامل کیا گیا۔ بلوچستان سے کامران مرتضیٰ، پشاور سے فضلِ حق، اسلام آباد سے اور منیر پراچہ کو شامل کیا گیا۔ انصاف تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے باقاعدہ جیل دورے اور دور دراز اضلاع تک رسائی شامل ہے تاکہ قیدیوں کی صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے۔ اعلامیے کے مطابق ضلعی عدلیہ کی صلاحیت میں اضافے کے لیے، غیر ملکی تربیتی پروگرام متعارف کرائے گئے ہیں۔ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی نے مسلسل قانونی تعلیم اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے ایک نیا اقدام متعارف کرایا ہے۔ بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کے لیے ایک مخصوص واٹس ایپ کمیونٹی قائم کی گئی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے لیے ایک کے مطابق گیا ہے
پڑھیں:
ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
ریاستی انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست آسام کے گولپاڑہ ضلع کے ہسیلا بیلا گاؤں میں مبینہ طور پر غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی گئی بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ نوٹس اس وقت جاری کیا گیا جب اس کارروائی سے متاثرہ افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل عدیل احمد نے عدالت کو بتایا کہ 13 جون 2025ء کو انتظامیہ نے ایک عمومی نوٹس جاری کیا تھا، جس میں 15 جون تک علاقہ خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، تاہم نہ تو کسی کو ذاتی طور پر مطلع کیا گیا اور نہ ہی کوئی سنوائی کا موقع دیا گیا۔ 667 خاندانوں کے گھروں اور 5 اسکولوں کو منہدم کر دیا گیا، جس سے بچوں کے بنیادی تعلیمی حقوق بھی متاثر ہوئے۔
وکیل نے مزید کہا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے 13 نومبر 2024ء کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں بلڈوزر کارروائی سے قبل قانونی ضابطوں کی مکمل تعمیل پر زور دیا گیا تھا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 60 برسوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور ان کے آبا و اجداد دریائے برہم پتر کے کٹاؤ کے سبب اپنی زمینیں کھو چکے تھے۔ لہٰذا وہ سبھی بے دخل شدہ افراد "پرانے باشندے" اور بازآبادکاری کے مستحق ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے جمعرات کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے آسام کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور آئندہ سماعت میں جواب طلب کیا۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جن افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، متاثرہ خاندانوں کو مناسب معاوضہ اور متبادل رہائش فراہم کی جائے، نیز منہدم شدہ اسکولوں کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا جائے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہے اور آئندہ سماعت میں حکومت آسام کو اس کارروائی کی وضاحت دینی ہوگی کہ آخر کس بنیاد پر بغیر مناسب ضابطے کی تکمیل کے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ اس کارروائی کو لے کر انسانی حقوق کے ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور سیاسی سطح پر بھی اس پر تنقید جاری ہے۔