عمر ایوب کا عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے تمام سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے مطالبہ کیا کہ بانی پاکس+تان تحریک انصاف عمران خان سمیت تمام گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے
ہری پور میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج پارلیمنٹ اور سڑکوں پر جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال عام انتخابات میں مینڈیٹ چوری ہونے پر آج یوم سیاہ منا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر رہے ہیں، مینڈیٹ چوری پر ہمارا احتجاج پارلیمنٹ اور سڑکوں پر جاری رہے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بنیادی انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں ٹریفک کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے نافذ کیے گئے ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) نے شہریوں، ماہرین اور سیاسی حلقوں میں شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔
27 اکتوبر سے نافذ العمل ہونے والے اس ڈیجیٹل ای چالان نظام کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ شہر میں ٹریفک سے متعلق بنیادی انفرا اسٹرکچر کا تباہ حال ہونا ہے۔ اربن پلانرز اور سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کی 60 فیصد سے زائد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جب کہ اندازاً 80 فیصد سے زائد شاہراہوں پر ٹریفک کے اشارے (سگنلز) اور علامات نصب ہی نہیں ہیں، یا درست کام نہیں کررہے۔ ایسے میں ٹریفک مینجمنٹ قائم کیے بغیر جدید ترین مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ خودکار نظام (ٹریکس) کس طرح کامیابی سے کام کرے گا، یہ ایک بڑا سوال ہے۔
شہری حلقوں کی جانب سے تحفظات کا دوسرا اہم نکتہ جرمانوں کی غیر معمولی حد تک زیادہ شرح ہے، جو 5 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک مقرر کی گئی ہے۔ شہریوں کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بے روزگاری اور کم آمدنی والے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے بھاری جرمانے کیسے ادا کر پائیں گے۔
قانون دانوں اور سیاسی رہنماؤں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ جب ملک کے دیگر شہروں مثلاً لاہور میں چالان کی شرح بہت کم ہے تو کراچی کے شہریوں پر اتنا بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے، جو آئینی طور پر ایک ملک میں دو قوانین کی موجودگی پر سوال کھڑا کرتا ہے۔
سیاسی جماعتوں نے اس نظام کو ظالمانہ رویہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف عوامی احتجاج بلکہ عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد اس نظام کا مستقبل اب سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سے منسلک ہو گیا ہے۔