UrduPoint:
2025-09-18@22:59:30 GMT

روس اور امریکہ کے مابین یوکرین کے معاملے پر رسہ کشی

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

روس اور امریکہ کے مابین یوکرین کے معاملے پر رسہ کشی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 فروری 2025ء) روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کو تقریبا تین سال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے۔ روسی فوج یوکرین میں کئی محاذوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔ یوکرین کو جنگی ہتھیاروں اور افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے اور امریکہ کی جانب سے کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر یوکرین کی جنگی امداد روکی جاسکتی ہے۔

روس اور مغربی ماہرین کا ماننا ہے کہ روسی صدر اپنا ہدف کے حصول کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔

اس سے قطع نظر کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس پر کسی بھی قسم کی پابندی عائد کر دیں۔

ٹرمپ نے اپنی ایک انتخابی مہم کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ روس یوکرین تنازعہ 24 گھنٹوں کے اندر حل کر سکتے ہیں۔ بعد تاہم انہوں نے ان چوبیس گھنٹوں کو چھ ماہ میں تبدیل بھی کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی ٹیم کریملن کے ساتھ اس معاملے پر 'انتہائی سنجیدہ‘ گفتگو کر رہی ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ وہ اور روسی صدر جلد ہی اس جنگ کے خاتمے کے لیے 'اہم قدم‘ اٹھائیں گے۔ اس جنگ میں روس کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ روس کو فوجی اموات کے علاوہ مغربی پابندیوں اور معیشت میں گراوٹ جیسے معاملات کا سامنا ہے

لیکن بہرحال روسی معیشت مکمل زبوں حالی کا شکار نہیں ہوئی۔ پوٹن نے اس دوران تمام مخالف آوازوں کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن کیا اور اسی لیے انہیں جنگ کے خاتمے کے حوالے سے ملکی سطح پر کسی بھرپور دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔

یوکرین سے متعلق بات چیت، یوکرین کے بغیر؟

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ پوٹن کییف کو معاملات سے باہر رکھ کر ٹرمپ کے ساتھ بہ راہ راست بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

زیلنسکی نے کہا، ”ہم کسی کو یوکرین کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرنے دے سکتے ہیں،" انہوں نے کہا کہ

روس یوکرین کی آزادی اور خودمختاری تباہ کرنا چاہتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی کوئی بھی امن ڈیل دیگر آمرانہ سوچ رکھنے والے رہنماؤں کے لیے بھی ایک خطرناک مثال قائم کرے گی۔

سفارتی حلقے کیا سوچتے ہیں؟

2016 سے 2019 تک امریکہ میں تعینات برطانوی سفیر سر کم ڈروچ کے مطابق، ”ٹرمپ اپنے امن معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے خواہاں ہیں تاہم پوٹن یوکرین کو اپنی 'آبائی زمین‘ قرار دیتے ہیں اور وہ اتنی آسانی سے یہ علاقے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔

نیٹو کے سابق ترجمان اوانا لنجکو نے کہا کہ ماسکو کے حق میں ہونے والا معاہدہ امریکہ کی کمزور پالیسی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ فن لینڈ کے سابق صدر سولی نینسٹو نے کہا، ٹرمپ اور پوٹن میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ پوٹن ایک منظم مفکر ہیں جو سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں اور ٹرمپ ایک کاروباری سوچ کے حامل انسان ہیں جن کے فیصلے فوری اور جلدبازی کے ہوتے ہیں۔

شخصیتوں میں اختلاف اس معاملے پر بھی تصادم کا سبب بن سکتا ہے۔ ٹرمپ اس جنگ کا فوری حل چاہتے ہیں جبکہ روسی صدر اس پر ابھی راضی دکھائی نہیں دیتے۔ یوکرینی صدر کے مطابق پوٹن ابھی بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ اس حوالے سے ہر پیش قدمی کو سبوتاژ کر دیں گے۔

جنیوا میں سابق روسی سفارتکار، بورس بونڈاریف نے کہا، ”ٹرمپ بلآخر اس معاملے سے اکتا جائیں گے اور ان کی توجہ کسی اور مسئلے پر مرکوز ہو جائے گی اور اس بات کا اندازہ پوٹن کو بخوبی ہے۔

"

لندن کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ایک روسی فوجی اور معاشی ماہر رچرڈ کونولی نے کہا کہ ٹرمپ نے روس کو مزید ٹیکس، پابندیوں اور تیل کی قیمتوں میں کٹوتی کی دھمکی دی ہے، لیکن معاشی طور پر کمزور کرنا کوئی ایسا ہتھیار نہیں ہے جس کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوں۔ کیونکہ کے روس کو پہلے ہی کئی پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔

ٹرمپ کے پاس کون سے آپشنز ہیں؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ اس بات کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے کہ یوکرین کبھی بھی نیٹو میں شامل نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ تمام مغربی پابندیاں ختم کر سکتے ہیں۔

وہ نہ تو یورپ کو روسی توانائی کی درآمد کو دوبارہ شروع کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں اور نہ ہی بین الاقوامی فوجداری عدالت کو پوٹن کے لیے اپنے جنگی جرائم کی گرفتاری کے وارنٹ کو منسوخ کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اوپیک الائنس اور سعودی عرب پوٹن پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیل کی قیمتوں میں کمی کرے۔

دوسری جانب کریملن اس بات کی پروا نہیں کرتا، کیونکہ ماسکو حکومت کے مطابق یہ جنگ روسی سلامتی کے بارے میں ہے، تیل کی قیمتوں کے بارے میں نہیں۔ روس کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ اس سے امریکی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کے اتحادی اکثر ان کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ اگر پوٹن پر یہ خوف طاری نہیں ہوا تو؟

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ کا سامنا سکتے ہیں ہیں اور اس بات روس کو کے لیے

پڑھیں:

امریکہ اور برطانیہ کی بحیرہ احمر میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں، یمن

صنعا نے امریکہ اور برطانیہ پر بحیرہ احمر کو میدان جنگ میں تبدیل کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک ایسے اتحاد بنانے کے خواہاں ہیں، جن کا خطے کے ممالک کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ یمنی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں بین الاقوامی جہاز رانی کی حفاظت اور حفاظت کے عزم پر زور دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یمن بین الاقوامی قانون کے احترام اور خطے کے ممالک کی اجتماعی سلامتی کے اصولوں کے فریم ورک کے اندر سمندری راستوں کے تحفظ پر مبنی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ صنعا حکومت کی وزارت خارجہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ میری ٹائم سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کا انحصار خطے سے غیر ملکی فوجی بیڑے کے انخلا پر ہے، کیونکہ ان کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں ہے۔

صنعا نے امریکہ اور برطانیہ پر بحیرہ احمر کو میدان جنگ میں تبدیل کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک ایسے اتحاد بنانے کے خواہاں ہیں، جن کا خطے کے ممالک کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یمنی وزارت خارجہ کے مطابق بحیرہ احمر میں یمن کی کارروائیاں صرف صہیونی دشمن کے مفادات کو نشانہ بناتی ہیں اور غزہ میں اسرائیلی جرائم کو روکنے کے لئے ہیں۔ یہ بیان گذشتہ دن صہیونی حکومت کے جنگی طیاروں کی جانب سے یمن کی بندرگاہ الحدیدہ میں 12 مرتبہ اہداف پر بمباری کے بعد جاری کیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
  • اینڈی پائیکرافٹ کے معاملے پر پاکستان کے سامنے تجاویز رکھ دی
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • امریکہ اور برطانیہ کی بحیرہ احمر میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں، یمن
  • کسانوں پر زرعی ٹیکس کے نفاذ پر اسپیکر پنجاب اسمبلی برہم
  • قطرمیں اسرائیلی حملہ امریکہ کی مرضی سے ہوا،خواجہ آصف
  • نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائن دھماکوں کے ملزم کی جرمنی حوالگی
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف