میرا بس چلے تو فوری طور پر 15 فیصد ٹیکس کم کردوں، وزیراعظم شہباز شریف
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے مہنگائی کم ترین سطح پر آگئی ہے، میرا بس چلے تو فوری طور پر 15 فیصد ٹیکس کم کردوں۔
یوم تعیمر و ترقی کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جب حکومت سنبھالی تو آئی ایم ایف پروگرام ہچکولے کھا رہا تھا، آئی ایم ایف سے معاہدہ ممکن ہوا اور ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا، کاروباری برادری نے مشورے دینے ہیں کیسے ترقی کرنی ہے، کاروباری برادری کی مشاورت سے آگے بڑھیں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے، اب معاشی نمو کا سفر طے کرنا ہے، مشکل فیصلے کر چکے ہیں مگر آگے کا سفر بھی آسان نہیں ہے، گزشتہ 10 ماہ مشکل تھے مگر اب ترقی و خوشحالی کا سفر طے ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کےلیے سب اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، تنخواہ دار طبقے نے 300 ارب روپے قومی خزانے میں دیے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سرمایہ کاروں سے زیادتی نہیں ہونی چاہیے، چیئرمین ایف بی آر اُن کی بات سنیں، حکومت نے ایس او ایز نہیں چلانے، سرمایہ کار انہیں خریدیں اور چلائیں۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ دہشتگردی کا خاتمہ نہ ہوا تو ترقی اور ایکسپورٹس میں اضافہ بھی نہیں ہوگا، افواج پاکستان دہشتگردی کیخلاف قربانیاں دے رہی ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: شہباز شریف نے کہا کہ
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، زعفران کی پیداوار میں 90 فیصد کمی، کاشتکار پریشان
کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کا مشہور زعفران سیکٹر ایک بار پھر شدید بحران کی لپیٹ میں ہے، کاشتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کی پیداوار میں تقریباً 90 فیصد کمی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے علاقے پامپور کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ زعفران کی پیداوار بمشکل 10 تا 15 فیصد ہے اور ہزاروں خاندان معاشی بدحالی کے دہانے پر ہیں۔ پامپور جہاں زعفران کی سب سے زیادہ کاشت ہوتی ہے، کے کاشتکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صدیوں سے کشمیر کی شناخت کی حامل زعفران کی فصل ختم ہو سکتی ہے۔ ”زعفران گروورز ایسوسی ایشن جموں و کشمیر“ کے صدر عبدالمجید وانی نے کہا کہ پیداوار بمشکل 15 فیصد ہے۔ یہ گزشتہ سال کی فصل کا نصف بھی نہیں ہے، جو بذات خود عام فصل کا صرف 30 فیصد تھا۔ ہر سال اس میں کمی آ رہی ہے اور حکومت اس شعبے کی حفاظت کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ بار بار کی خشک سالی، موثر آبپاشی کی کمی اور دستیاب کوارمز کا خراب معیار ہے۔ کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ پامپور کے پریشان کسانوں کے ایک گروپ نے کہا، "زعفران کی بحالی صرف فصل کو بچانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک روایت، ایک ثقافت اور ایک شناخت کو بچانے کے بارے میں ہے اور اگر فوری اور موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2030ء تک پامپور میں زعفران نہیں بچے گا۔