ہمارے لب سی دیے گئے لیکن میری زبان بولے گی، شیر افضل مروت کی صوابی جلسے میں للکار
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
صوابی:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں کی جانب سے سائیڈ لائن کیے گئے سینئر رہنما شیر افضل مروت صوابی جلسہ عام میں پھٹ پڑھے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور جب اسٹیج پر تقریر کے لیے آئے تو شیر افضل مروت بھی ان کے ساتھ اسٹیج پر پہنچے اور اپنے مختصر خطاب میں کہاکہ ہم برے لوگ ہیں برے وقتوں میں کام آتے ہیں۔ اچھے وقتوں میں اچھے لوگوں نے ہمارے لب سی دیے ہیں لیکن میری زبان بولے گی۔
ہم برے لوگ ہیں برے وقتوں میں کام آتے ہیں۔ اچھے وقتوں میں اچھے لوگوں نے ہمارے لب سی دیے ہیں لیکن میری زبان بولے گی،
واضح رہے کہ پارٹی سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا کے خلاف زبان کھولنے پر پارٹی نے شیر افضل مروت کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔
شیر افضل مروت نے شوکاز نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ سلمان اکرم راجا جیسے لوگوں کی وجہ سے پارٹی کو نقصان ہورہا تھا۔
شیر افضل مروت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملنے کی بھی کوشش کی تھی تاہم سابق وزیراعظم نے ان سے ملنے سے انکار کردیا تھا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شیر افضل مروت وقتوں میں
پڑھیں:
’اسلام کا دفاع‘
ہم جس فقہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اسے دینی و سیاسی رہبری کے لیے ایک عدد شیخ الاسلام، ایک ہی مفکر اسلام اور ایک قائد ملت اسلامیہ خدمات میسر ہیں۔ یہ ان بزرگوں کی خدمت کی برکت ہے کہ مسلم دنیا پر 500 سال سے جاری زوال کا ہمارے مکتب فکر پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہاں دین ترقی پر ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہر آنے والے سال پچھلے برس سے زیادہ چندہ ہوتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا دینی جوش بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شیخ الاسلام، مفکر اسلام اور قائد ملت اسلامیہ کو دینی و اخلاقی لحاظ سے جو بھی بے راہ روی نظر آتی ہے اپنے مکتب فکر کے دائرے سے باہر نظر آتی ہے۔ چنانچہ انہیں ساری نصیحتیں ہی نہیں بلکہ ڈانٹ ڈپٹ بھی گھر سے باہر والوں کو کرنی پڑتی ہے۔
منبر رسول ہو، مضمون ہو یا ٹویٹ۔ ہر جگہ ان کی تلقین صرف باہر والوں کے لیے ہوتی ہے۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز کے دور سے متعلق مشہور ہے کہ شہری مالی لحاظ سے اتنے مستحکم ہوگئے تھے کہ امراء زکوۃ ہاتھ میں لئے پھرتے تھے مگر کوئی مستحق زکوٰۃ نہ ملتا، جسے دے کر زکوٰۃ کا فریضہ ادا ہوپاتا۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال کا ہمارے بزرگوں کو یوں سامنا ہے کہ انہیں اپنے مکتب فکر کے اندر کوئی ’مستحق اصلاح‘ نہیں ملتا تاکہ یہ اصلاح کا آغاز گھر سے کرسکیں۔ یوں انہیں اپنے وعظ کی زکوۃ ادا کرنے کے لیے دور پار دیکھنا پڑتا ہے۔
اس کے برخلاف بریلوی مکتب فکر کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں ہمارے بہت ہی مہربان مفتی منیب الرحمان اور مفتی محمد اکمل صاحب کو روز اپنوں کو ہی تلقین کرنی پڑتی ہے۔ کبھی وہ انہیں قبروں پر سجدوں سے روکتے ہیں، کبھی نعت خوانی کے نام پر ’شوبز‘ کے جملہ تقاضے پورے کرنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو کبھی دیگر بہت سی خرافات پر انہیں اپنوں کا ہی شدید لب و لہجے میں محاسبہ کرنا پڑتا ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوا؟ یہی کہ ان کا تو ’خانہ‘ ہی خراب ہے۔ سو ان بزرگوں کے پاس اس باطل کی سرکوبی کے لیے وقت ہی بہت تھوڑا بچتا ہے جو ان کے مکتب فکر کی چار دیواری کے باہر منڈلا رہا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی دفاع اور منی لانڈرنگ
لگ بھگ 30 برس ہونے کو ہیں جب شیطان نے ہمیں گمراہ کیا اور ہم سے پہلی بار یہ گناہ سرزد ہوگیا کہ اپنوں کو ہی تلقین کر ڈالی۔ یہ گناہ ہم سے ’علماء الریال‘ کے عنوان سے سرزد ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر ہمارے بزرگوں کا دل ہی بیٹھ گیا کہ اپنے ہی گھر میں ایک فتنہ پیدا ہوگیا جو اس طرح کے بیہودہ کالم لکھتا ہے؟ سو ان میں سے جن پر اللہ کی رحمانی صفت کا غلبہ تھا، انہوں نے پاس بلا کر دو باتیں سمجھانے کی کوشش کی۔ پہلی یہ کہ ’تم بچے ہو‘ اور دوسری یہ کہ گھر کی باتیں باہر نہیں کی جاتیں۔ باہر صرف باہر والوں کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اور جن بزگوں پر اللہ کی جباری صفت کا غلبہ تھا انہوں نے تو جو منہ میں آیا ہمیں سنا ڈالا۔ اب آپ کہیں گے کہ بتایئے تو سہی کیا سنا ڈالا تھا؟ تو آپ کے جھانسے میں آکر ہم کالم باؤنس کروا دیں؟ بس اتنا جان لیجیے کہ وہی الفاظ تھے جن کے استعمال پر 2 یہودی سوشل میڈیا پلیٹ فارم یوٹیوب اور فیس بک اکاؤنٹ اڑا دیتے ہیں۔
عربی کی کہاوت ہے کہ انسان اس چیز میں زیادہ حرص محسوس کرتا ہے جس سے اسے روکا جائے۔ سو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جلد وہ وقت آیا جب ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ تب ہمارے بزرگوں کا مؤقف بنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فتنوں کے دور میں گھر دبک جایا کرو۔ یوں ہمارے بزرگ دبک لیے۔ وہ اللہ والے تھے، فتنوں کا سامنا کرنے سے ان کےدامنِ ولایت پر چھنٹے پڑ سکتے تھے۔ ہمارا تو دامن پہلے سے ہی داغدار تھا، سو فتنوں کو چیلنج کرنے کا ذمہ ہم نے ہی لے لیا۔ صرف فتنوں کو ہی چیلنج نہ کیا بلکہ انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیا جو گھروں میں دبک لیے تھے۔ یوں پر ہم پر علماء کا گستاخ ہونے کی الہامی مہر بھی ثبت ہوگئی۔ سنا ہے ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب ایسے بزرگ ہوا کرتے جس کا حوالہ شاملی کا میدان تھا۔ ہوتے ہوں گے، ضرور ہوتے ہوں گے مگر اپنے حصے میں تو صرف شملے آئے ہیں۔ وہ شملے جنہیں ہم سے زیادہ میمن سیٹھ جانتے ہیں۔
کسی میمن سیٹھ کے پاس ایک پریشان حال شملہ پہنچا اور فرمایا ’اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے، احقر اس کا سد باب کرنا چاہتا ہے مگر وسائل نہیں ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کمانے کے لیے وقت ہی کہاں ہوتا ہے؟ آپ کے پاس بس اس دعا کی درخواست کے لیے آیا ہوں کہ اللہ وسائل کا انتظام فرما دیں‘۔
میمن سیٹھ پریشان کہ اس کی کیا اوقات کہ شملے کو دعا دے؟ سو اس نے شملے کو بھی اپنی اس سوچ سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ حضرت ہماری کیا اوقات کہ آپ کو دعا دیں؟ جواب آیا ’نیک تاجر اللہ کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے۔ اور اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کی دعائیں خوب قبول کرتا ہے‘۔
میمن ویسے تو بڑے معصوم ہوتے ہیں مگر جب معاملہ پیسے کا ہو تو پھر رمز بھی ان کے آگے رمز نہیں رہتا، سو اس نے موٹی سی رقم ادا کرتے ہوئے کہا
’تاجر کے پاس 2 ہی چیزیں ہوتی ہیں، ایک مال تجارت اور دوسری اس کی کمائی۔ کمائی میں سے معمولی سا حاضر ہے، دعائیں کسی اور سے لے لیجیے گا‘۔
کچھ دن بعد وہی شملہ کسی تقریب میں ملا تو سلام دعا کے بعد سیٹھ سے ان کا حال پوچھ لیا۔ سیٹھ نے کہ ’ہمارا حال چھوڑیے حضرت، یہ بتایئےاسلام کا کیا حال ہے؟‘
حضرت نے خوشخبری سنا دی کہ ان کے دیے مال سے اسلام کا حال اچھا ہے۔ یہ میمن شرارتی بہت ہوتے ہیں۔ ایک روز ہم سے کہنے لگے
’اسلام کب خطرے میں ہوتا ہے اور کب مامون، اس کا اپن سے زیادہ کسی کو پتا نہیں‘۔
ہم نے درخواست کردی کہ اس راز میں ہمیں بھی شریک فرما لیجیے۔ فرمایا
مزید پڑھیے: ’غلامی آج بھی موجود ہے‘
’رمضان سے ایک 2 ہفتے قبل اپن کو وٹس ایپ کے ذریعے یاد دہانی کرادی جاتی ہے کہ اسلام کو خطرہ لاحق ہونے لگا ہے۔ رمضان آتے ہی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے جو عید کے تیسرے دن تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد اسلام مامون ہوجاتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ چندہ مانگنے والوں کی گاڑی کے ماڈل بدل جاتے ہیں۔ گاڑی تو بندہ امن والے دنوں میں ہی خرید سکتا ہے، خطرات والے ایام بھی بھلا کوئی گاڑی کی خریداری کرسکتا ہے؟ اس کے بعد سال کے وسط میں جاکر اسلام کو تھوڑا سا خطرہ پھر سے لاحق ہوتا ہے۔ اس بار جب اسلام خطرے سے باہر نکلتا ہے تو چندہ مانگنے والوں کی اولاد کے سیل فون بھی بدل جاتے ہیں‘۔
وہ کہتے، اور ہم مسکراتے جا رہے تھے، جس کا غلط نتیجہ اخذ کرکے دریافت فرمایا
’آپ کو میری بات کا یقین نہیں؟‘
ہم نے کانوں کو ہاتھ لگا کر آگاہ کیا کہ اسلام کو لاحق خطرات تو اب اتنی شدت اختیار کرگئے ہیں کہ دفاع کے لیے فرخ کھوکھر کی خدمات لینی بھی واجب ہوگئیں۔ سنا ہے چھوٹے کھوکھر نے کسی اپنے جیسے دوسرے ’سماجی رہنما‘ کو اسلامی میں 5 کروڑ دیے تھے۔ تو سوچیے اسلام کے دفاع کے لیے وہ کیا کچھ نہیں دے گا۔ این سعادت بزور تعویذ نیست !
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں