Express News:
2025-06-09@22:18:21 GMT

آخر کچھ تو مسئلہ ہے!

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

گزشتہ کل آٹھ فروری کا دن تھا۔صبح اخبار کھولا تو پورا صفحہ موجودہ حکومت کی کامیابیوں اور کارناموں سے بھرا پایا۔ باقی صفحات پر نظر دوڑائی تو معمول کا ماحول نظر آیا۔

پہلی شہ سرخی نے یوں استقبال کیا، 26 ویں ترمیم کیس سننے والے آئینی بینچ پر عوامی اعتماد پہلے ہی متزلزل ہے۔ فل کورٹ بنایا جائے، سپریم کورٹ میں جج نہ لگائیں۔ چار ججز کا چیف جسٹس کو خط۔

ایک اور شہ سرخی کچھ یوں تھی : پاکستان کی 3.

4 ارب ڈالر قرض دو سال کے لیے ری شیڈول کرنے کی درخواست, چین کا مثبت رویہ۔

پاکستان کو پانچ ارب ڈالر بیرونی فائننسنگ گیپ کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کے تین سالہ پروگرام کے لیے فائنینسنگ ذرایع کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے چین درخواست قبول کر لے گا۔ چین چار ارب ڈالر کے نقد ذرایع ساڑھے چھ ارب کے تجارتی قرضوں اور 4.3 ارب ڈالر کی تجارتی مالیاتی سہولت کو رول اور کرتا آ رہا ہے۔

وزیر خزانہ چار ارب ڈالر کے نئے قرض کی درخواست بھی کر چکے ہیں۔ حکومتی ذرایع پر امید ہیں کہ چینی حکام کا رویہ مثبت ہے اور بیجنگ پاکستان کی بیرونی فنڈنگ کے مسائل کو کم کرنے کی درخواست قبول کرلے گا۔

ایک اور خبر کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی پانچ میں سے تین بڑی شرائط پوری کر لیں۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ جاری سات ارب ڈالر کے پروگرام کے پہلے جائزے کے لیے پاکستان نے پانچ میں سے دو شرائط پوری کر لیں۔

حکام کو امید ہے کہ یہ جائزہ پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔بیک پیج پر کونے کھدرے میں ایک خبر کچھ یوں تھی پنجاب میں محکمہ بہبود آبادی صوبے میں شرح پیدائش کم کرنے میں ناکام۔ 1998 میں پنجاب کی کل آبادی سات کروڑ 36 لاکھ تھی، آج 12 کروڑ 76 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ محکمے کا موقف ہے ہمارا کام آبادی روکنا نہیں صرف مینج کرنا ہے۔ 2023 کے ان اعدادوشمار کے مطابق آبادی میں اضافہ 2.85 فیصد کی رفتار سے ہو رہا ہے۔

اس کیفیت پر منیر نیازی یاد آئے:

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

یوں تو پچھلی کئی دہائیوں سے ہی ہمارے سیاسی اور معاشی سفر کی یہی کیفیت ہے کہ حرکت تو تیز تر ہے مگر سفر آہستہ۔ سیاسی میدان میں دیکھیں تو ایک گرہ کھولنے کی کوشش میں کئی نئی گرہیں پڑ جاتی ہیں۔

ایک آزمائش سے جان چھوٹتی نہیں دو مزید آزمائشیں منتظر ملتی ہیں۔ پرویز مشرف کے بعد چارٹر آف ڈیموکریسی سے سیاسی جوار بھاٹا قدرے تھما تو روایتی پارٹیوں اور خاندانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب ’’ستے خیراں‘‘ ہیں۔ باری باری سب حکمران ہوں گے، یوں ان کی اگلی نسلیں بھی کامران ہوں گی لیکن 2014 کے بعد ایک اور دور شروع ہوا جو ادل بدل کے ساتھ ابھی تک جاری ہے۔

آج کی سب کی بڑی حقیقت یہی ہے کہ ملک تاحال سیاسی عدم استحکام کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ سیاسی کھینچا تانی میں آئینی اداروں کی عزت سادات بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔ انتخابات سیاسی اور انتظامی تسلسل کا انتظام ہوتے ہیں ، عوامی رائے کا مظہر ہوتے ہیں۔ عام انتخابات کا اہتمام کرنے والا آئینی ادارہ سیاسی کھینچا تانی میں مصروف لوگوں نے متنازعہ کردیا ہے۔

سیاسی تقسیم اور کھینچا تانی کا دھواں اعلیٰ عدالتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ آئینی ترمیم، آئینی بنچ اور نئے ججز کی تعیناتی سے ایک گرہ کھلی مگر دس نئی گرہوں کا وبال پیدا ہو گیا۔ سب اپنے اپنے آئینی وضاحتی سچ کے ساتھ صف بستہ ہیں۔ باقی اداروں کا تو ذکر ہی کیا جب ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارے اپنی اپنی گرہوں کو کھولنے یا پختہ کرنے میں مگن ہیں!

سیاسی تقسیم بیشتر ممالک میں ہوتی ہے، اس تقسیم کے سائے اعلیٰ آئینی اداروں پر بھی پڑتے ہیں مگر ملکی مفاد ، عوامی رائے اور تاریخ کا شعور آگے بڑھنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔ انفرادی ہار جیت ہوتی رہتی ہے لیکن ملک اور ادارے مظبوط ہوتے چلے جاتے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں جنوبی کوریا میں صدر نے مارشل لاء لگانے کا اعلان کیا تو پارلیمنٹ میں ان کی اپنی پارٹی سمیت ارکان اور بیرون پارلیمنٹ عوامی غیض و غضب نے انھیں اعلان واپس لینے پر مجبور کیا۔ پارلیمنٹ نے مواخذے کی تحریک پاس کرکے تاریخ رقم کر دی۔معاملہ آئینی عدالت میں پہنچا تو موصوف کو حلف شکنی کا مرتکب پایا گیا۔

معیشت میں مقامی سرمایہ کاری، برآمدات، صنعتی اور زرعی پیداوار میں اضافہ پائیدار معاشی نمو کی اصل بنیاد ہے تاہم سیاسی عدم استحکام اور دھما چوکڑی سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ اس کے باوجود عوام کو خوشخبریوں سے مالا مال رکھنے کی کوشش میں پی ڈی ایم کی حکومت نے آخری دنوں میں اربوں ڈالرز کے معدنی ذخائر کی دریافت اور ان کے لیے دوست ممالک کے مچلتے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا خوب ڈھول بجایا۔

ڈھول خاموش ہوا تو ایک لمبی چپ نے بسیرا کر لیا۔ اب موجودہ حکومت نے شمالی قبائلی علاقوں میں اربوں ڈالرز کی معدنیات کی خوش خبری سنائی۔ سرمایہ کاری کانفرنسوں میں دوست ممالک کے ایم او یوز کی بہار دکھائی۔ اٹک کے آس پاس سونے کے ذخائر نے بھی کچھ دن دل لبھایا۔ ریکوڈک میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری اور اب سی پیک کی نشاط ثانیہ کی خوشخبری۔ خوش خبریوں کی بہار ہے لیکن عملی میدان کی حالت زار کچھ اور ہے۔

وزیراعظم کی کامیاب پرفارمنس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھنے کی شرح دو سالوں میں کم ترین لیکن عوام بجلی کے بلوں سے بلبلایے ہوئے اور قوت خرید سے محروم ہیں ، اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر لیکن اس دوران ایک بھی نئی کمپنی لسٹ نہیں ہوئی۔ صنعتی اور زرعی پیدوار کم و بیش جامد۔ بے روزگاری وافر اور روزگار کے مواقع محدود تر۔ میڈیا پر ایک ہی موضوع صبح شام چھایا ہوا ہے۔ اگر بہ قول حکومت ہر چہ بادا باد ہے تو پھر یہ سیاسی عدم استحکام چار سو کیوں یے؟ آخر کچھ تو مسئلہ ہے!

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرمایہ کاری ارب ڈالر کے لیے

پڑھیں:

سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ اور اراکینِ سلامتی کونسل سے اچھی بات چیت ہوئی: جلیل عباس جیلانی

جلیل عباس جیلانی—فائل فوٹو

پاکستانی سفارتی وفد کے رکن جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن تمام ممبران کے ساتھ اچھی بات چیت ہوئی، یو این کے سیکرٹری جنرل اور صدر جنرل اسمبلی سے بھی ملاقات ہوئی۔

لندن میں ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ بھارت نے جارحیت کی ہے، پاکستان امن پسند ملک ہے، ہم کافی عرصے سے بھارت کو کہہ رہے تھے کہ مسائل پُرامن طریقے سے حل کیے جائیں، بھارت کی جارحیت پر پاکستان کے جواب سے دنیا میں بھارت کے امیج کو دھچکا لگا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کافی عرصے سے الزام تراشی کر رہا تھا اب کسی نے بھارت کے بیانیے کو قبول نہیں کیا، بھارت نے کچھ ممالک کو بھی قائل کرنے کی کوشش کہ وہ بڑی طاقت ہے۔ 

جلیل عباس جیلانی نے کہا بھارت کے بڑی طاقت ہونے کا جھوٹا تاثر ختم ہو گیا ہے، پاکستان نے بھارت کے 6 جہاز گرائے، سسٹم جام کیا، فوجی تنصیبات کو ہٹ کیا، حالیہ جنگ کے بعد مسئلہ کشمیر پوری دنیا میں عالمی مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔

دریں اثناء پاکستانی سفارتی وفد کی رکن سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے لندن میں ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ اور مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کے ارکان کے ساتھ بات کی، آج سندھ طاس معاہدہ نظر انداز کیا جاتا ہے تو پھر مستقبل میں کسی معاہدے کی وقعت نہیں ہو گی۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم امن کا پیغام لے کر آئے ہیں لیکن اس کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔

سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے کہا کہ تجارت اور معیشت سے متعلق ٹرمپ کی فلاسفی کے ساتھ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی فلاسفی میچ کرتی ہے، پاکستان اور بھارت جنگ میں جاتے ہیں تو پورا خطہ متاثر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں ہمیں بہتر رسپانس ملا ہے، پاکستان اس کو سیز فائر کہہ رہا ہے اور بھارت اس کو ایک وقفہ کہہ رہا ہے، آج کشمیر اور سندھ طاس معاہدے کا مسئلہ حل نہ ہوا تو 6 ماہ بعد معاملہ پھر بڑھ جائے گا، ہم چاہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اس معاملے میں کردار ادا کریں تاکہ خطہ جنگ سے متاثر نہ ہو۔

پاکستانی سفارتی وفد کے رکن اور سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ پانی کا معاملہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا ہے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

انہوں نے کہا کہ امریکیوں کا یہ خیال تھا کہ ٹرمپ نے سیز فائر کرا دیا مزید مداخلت کی ضرورت نہیں، ہمارا مشن ان کو یہ سمجھانا تھا کہ مداخلت کی ضرورت ہے، بھارت نہ غیر جانبدار انکوائری اور نہ بات کرنا چاہتا ہے۔

خرم دستگیر نے یہ بھی کہا کہ ہم نے یہ بات سمجھائی کہ پانی کے ساتھ 24 کروڑ لوگوں کی زندگی منسلک ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مسئلہ کشمیر پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا وعدہ پورا کریں گے، بلاول زرداری
  • مسئلہ کشمیر پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا وعدہ پورا کریں گے، بلاول بھٹو
  • بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا فیصلہ واپس لے، بلاول
  • اقتصادے سروے میں آئی ٹی کا شعبہ تیزی سے ترقی کرنے والا نمایاں شعبہ قرار
  • پاکستان سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا ہو یا دہشتگردی کا، جنگ ان مسائل کا حل نہیں ہے؛ بلاول بھٹو
  • بلاول بھٹو: بھارت سے مسائل کا واحد حل مسئلہ کشمیر کا حل ہے
  • بھارت کے بڑی طاقت ہونے کا جھوٹا تاثر ختم ہو گیا، جلیل عباس جیلانی
  • کل جماعتی حریت کانفرنس کا کشمیری قیادت کی مسلسل غیر قانونی نظربندی پر اظہار تشویش
  • جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟
  • سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ اور اراکینِ سلامتی کونسل سے اچھی بات چیت ہوئی: جلیل عباس جیلانی