ریگولر بینچز میں آئینی و قانونی تشریح کیسز کی سماعت آئین و ضابطہ کی خلاف ورزی، جسٹس مظہر
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ آئینی بینچ کے سینئر رکن جسٹس محمد علی مظہر نے ریگولر بینچوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ قانون اور آئین کی تشریح سے متعلق معاملات میں آئین کے آرٹیکل 191-A کے تحت اپنے دائرہ اختیار میں رہیں۔
انھوں نے سپریم کورٹ بینچز کے دائرہ اختیار پر لیے گئے نوٹس کے معاملہ پرآئینی بنچ کی جانب سے جسٹس منصور شاہ کے تمام اقدامات کو کالعدم قراردینے کے حوالہ سے 7رکنی بینچ کے متفقہ فیصلہ کے حق میں 20صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کردیا جس میں کہاگیا ہے کہ آئینی بینچ کسی ٹیکس کے کیس میں آئین میں ہونے والی ترامیم کے غلط یادرست ہونے کافیصلہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی ریگولر بنچ کے پاس ایسا کوئی اختیار ہے کہ وہ آئینی ترامیم یاکسی قانون کوچیلنج کرنے کے معاملہ کافیصلہ کرسکے۔
آئینی بینچ کے علاوہ کسی کی جانب سے یہ دائرہ اختیاراستعمال کرنا آئین وضابطہ کی خلاف ورزی ہوگی۔ میرے خیال میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔اگر کوئی باقاعدہ بنچ، واضح اور غیر مبہم آئینی دفعات کے باوجود حد سے زیادہ دائرہ اختیار استعمال کرتا ہے یا ٹیکس کے معاملے میں صرف جواب دہندہ کے وکیل کی دلیل کی بنیاد پر اپنی سمجھ کے بغیر مبینہ تنازع کا فیصلہ کرتا ہے، تو یہ 191-A کے خلاف اور یہ قانونی چارہ جوئی کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے لکھا کہ دائر اختیار سے تجاوز یا کیس سماعت کیلئے مقرر کرنے کی بجائے معاملہ پریکٹس اینڈ پراسیجر ایکٹ کے تحت قائم کمیٹی کو بھیجنا بہتر ہوگا۔ ججز نے آئین و قانون کے تحفظ اور پاسداری کا حلف اٹھارکھا ہے،میرا اس بات پرپختہ یقین ہے کہ ایک آئینی جج کاکردار ایک بادشاہ سے مختلف ہے۔
بادشاہ اپنی مرضی کے مطابق احکامات جاری کرسکتاہے جبکہ ایک آئینی جج کو اس بات کاہمیشہ خیال رکھنا چاہیئے کہ انہیں آئین کے تحت تشریح اورنفاذ کاکام سونپا گیا ہے اور وہ آئین و قانون پر عمل کے پابند ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 191-Aمیں سپریم کورٹ کے آئینی اور ریگولربنچز کے دائرہ اختیارکاواضح طور پر تعین کردیا گیا ہے۔
انہوں نے نوٹ میں لکھا کہ آئینی بینچ نے درست طور پر 28 جنوری 2025 کو ریگولربینچ کی جانب سے 13جنوری اور 16 جنوری 2025کو جاری احکامات کودائرہ اختیار نہ ہونے پر واپس لیا جس کے بعد ان احکامات کے نتیجہ میں تعمیر کیا گیا ڈھانچہ گرگیا لہذا کوئی بھی کی گئی کارروائی، جاری کئے گئے احکامات اوراٹھائے گئے اقدامات کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔
جسٹس مظہر کا نوٹ میں کہناتھا کہ معاملہ کھلی کتاب کی طرح ہے اوراس پر مزید غوروفکر کرنے کی ضرورت نہیں، یہ قانون کااصول ہے کہ اگر عدالت کادائرہ اختیار نہیں تواس کی جانب سے دائرہ اختیار کے بغیر دیا گیا فیصلہ کالعدم تصورہوگا، حیران ہوں اور سمجھنے سے قاصرہوں کہ کس طرح مدعا علیہ کے وکیل کے دلائل سے ریگولر بنچ کو معاونت ملی کہ وہ آئین میں دیئے گئے واضح دائرہ اختیار سے فرار اختیار کرے، آئینی ترمیم وجود رکھتی ہے جب تک کہ پارلیمنٹ انہیں ختم نہ کرے یا سپریم کورٹ انہیں کالعدم قرار نہ دے۔
انہوں نے یہ تجویز دی کہ آئینی اور ریگولر بنچز کے سامنے کیسز مقرر کرنے کے حوالے سے مستقبل میں کسی بھی قسم کے تنازع سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے کیس مینجمنٹ سسٹم وضع کیا جائے۔ انہوں نے لکھا کہ وہ آئینی بینچ کی جانب سے متفقہ طور پر ریگولر بینچ کی جانب سے احکامات کوکالعدم قراردینے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ کوئی زمینی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا اورنہ ہی موجودہ آئینی ترامیم سے آنکھیں چراسکتا ہے ،نہ ہی بہرہ بن سکتا ہے ، اس اضافی نوٹ کو موجودہ تنازع کے تناظر میں ہی پڑھنا چاہیئے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دائرہ اختیار سپریم کورٹ کی جانب سے انہوں نے وہ ا ئین کے تحت
پڑھیں:
بھارت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ سرحدی خلاف ورزی کرے، وزیراعظم آزاد کشمیر
آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے کہا ہے کہ بھارت میں پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہیں تاہم اگر ایسا ہوا تو بھرپور دفاع کیا جائے گا۔
آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے چوہدری انوار الحق نے کہا کہ بھارت چانکیہ ڈاکٹرائن، بغل میں چھری منہ میں رام رام کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، پہلگام واقعے میں بھارت کا جھوٹا بیانیہ بری طرح بے نقاب ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت بدامنی پھیلانے کے لیے آزاد کشمیر کے اندرچھپ کر تیسری قوت کو استعمال کر کے وار کرسکتا ہے، اگر بھارت نے ایسا ایڈونچرکرنے کی حماقت کی تو پھریاد رکھے کہ بھرپور جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی آبی جارحیت ایک سال سے جاری ہے اور بھارت کی بین الاقوامی دہشتگری بارے دنیا جانتی ہے، مودی حکومت نے کینیڈا سے لے کر کشمیرتک بھارت دہشتگردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر اپنائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا میں بے نقاب ہوچکا ہے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ چند نادان دوستوں کو ہماری باتوں سے اختلاف تھا لیکن آج سوچئے کہ محافظ فوج کون سی ہے؟ اور قابض فوج کون سی ہے ؟ ہمارے پرچم کے پیچھے پاکستان کے پرچم کی طاقت ہے ورنہ ایل او سی کے پارآزاد کشمیر کا پرچم کہیں نظر نہیں آتا۔
انہوں نے کہا کہ جو جمہوری آزادیاں یہاں حاصل ہیں وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو دستیاب نہیں ہیں، الحمداللہ وزیراعظم آزاد کشمیر مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
چوہدری انوار الحق نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں کے لیے جہاد پرکچھ دوستوں کو تکلیف ہوتی ہے، اس مقدس ایوان میں کھڑا ہو کرکہتا ہوں کہ پاکستان کے اندرسے بھی سیاسی پولرائزیشن کاخاتمہ کرناہوگا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر بھارت نے ایل او سی پر جارحیت کا ارتکاب کیا تواقوام متحدہ کا چارٹرہمیں دفاع کا حق دیتا ہے، یقین ہے کہ بھارت ایسے کسی بھی طرح کے پاگل پن کا مظاہرہ نہیں کرے گا اور ویسے بھی سرحدی خلاف ورزی کرنے کی اُس میں جرات نہیں ہے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ مضبوط اورروشن پاکستان تحریک آزادی کشمیر کی ضمانت ہے، مسلح افواج پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونا ہمارا مذہبی اور ملی فریضہ ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت آبی جارحیت کا آغاز کرچکا ہے اور وہ پاکستان کے پانیوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، بھارت نے پونچھ اور دریائے نیلم کے پانیوں پرقبضے کے لیے اقدامات اٹھانا شروع کردیے ہیں۔
چوہدری انوار الحق نے کہا کہ بھارت کے ہتھکنڈے اور دہشت گردانہ وارداتوں بارے بین الاقوامی ثبوت موجود ہیں، خطرے سے انکارنہیں کرنا چاہیے لیکن خطرے کا درست ادراک کرنا چاہیے۔
انہوں نے کاہ کہ خطرے کوضرورت سے زیادہ سرپرسوار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم بھرپور جواب دینے کیلیے ہمہ وقت تیار ہیں، پاکستان ایٹمی ملک ہے. ہندوستان سمیت دنیا میں کسی کی بھی جرأت نہیں کہ وہ پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرسکے۔