فضل محمد واجبات کے ساتھ ملازمت پر بحال
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
فضل محمد سائٹ میں واقع جرابوں (سوکس) کی فیکٹری میسرز انم فیبرکس پرائیوٹ لمیٹڈ میں سات سال سے مستقل ملازم تھے۔ ان کی ملازمت کوغیر قانونی طور پر ختم کیا گیا تھا۔ انہوں نے لیبر کورٹ میں مقدمہ دائر کیا کہ وہ بیمار تھے اور ولیکا سوشل سیکورٹی سے زیر علاج تھے جبکہ کمپنی کا موقف تھا کہ یہ فیس ریٹیڈ عارضی ملازم تھے اور بغیر اطلاع کے غیر حاضر تھے۔ عدالت کے معزز ڈسٹرک اینڈ سیشن جج خالد حسین شاہانی (موجودہ جسٹس سندھ ہائی کورٹ ) نے دونوں فریقین کی گواہیاں ریکارڈ کی اور میرٹ پر اس برطرفی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فضل محمد کو واجبات کے ساتھ ملازمت پر بحال کرنے کا حکم دیا۔ ورکر کی طرف سے باچا فضل منان ایڈوکیٹ نے پیروی کی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
لیاری میں غیر قانونی عمارات کی المناک داستان
اہل لیاری موت کے سائے میں بے یقینی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔ ایک کے بعد ایک لیاری کی مخدوش عمارتیں گرتی جا رہی ہیں۔ زمین بوس عمارتوں کے ملبوں تلے انسانی جانیں دب کر موت کی آغوش میں جا چکی ہیں اور زخمیوں میں کچھ انسان معذور ہوچکے ہیں۔
ابھی لیاری کے علاقے بغدادی میں منہدم ہونے والی عمارت کے سانحے میں جاں بحق ہونیوالے 27 انسانوں کے کفن میلے بھی نہیں ہو پائے تھے کہ لیاری کے علاقے کھڈا مارکیٹ میں بھی اس وقت کہرام مچ گیا جب بلال مسجد کے قریب پشاوری ہوٹل کے ساتھ واقع چھ منزلہ رہائشی عمارت غنی مینشن کی پانچویں اور چھٹی منزل کی چھتیں زور دار آواز سے یکے بعد دیگرے گر گئیں۔
اس ہولناک واقعے میں دو بہنیں جاں بحق ہوگئیں جب کہ ان کی بچیوں سمیت تین خواتین زخمی ہو گئیں۔ اطلاعات کے مطابق عمارت کی بالائی منزل پر مرمتی کام جاری تھا کہ آخری منزل مکمل طور پر پانچویں منزل پر آن گری۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق لیاری میں ایک سو سات ایسی عمارتیں ہیں جو مخدوش قرار دی گئی ہیں، ان میں سے چودہ نہایت خطرناک ہیں جن میں سے 9 کو ضلعی انتظامیہ پہلے ہی خالی کروا چکی ہے جب کہ دیگر عمارتوں کی جانچ پڑتال کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے، جو پندرہ روز میں جامع ڈیٹا جمع کرے گی، تاکہ سندھ حکومت اس حوالے سے کوئی مضبوط پالیسی وضع کرسکے۔
بلاشبہ لیاری میں غیر قانونی تعمیرات ایک بہت بڑا چیلنج ہیں، اس ضمن میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی شفاف تحقیقات کرے، تاکہ آیندہ مزید حادثات کا تدارک کیا جاسکے۔ چار رمضان المبارک بمطابق چھ فروری سن انیس سو پچانوے کی صبح صادق ساڑھے چار بجے لیاری کراچی جنوبی کے علاقے لیاقت کالونی، نیا آباد کھڈا میں زیر تعمیر پانچ منزلہ عمارت ایک خوفناک دھماکے کے ساتھ گرگئی تھی۔ جس کا پس منظر یہ تھا کہ اس گنجان آباد علاقے میں تین منزل سے زائد عمارت تعمیرکرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مبینہ طور پر رشوت لے کر زائد منزلیں تعمیرکرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
اس طرح کے ایم سی کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے عملے نے اس تعمیر سے مبینہ طور پر لاپرواہی اور چشم پوشی برتی۔ عمارت کی تعمیرات کو روکنے کے لیے عملی قدم نہیں اٹھایا تھا۔ بلڈنگ گرنے سے پہلے ٹیڑی ہوگئی تھی، جس کی اطلاع اس وقت کے علاقہ کونسلرکو دی گئی تھی، اسے اتوارکی شام کو آنا تھا لیکن قبل ازیں صبح سویرے یہ واقعہ ہوگیا۔ پانچ روز بعد عمارت منہدم ہونے کی جو رپورٹ سامنے آئی، اس کی سفارشات پر آج تک عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔ اس واقعے سے قبل سن انیس سو چھہتر میں لیاری کراچی کے علاقے موسیٰ لین میراں پیر کے علاقے میں جو کہ کھڈا نیا آباد سے چند سو قدم کے فاصلے پر ہے، کثیر المنزلہ عمارت بسمہ اللہ منزل رمضان المبارک کے ہی دنوں میں اور سحری کے درمیان زمین بوس ہوگئی تھی، جس میں کئی قیمتی انسانی جانیں ضایع ہوئی تھیں۔
بسم اللہ منزل کے انہدام کی وجہ عمارت کے گراؤنڈ فلور میں موبائل آئلزگودام تھا جو بتدریج عمارت کی بنیاد کوکمزورکر رہا تھا۔ اس زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ صبح دس بجے وزیراعظم بھٹو نے اس منہدم عمارت کا جائزہ لیا اور اسی وقت آرڈر جاری کیا کہ لیاری بھر میں صرف دو منزلہ عمارتیں تعمیرکی جائیں، مگر افسوس ایسا نہیں ہوسکا، بلکہ اس کے برعکس بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، لینڈ مافیا اور دیگر سیاسی پیدا گیروں کی ملی بھگت سے لیاری کے علاقے نیا آباد،کھڈہ میمن سوسائٹی، دریا آباد، موسیٰ لین اور ملحقہ علاقوں میں تقریبا ایک سو پچاس کے قریب کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیرکروائیں۔
اس طرح وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بنائے ہوئے قانون کو ہوا میں تحلیل کردیا گیا اور اس وقت سے لے کر آج تک بھٹو حکومت کا یہ قانون لیاری میں شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظر ہے اور لیاری مخدوش و غیر قانونی کثیر المنزلہ عمارتوں کا جنگل بنا ہوا ہے، جہاں کے رہائشی موت کے سائے میں رہنے پر مجبور ہیں۔
مورخہ چار اگست انیس سو ترانوے کو اخبارات میں ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کے ترجمان کا بیان شایع ہوا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ لیاری واٹر اینڈ سیوریج اسکیم کا ڈیزائن و تکمیل اس مفروضے پرکی گئی تھی کہ لیاری کی عمارتیں زیادہ سے زیادہ دو منزلہ عمارتوں پر مشتمل ہونگی۔
اس وقت لیاری میں تین سے چار لاکھ کی آبادی تھی، لیکن لیاری اسکیم کی تکمیل کے ساتھ ساتھ لیاری میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیرات کثرت کے ساتھ شروع ہوگئی تھی۔اسی دوران اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ نے احکامات جاری کردیے تھے کہ لیاری میں صرف اور صرف تین منزلہ عمارت تعمیرکرنے کی اجازت ہوگی، لیکن اس بار بھی حکومتی احکامات کارگر ثابت نہ ہوسکے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اعلان کی طرح وزیراعلیٰ سندھ کا اعلان بھی سرکاری افسران اور سیاسی پیدا گیروں نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا تھا۔ ان ہی دنوں میں سول انجینئرنگ سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے انکشافات کیا تھا کہ لیاری کی ایک سو پچاس سے زائد بلند عمارتیں معمولی زلزلے کی صورت میں ملبے کا ڈھیر بن سکتی ہیں اور ان میں رہائش پذیر لاکھوں افراد پل بھر میں موت کی نیند سو سکتے ہیں۔
ان ماہرین نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ انیس سو چھہتر اور انیس سو پچانوے کی دونوں منہدم ہونے والی عمارتوں کو صرف دو منزلیں تعمیرکرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ لیاری کی بلند بالا عمارتوں کو انیس سو چھہتر کے حادثے کے بعد اصولی طور پر صرف پہلی منزل کے پلان منظور کیے گئے تھے کیوں کہ لیاری کے علاقے میں کھڈہ کا پورا علاقہ کوڑے کرکٹ کی ڈمپنگ پر قائم ہے اور چھ تا دس فٹ گہرائی تک کوڑا کرکٹ ڈمپ کیا گیا ہے جب کہ باقی علاقے میں واٹر لیول صرف ایک فٹ ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انیس سو چھہترکے بعد لیاری میں تقریباً ایک سو پچاس سے زائد عمارتوں کے صرف فرسٹ فلور کے پلان منظورکیے گئے تھے اس کے باوجود بلڈنگ کنٹرول کے بعض افسران، بلڈرز اور سیاسی پیدا گیروں کی ملی بھگت سے عدالت سے نان ٹیکنیکل بنیاد پر جاری ہونیوالے حکم امتناعی کی آڑ میں کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیرکر لی گئی تھیں، جب کہ عدالت نے واضح طور پر لیاری میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر حکم امتناعی جاری کیا تھا۔
مذکورہ بالا حالات و واقعات کے علاوہ ناقص میٹریل استعمال کرنا، ان سانحات کی بنیاد ہے۔ جس سے چشم پوشی اختیار کی جاتی رہی ہے۔ تاحال لیاری میں کمیشن کے عوض انسانی جانوں سے کھیلنے کا عمل جاری و ساری ہے۔ حکومتی و انتظامی احکامات وکمیٹیزکی تشکیلیں اور ان کی رپورٹز و سفارشات کی وقعت چند کاغذکے پرزوں اور بھاری بھرکم فائلوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اب تک یہی کچھ ثابت ہوتا رہا ہے۔ جب تک حکومت کی سنجیدگی کا عمل دخل نہ ہو، اسی طرح لیاری میں غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ جاری رہے گا، عمارتیں گرتی رہے گی۔ انسان ہلاک و زخمی اور معذور ہوتے رہیں گے۔