Daily Ausaf:
2025-11-03@18:24:57 GMT

مذاکرات کیوں ضروری ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

تحریک انصاف (اپوزیشن) اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوتے ہوتے رک جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی اصل وجوہات تو دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے پاس ہی ہیں لیکن مذاکرات کا نہ ہونا یا رک جانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ سیاستدانوں کا کام ملک میں سیاسی استحکام لانے کے ساتھ ساتھ بات چیت کے ذریعے عوام کو درپیش مسائل کا حل کرنا بھی ضروری ہوتاہے۔ کیونکہ سیاست کا بنیادی مقصد عوام کے نہ صرف مسائل حل کرنا بلکہ انہیں ضروری سماجی ‘ معاشی سہولتیں بھی بہم پہچاناہوتاہے۔لیکن پاکستان میں حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان کشیدگی سے جہاں دہشت گردوں کو اپنی مذموم کارروائیاں کرنے کاموقع ملتا ہے۔ وہیں پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہوتاہے اور عوام کو درپیش مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔
تاہم پاکستان میں وہ افراد جو سیاسی ‘ سماجی شعور رکھتے ہیں ان کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان بات چیت سے ملک میں سیاسی وسماجی استحکام پیداہوتاہے ‘ جبکہ ملک اقتصادی طور پر ترقی کی جانب گامزن ہونے لگتاہے۔
تاہم یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں حکومت کرنے والے اپنے مخالفین کے ساتھ مفاہمت کے لئے زیادہ تیار نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس بات کا زعم ہوتاہے کہ وہ تن تنہا ہرکام آسانی سے کرلیں گے۔ بعد میں پتہ چلتاہے کہ حزب اختلاف کو شامل کئے بغیر ملک کے سیاسی وسماجی معاملات کو حسن وخوبی حل نہیں کیاجاسکتاہے اور نہ ہی عوام کو درپیش مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ ملک میں استحکام لانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ملک کو درپیش مسائل کی روشنی میں بات چیت کا ہونا اشد ضروری ہے۔ بات چیت کے ذریعے مفاہمت کے دروازے کھلتے ہیں اور وہ مسائل جو عوام کو درپیش ہوتے ہیں ان کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں ابھی جمہوریت اپنی پوری توانائی کے ساتھ ظاہر نہیں ہوئی ہے وہاں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر بات چیت کے ذریعے عوام اور ملک کو درپیش مسائل حل ہونے میں مدد ملتی ہے۔مذاکرات دراصل سیاست کرنے کا دوسرا چہرہ ہے جس کے ذریعے سماجی اور سیاسی حالات کا جائزہ لے کر انہیں نہ صرف حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ جمہوریت کو بھی تقویت ملتی ہے جو بعد میں ملک میں استحکام کا باعث بنتی ہے اور عوام بھی اس طرز عمل سے خوش ہوتے ہیں۔
گرچہ پاکستان ایک جمہوری عمل کے ذریعے معروض وجود میں آیاتھا‘ لیکن بعد میں مفاد پرست عناصر نے اس بزور بازو قبضہ کرکے جمہوری راستے سے ہٹاکر شخصی حکومت کو فروغ دیا ۔ یہ سلسلہ وقفے وقفے سے چلتاآرہاہے‘ آج ہر چند کہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت آگئی ہے لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ یعنی ان کو جس طرح حل ہوناچاہیے تھا‘ وہ حل نہیں ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ ناراض اور پریشان ہے (معاشی طور پر) شاید یہی وجہ ہے کہ عوام کا باشعور طبقہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ پاکستان میں گورننس نہ ہونے کی وجہ سے جہاں جمہوری اقدار متاثر ہورہے ہیں‘ وہیں عوام کے مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں سماج میں معاشی ومعاشرتی بے چینی پائی جاتی ہے۔ہرچند کہ ہرحکومت جو اقتدار میں آتی ہے‘ اس کا دعویٰ ہوتاہے کہ وہ خلوص دل سے عوام کے مسائل حل کررہی ہے اور عوام کے دکھوں کامدوا کرنا بھی اپنا اولین فرض سمجھتی ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں‘ عوام کو پاکستان کے جمہوری معاشرے میں وہ سیاسی ومعاشی سہولتیں میسر نہیں ہیں جو ہونی چاہیے ۔ صرف ایک چھوٹا سا بااثر طبقہ جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہورہاہے‘ دوسری طرف خلق خدا اپنے کارن زندہ رہنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ پاکستانی معاشرے کا المیہ ہے اور جمہوریت کا بھی!
چنانچہ معاشرتی اور سیاسی مسائل حل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف باہم مل کر ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکاہے۔ پاکستان کی بہادر فوج اس کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے حوصلے پست کررہی ہے اور اس کے ساتھ ہی مقابلہ کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کررہی ہے۔
چنانچہ دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے اور ان کے پاکستان کے خلاف مذموم حرکتوں کاانسداد کرنے کیلئے حکومت اور حزب اختلاف کے مابین بات چیت بہت ضرروی ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان اگر موثر مفاہمت ہوجاتی ہے تو اس حکمت عملی کو اختیار کرنے سے جہاں جمہوریت کو نئی توانائی میسر آئے گی وہیں ملک کے سیاسی وسماجی مسائل کے حل میں مددملے گی اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی بھی ہوسکے گی۔ پاکستان میں اس وقت موثر اقتصادی ترقی نہ ہونے کی صورت میں ملک میں بہت زیادہ مسائل ابھر آئے ہیں۔ جس کو حل کرنا صرف حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ اس میں حزب اختلاف کو بھی شامل کرنا وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے۔ حزب اختلاف کاکام صرف حکومت وقت پر تنقید کرنا نہیں بلکہ راستہ بھی دکھانا ہوتاہے تاکہ مل جل کر معاشی ومعاشرتی حالات کو عوام دوست بنایا جاسکے۔ ذرا سوچیئے!

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حکومت اور حزب اختلاف کو درپیش مسائل عوام کو درپیش پاکستان میں کے درمیان کے ذریعے کررہی ہے ملک میں کے ساتھ بات چیت عوام کے ہے اور

پڑھیں:

حکومت نے نوجوانوں کا روزگار چھینا اور ملک کی دولت دوستوں کو دے دی، پرینکا گاندھی

کانگریس لیڈر نے کہا کہ مودی حکومت نے عوام کے حصے کی دولت چند سرمایہ دار دوستوں کو سونپ دی ہے، جو صنعتیں ملک کی تھیں، جن سے کروڑوں لوگوں کو روزگار ملتا تھا، وہ سب بیچ دی گئیں۔ اسلام ٹائمز۔ بِہار اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ہفتہ کو بیگو سرائے کے بچھواڑا اسمبلی حلقے میں ایک پرجوش عوامی جلسے سے خطاب کیا۔ انہوں نے کانگریس امیدوار شیو پرکاش غریب داس کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی اور ریاستی و مرکزی حکومت پر سخت تنقید کی۔ پرینکا گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا کہ بہار کے عوام آج ہجرت کے درد میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے کسان اپنے لہلہاتے کھیت چھوڑ کر دوسرے صوبوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، مہنگائی عروج پر ہے، ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے عوام کے حصے کی دولت چند سرمایہ دار دوستوں کو سونپ دی ہے، جو صنعتیں ملک کی تھیں، جن سے کروڑوں لوگوں کو روزگار ملتا تھا، وہ سب بیچ دی گئیں۔ ہر شعبہ ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے اور نجکاری کے نام پر عوام کا حق چھین لیا گیا ہے۔ پرینکا گاندھی نے نتیش کمار اور نریندر مودی پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ بیس برسوں سے حکومت چلانے کے بعد بھی اب کہہ رہے ہیں کہ ڈیڑھ کروڑ نوکریاں دیں گے۔ جب اتنے سال اقتدار میں تھے تو کیوں نہیں دی؟ ان کے وعدے کھوکھلے ہیں، چھوٹے کاروبار ختم ہو گئے، عوام کا جو کچھ تھا وہ اپنے دوستوں کو بیچ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے دل میں خوف ہے، آج لوگ سوچتے ہیں کہ علاج کہاں کرائیں، بچوں کی پرورش کیسے کریں، بہار میں عورتوں کی حالت بد سے بدتر ہوچکی ہے۔ وہ گھر، کھیت اور خاندان سب کچھ سنبھالتی ہیں، مگر ان کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی ڈبل انجن حکومت کی بات کرتے ہیں مگر آپ کی کوئی سنوائی نہیں ہے، حتیٰ کہ آپ کے وزیر اعلیٰ کی بھی نہیں۔ ساری طاقت دہلی کے ہاتھوں میں ہے اور آپ کی زمینیں کوڑیوں کے دام بیچی جا رہی ہیں۔

انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ تبدیلی لائیں، یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار بیٹھے ہیں، ایسے لیڈروں سے ہوشیار رہیں جو صرف اپنا چہرہ چمکانے آتے ہیں، پھر ووٹ چوری کر کے چلے جاتے ہیں۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ ملک میں آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور بڑے ادارے کانگریس نے بنوائے، ہم ماضی میں نہیں جانا چاہتے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ترقی کے بڑے قدم کانگریس کے دور میں اٹھائے گئے۔ انہوں نے راہل گاندھی کے ذات پر مبنی مردم شماری اور سماجی انصاف کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب کا ترقی میں برابر کا حصہ چاہتے ہیں، تاکہ کوئی طبقہ پیچھے نہ رہ جائے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ حکومت کراچی کے مکینوں سے ظلم و زیادتیاں بن کرے، بلال سلیم قادری
  • پیپلزپارٹی عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے،شرجیل میمن
  • گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
  • گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کیلئے ایوان صدر میں اہم اجلاس طلب
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان
  • حکومت نے نوجوانوں کا روزگار چھینا اور ملک کی دولت دوستوں کو دے دی، پرینکا گاندھی
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)
  • پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ
  • سندھ حکومت کراچی کی عوام سے زیادتیاں بند کرے، بلال سلیم قادری