Daily Ausaf:
2025-06-09@12:57:10 GMT

مذاکرات کیوں ضروری ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

تحریک انصاف (اپوزیشن) اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوتے ہوتے رک جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی اصل وجوہات تو دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے پاس ہی ہیں لیکن مذاکرات کا نہ ہونا یا رک جانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ سیاستدانوں کا کام ملک میں سیاسی استحکام لانے کے ساتھ ساتھ بات چیت کے ذریعے عوام کو درپیش مسائل کا حل کرنا بھی ضروری ہوتاہے۔ کیونکہ سیاست کا بنیادی مقصد عوام کے نہ صرف مسائل حل کرنا بلکہ انہیں ضروری سماجی ‘ معاشی سہولتیں بھی بہم پہچاناہوتاہے۔لیکن پاکستان میں حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان کشیدگی سے جہاں دہشت گردوں کو اپنی مذموم کارروائیاں کرنے کاموقع ملتا ہے۔ وہیں پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہوتاہے اور عوام کو درپیش مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔
تاہم پاکستان میں وہ افراد جو سیاسی ‘ سماجی شعور رکھتے ہیں ان کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان بات چیت سے ملک میں سیاسی وسماجی استحکام پیداہوتاہے ‘ جبکہ ملک اقتصادی طور پر ترقی کی جانب گامزن ہونے لگتاہے۔
تاہم یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں حکومت کرنے والے اپنے مخالفین کے ساتھ مفاہمت کے لئے زیادہ تیار نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس بات کا زعم ہوتاہے کہ وہ تن تنہا ہرکام آسانی سے کرلیں گے۔ بعد میں پتہ چلتاہے کہ حزب اختلاف کو شامل کئے بغیر ملک کے سیاسی وسماجی معاملات کو حسن وخوبی حل نہیں کیاجاسکتاہے اور نہ ہی عوام کو درپیش مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ ملک میں استحکام لانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ملک کو درپیش مسائل کی روشنی میں بات چیت کا ہونا اشد ضروری ہے۔ بات چیت کے ذریعے مفاہمت کے دروازے کھلتے ہیں اور وہ مسائل جو عوام کو درپیش ہوتے ہیں ان کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں ابھی جمہوریت اپنی پوری توانائی کے ساتھ ظاہر نہیں ہوئی ہے وہاں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر بات چیت کے ذریعے عوام اور ملک کو درپیش مسائل حل ہونے میں مدد ملتی ہے۔مذاکرات دراصل سیاست کرنے کا دوسرا چہرہ ہے جس کے ذریعے سماجی اور سیاسی حالات کا جائزہ لے کر انہیں نہ صرف حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ جمہوریت کو بھی تقویت ملتی ہے جو بعد میں ملک میں استحکام کا باعث بنتی ہے اور عوام بھی اس طرز عمل سے خوش ہوتے ہیں۔
گرچہ پاکستان ایک جمہوری عمل کے ذریعے معروض وجود میں آیاتھا‘ لیکن بعد میں مفاد پرست عناصر نے اس بزور بازو قبضہ کرکے جمہوری راستے سے ہٹاکر شخصی حکومت کو فروغ دیا ۔ یہ سلسلہ وقفے وقفے سے چلتاآرہاہے‘ آج ہر چند کہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت آگئی ہے لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ یعنی ان کو جس طرح حل ہوناچاہیے تھا‘ وہ حل نہیں ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ ناراض اور پریشان ہے (معاشی طور پر) شاید یہی وجہ ہے کہ عوام کا باشعور طبقہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ پاکستان میں گورننس نہ ہونے کی وجہ سے جہاں جمہوری اقدار متاثر ہورہے ہیں‘ وہیں عوام کے مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں سماج میں معاشی ومعاشرتی بے چینی پائی جاتی ہے۔ہرچند کہ ہرحکومت جو اقتدار میں آتی ہے‘ اس کا دعویٰ ہوتاہے کہ وہ خلوص دل سے عوام کے مسائل حل کررہی ہے اور عوام کے دکھوں کامدوا کرنا بھی اپنا اولین فرض سمجھتی ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں‘ عوام کو پاکستان کے جمہوری معاشرے میں وہ سیاسی ومعاشی سہولتیں میسر نہیں ہیں جو ہونی چاہیے ۔ صرف ایک چھوٹا سا بااثر طبقہ جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہورہاہے‘ دوسری طرف خلق خدا اپنے کارن زندہ رہنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ پاکستانی معاشرے کا المیہ ہے اور جمہوریت کا بھی!
چنانچہ معاشرتی اور سیاسی مسائل حل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف باہم مل کر ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکاہے۔ پاکستان کی بہادر فوج اس کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے حوصلے پست کررہی ہے اور اس کے ساتھ ہی مقابلہ کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کررہی ہے۔
چنانچہ دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے اور ان کے پاکستان کے خلاف مذموم حرکتوں کاانسداد کرنے کیلئے حکومت اور حزب اختلاف کے مابین بات چیت بہت ضرروی ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان اگر موثر مفاہمت ہوجاتی ہے تو اس حکمت عملی کو اختیار کرنے سے جہاں جمہوریت کو نئی توانائی میسر آئے گی وہیں ملک کے سیاسی وسماجی مسائل کے حل میں مددملے گی اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی بھی ہوسکے گی۔ پاکستان میں اس وقت موثر اقتصادی ترقی نہ ہونے کی صورت میں ملک میں بہت زیادہ مسائل ابھر آئے ہیں۔ جس کو حل کرنا صرف حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ اس میں حزب اختلاف کو بھی شامل کرنا وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے۔ حزب اختلاف کاکام صرف حکومت وقت پر تنقید کرنا نہیں بلکہ راستہ بھی دکھانا ہوتاہے تاکہ مل جل کر معاشی ومعاشرتی حالات کو عوام دوست بنایا جاسکے۔ ذرا سوچیئے!

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حکومت اور حزب اختلاف کو درپیش مسائل عوام کو درپیش پاکستان میں کے درمیان کے ذریعے کررہی ہے ملک میں کے ساتھ بات چیت عوام کے ہے اور

پڑھیں:

بلاول بھٹو: بھارت سے مسائل کا واحد حل مسئلہ کشمیر کا حل ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لندن: وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر عالمی سطح پر بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کا مؤقف اجاگر کرنے کے لیے بنائے گئے سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے جو ہمیشہ امن، مذاکرات اور سفارتکاری کو ترجیح دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بارہا دنیا کو باور کروایا ہے کہ تمام مسائل، خاص طور پر پاک بھارت کشیدگی کا حل مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا ہے۔

بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے پانی روکنے کی کسی بھی کوشش کو پاکستان اعلانِ جنگ تصور کرے گا۔ انہوں نے سندھ طاس معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کو یہ بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے یا معطل کرنے کا کوئی اختیار نہیں، کیونکہ پاکستان کے لیے پانی ایک بنیادی اور ناگزیر ضرورت ہے جس پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔

اپنے بیان میں انہوں نے بھارت پر مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن پھیلانے کا الزام بھی عائد کیا اور کہا کہ بھارت عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پہلگام واقعے پر غیرجانبدار تحقیقات کی پیشکش کی تھی، مگر بھارت نے یہ پیشکش مسترد کر کے ایک اور موقع ضائع کر دیا۔

بلاول بھٹو نے ایک مرتبہ پھر پاک بھارت جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ اس نازک موقع پر ٹرمپ کی مداخلت نے صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد دی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان تنازعات کے پرامن حل کے لیے کوئی مؤثر مکینزم ہونا چاہیے تاکہ خطے کو غیر یقینی صورتحال سے بچایا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • بلاول بھٹو: بھارت سے مسائل کا واحد حل مسئلہ کشمیر کا حل ہے
  • بھارتی میڈیا اور مودی حکومت آپریشن سندور بارے اپنی ہی عوام کو بے وقوف بناتے رہے ، واشنگٹن پوسٹ کا تہلکہ خیز انکشاف
  • بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی
  • احتجاجی تحریک سے کچھ نہیں ملے گا، اپوزیشن مذاکرات کی پیشکش قبول کرے، رانا ثناء
  • کشمیر میں اگر سب کچھ معمول پر ہے تو جامع مسجد کیوں بند ہے، التجا مفتی
  • امریکا بزورِ قوت بھارت کو مذاکرات کے لیے قائل کر سکتا ہے، بلاول بھٹو
  • احتجاجی تحریک سے کچھ نہیں ملے گا، اپوزیشن مذاکرات کی پیشکش قبول کرے: رانا ثناء
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول
  • حکومت اور اساتذہ سے مذاکرات کرے اور ان کے مطالبات حل کرے، سید علی رضوی
  • صدر ٹرمپ بھارت کو پاکستان کیساتھ مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار ادا کریں، بلاول بھٹو