مذاکرات کیوں ضروری ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
تحریک انصاف (اپوزیشن) اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوتے ہوتے رک جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی اصل وجوہات تو دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے پاس ہی ہیں لیکن مذاکرات کا نہ ہونا یا رک جانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ سیاستدانوں کا کام ملک میں سیاسی استحکام لانے کے ساتھ ساتھ بات چیت کے ذریعے عوام کو درپیش مسائل کا حل کرنا بھی ضروری ہوتاہے۔ کیونکہ سیاست کا بنیادی مقصد عوام کے نہ صرف مسائل حل کرنا بلکہ انہیں ضروری سماجی ‘ معاشی سہولتیں بھی بہم پہچاناہوتاہے۔لیکن پاکستان میں حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان کشیدگی سے جہاں دہشت گردوں کو اپنی مذموم کارروائیاں کرنے کاموقع ملتا ہے۔ وہیں پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہوتاہے اور عوام کو درپیش مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔
تاہم پاکستان میں وہ افراد جو سیاسی ‘ سماجی شعور رکھتے ہیں ان کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان بات چیت سے ملک میں سیاسی وسماجی استحکام پیداہوتاہے ‘ جبکہ ملک اقتصادی طور پر ترقی کی جانب گامزن ہونے لگتاہے۔
تاہم یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں حکومت کرنے والے اپنے مخالفین کے ساتھ مفاہمت کے لئے زیادہ تیار نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس بات کا زعم ہوتاہے کہ وہ تن تنہا ہرکام آسانی سے کرلیں گے۔ بعد میں پتہ چلتاہے کہ حزب اختلاف کو شامل کئے بغیر ملک کے سیاسی وسماجی معاملات کو حسن وخوبی حل نہیں کیاجاسکتاہے اور نہ ہی عوام کو درپیش مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ ملک میں استحکام لانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ملک کو درپیش مسائل کی روشنی میں بات چیت کا ہونا اشد ضروری ہے۔ بات چیت کے ذریعے مفاہمت کے دروازے کھلتے ہیں اور وہ مسائل جو عوام کو درپیش ہوتے ہیں ان کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں ابھی جمہوریت اپنی پوری توانائی کے ساتھ ظاہر نہیں ہوئی ہے وہاں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر بات چیت کے ذریعے عوام اور ملک کو درپیش مسائل حل ہونے میں مدد ملتی ہے۔مذاکرات دراصل سیاست کرنے کا دوسرا چہرہ ہے جس کے ذریعے سماجی اور سیاسی حالات کا جائزہ لے کر انہیں نہ صرف حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ جمہوریت کو بھی تقویت ملتی ہے جو بعد میں ملک میں استحکام کا باعث بنتی ہے اور عوام بھی اس طرز عمل سے خوش ہوتے ہیں۔
گرچہ پاکستان ایک جمہوری عمل کے ذریعے معروض وجود میں آیاتھا‘ لیکن بعد میں مفاد پرست عناصر نے اس بزور بازو قبضہ کرکے جمہوری راستے سے ہٹاکر شخصی حکومت کو فروغ دیا ۔ یہ سلسلہ وقفے وقفے سے چلتاآرہاہے‘ آج ہر چند کہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت آگئی ہے لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ یعنی ان کو جس طرح حل ہوناچاہیے تھا‘ وہ حل نہیں ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ ناراض اور پریشان ہے (معاشی طور پر) شاید یہی وجہ ہے کہ عوام کا باشعور طبقہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ پاکستان میں گورننس نہ ہونے کی وجہ سے جہاں جمہوری اقدار متاثر ہورہے ہیں‘ وہیں عوام کے مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں سماج میں معاشی ومعاشرتی بے چینی پائی جاتی ہے۔ہرچند کہ ہرحکومت جو اقتدار میں آتی ہے‘ اس کا دعویٰ ہوتاہے کہ وہ خلوص دل سے عوام کے مسائل حل کررہی ہے اور عوام کے دکھوں کامدوا کرنا بھی اپنا اولین فرض سمجھتی ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں‘ عوام کو پاکستان کے جمہوری معاشرے میں وہ سیاسی ومعاشی سہولتیں میسر نہیں ہیں جو ہونی چاہیے ۔ صرف ایک چھوٹا سا بااثر طبقہ جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہورہاہے‘ دوسری طرف خلق خدا اپنے کارن زندہ رہنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ پاکستانی معاشرے کا المیہ ہے اور جمہوریت کا بھی!
چنانچہ معاشرتی اور سیاسی مسائل حل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف باہم مل کر ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکاہے۔ پاکستان کی بہادر فوج اس کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے حوصلے پست کررہی ہے اور اس کے ساتھ ہی مقابلہ کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کررہی ہے۔
چنانچہ دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے اور ان کے پاکستان کے خلاف مذموم حرکتوں کاانسداد کرنے کیلئے حکومت اور حزب اختلاف کے مابین بات چیت بہت ضرروی ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان اگر موثر مفاہمت ہوجاتی ہے تو اس حکمت عملی کو اختیار کرنے سے جہاں جمہوریت کو نئی توانائی میسر آئے گی وہیں ملک کے سیاسی وسماجی مسائل کے حل میں مددملے گی اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی بھی ہوسکے گی۔ پاکستان میں اس وقت موثر اقتصادی ترقی نہ ہونے کی صورت میں ملک میں بہت زیادہ مسائل ابھر آئے ہیں۔ جس کو حل کرنا صرف حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ اس میں حزب اختلاف کو بھی شامل کرنا وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے۔ حزب اختلاف کاکام صرف حکومت وقت پر تنقید کرنا نہیں بلکہ راستہ بھی دکھانا ہوتاہے تاکہ مل جل کر معاشی ومعاشرتی حالات کو عوام دوست بنایا جاسکے۔ ذرا سوچیئے!
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حکومت اور حزب اختلاف کو درپیش مسائل عوام کو درپیش پاکستان میں کے درمیان کے ذریعے کررہی ہے ملک میں کے ساتھ بات چیت عوام کے ہے اور
پڑھیں:
بارشوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں سندھ حکومت مکمل طور پر متحرک ہے، شرجیل میمن
پریس کانفرنس کرتے ہوئے سندھ کے سینئر وزیر نے کہا کہ آج کراچی کے مسائل کے پیچھے کئی دہائیوں کی سیاسی چالاکیاں اور ادارہ جاتی ناکامیاں ہیں، ہم ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن سے عوام کا روزمرہ متاثر ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ ملک میں جاری بارشوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں سندھ حکومت مکمل طور پر متحرک ہے، ملک کے شمالی علاقوں میں حالیہ بارشوں سے شدید نقصان ہوا ہے، جب کہ سندھ حکومت 2010ء سے اب تک کئی بار طوفانی بارشوں اور سیلابوں کا سامنا کر چکی ہے اور اس ضمن میں مکمل تجربہ رکھتی ہے، اگر کسی بھی دوسرے صوبے کو سندھ حکومت کی ضرورت پڑی، تو ہم ہر ممکن امداد فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کے سینئر وزیر اور صوبائی وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر تمام پارٹی کارکنان اور قیادت عوام کے ساتھ موجود ہیں اور عوامی خدمت کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے، ان کی عوامی پذیرائی سب کے سامنے ہے، اب وہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں کبھی اجرک کے نام پر، کبھی لسانیت کے نام پر نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کسی سے جواب میں بھی نفرت آمیز بیان آئے اور انہیں سیاسی ہمدردی حاصل ہو۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان کی وکٹ پر نہیں کھیلیں گے، ان کی اصلیت عوام جان چکی ہے، جب افاق احمد صاحب جیسی شخصیات جو کبھی کبھار جاگتی ہیں، بڑے جلسوں کا اعلان کرتی ہیں لیکن آخری رات کو واپس ہو جاتی ہیں، تو عوام کو خود سوچنا چاہیئے کہ کون ان کا خیرخواہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کا اصل چہرہ 1940ء سے 1980ء کے درمیان کا تھا، 1986ء کے بعد حالات بدلنا شروع ہوئے، ادارے کمزور کیے گئے اور شہر کو کنٹروورسی میں جھونک دیا گیا۔