ایک زمانہ وہ بھی تھا جب گوادر مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی جہاں پسماندگی کا دور دورہ تھا۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وقت کروٹیں لے گا اور یہ بستی کیا سے کیا ہوجائے گی۔ پھر یوں ہوا کہ حالات بدلنے شروع ہوگئے اور گوادر نے ترقی کی راہ پکڑ لی، جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا گوادر کی کایا پلٹتی گئی۔
اگرچہ امن و امان برقرار رکھنا ایک مسئلہ ہے تاہم گوادر تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے۔ پاک چین اشتراک سے ہونے والی منصوبہ بندی کے نتیجے میں ہر آنے والے دن نئی نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
چین کے تعاون سے شروع کیے جانے والے منصوبوں میں مکمل طور پر آپریشنل گوادر بندرگاہ، جنوبی اور شمالی فری زونز، مشرقی خلیج ایکسپریس وے، پاک چائنہ ووکیشنل اور ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ، پاک چائنہ فرینڈ شپ اسپتال، ایک 1.
ان منصوبوں کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ، چھوٹے اور بڑے پیمانہ پر کاروباری اختراع قوت میں بہتری، ملازمت کے نئے نئے مواقعے، مہارت میں اضافہ اور بنیادی ڈھانچہ کی ترقی ممکن ہو پائی ہے۔ مزید توسیع افق پر ہے جس میں گوادر مرکزی کاروباری ضلع، گوادر صنعتی اسٹیٹ، برآمداتی پروسیسنگ زون، ماحولیاتی راہداری شامل ہیں۔ گوادر اسمارٹ پورٹ سٹی کے ماسٹر پلان (2035- 2025) کا حصہ ہیں۔
شہر کی مضافاتی تصویر تیزی سے ترقی کے عمل سے گزر رہی ہے جس کے نتیجے میں نئی مارکیٹیں، نئے رہائشی منصوبے، شاپنگ سینٹرز، وسیع نقل و حمل کی سہولیات، جدید سڑکیں، اسپتال، کھیلوں کے اسٹیڈیم، پارکس، تعلیمی ادارے، تجارتی مراکز اور ایک بڑھتے ہوئے ساحلی تفریحی سیکٹر کا قیام ممکن ہو پائے گا۔
اب علاقے میں تجارتی سرگرمیاں فروغ پا رہی ہیں، خصوصاً میرین ڈرائیو کے آس پاس، سید ہاشمیر روڈ، استاد عبدالمجید روڈ اور کپتان (ریٹائرڈ) طارق زہری روڈ پر جہاں نئی تعمیر شدہ عمارات ہیں ایک روشن و تاباں آسمانی پس منظر کا حصہ بن رہی ہیں اور اپنی شان و شوکت کا جلوہ دکھا رہی ہیں۔
کثیر منزلہ تجارتی مراکز جن پر پرکشش رنگ آمیزی ہے شہر کی حسین و دلفریب منظر کی آئینہ دار ہیں۔ مرکزی سڑکوں پر بینکوں اور اے ٹی ایمز کی قطار اس تاثر کی تجدید کرتی ہے کہ مالیاتی اداروں کا قیام اور کاروباری سرگرمیاں بامِ عروج پر ہیں۔
نقل و حمل کی سہولیات میں نمایاں توسیع قابلِ ذکر ہے۔ اس سے قبل گوادر اور کوئٹہ آنے جانے کے لیے کوئی براہِ راست بس سروس موجود نہیں تھی جب کہ اب سیکڑوں ٹرانسپورٹ کمپنیوں جن میں الممتاز، الداؤد، المقبول اور جاوید ٹرانسپورٹ شامل ہیں نے باقاعدہ آمد و رفت کا آغاز کر دیا ہے۔ گوادر اور کراچی کے درمیان بہترین سڑکوں سے سفر میں آسانی ممکن ہوگئی ہے۔
جنت بازار جو گوادر کا شاپنگ مرکز ہے خواتین خریداروں سے کھچا کھچ بھرا رہتا ہے جو اعلیٰ درجے کے کڑھائی والے جوڑے خریدنے کے لیے وہاں جاتی ہیں۔ ایک جوڑے کی قیمت 5,000 سے 30,000 تک ہوتی ہے جو کہ کوالٹی اور ہنر مندی کے مطابق ہوتی ہے جس میں مشین اور ہاتھ دونوں سے بنے ہوئے بلوچی ملبوسات شامل ہیں جن کی بڑی ڈیمانڈ ہے۔ مقامی لوگوں کی بڑھتی ہوئی قوتِ خرید اُن کی مالداری کی عکاسی کرتی ہے۔
نیو ٹاؤن جو شہر کا مشہور رہائشی علاقہ ہے وہاں جائیداد اور املاک کی خریداری کا ایک طوفان برپا ہے جہاں لگژری مکانات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ مکانوں کے کرائے بھی اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ نئے علاقوں میں شاندار ہوٹل تعمیر ہورہے ہیں جو گوادر میں معاشی ترقی و خوشحالی ظاہر کرتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بجٹ پر نظرثانی ناگزیر ،سپراور سولر ٹیکس ترقی میں رکاوٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
(کامر س ڈیسک)معروف معاشی تجزیہ کار اور سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ڈاکٹر شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ کئی پہلوؤں سے خامیوں کا شکار ہے اور اس میں معاشی استحکام کے بجائے وقتی ریونیو کے اہداف کو ترجیح دی گئی ہے۔ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے فوری اور جامع اصلاحات کی ضرورت ہے جن میں ٹیکس نیٹ کی توسیع، غیر رجسٹرڈ معیشت کو دستاویزی بنانا، اور برا?مدات کی طرف واضح جھکاؤ شامل ہو۔شاہد رشید بٹ نے کاروباری برادری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اس بجٹ میں موجودہ ٹیکس دہندگان کو ریلیف دینے کے بجائے بوجھ بڑھایا ہے جبکہ نان فائلرز اور غیر رجسٹرڈ کاروباری طبقات کے خلاف مؤثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔بجٹ میں دی گئی مراعات معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے ناکافی اور غیر مؤثر ہیں۔ ڈاکٹر شاہد رشید بٹ نے واضح کیا کہ ٹیکس کے بوجھ میں مسلسل اضافہ کاروباری برادری کے اعتماد کو متاثر کر رہا ہے۔ سپر ٹیکس کی توسیع نہ صرف برا?مدی شعبے کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ صنعتکاروں کو سرمایہ کاری سے بھی روک رہی ہے جو طویل المدتی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔بجٹ میں موجود چند مثبت پہلو لائق تعریف ہیں مگر ان سے سرمایہ کاری کا حصول ممکن نہیں۔ڈاکٹر شاہد رشید بٹ نے کہا کہ شرح سود توانائی کے نرخ اور غیر متوازن ٹیکسیشن جیسے مسائل کباعث سرمایہ کاری کا ماحول بدستور غیر یقینی ہے اور یہ کہ پاکستان میں پہلے سے موجود صنعتی صلاحیتوں کا درست استعمال کیے بغیر نئی سرمایہ کاری ممکن نہیں۔تاجر رہنما نے کہا کہ وفاقی بورڈ آف ریونیو کے نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور شفاف بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایف بی آر کے افسران کو دیے گئے اختیارات کے بجائے خودکار اور سائنسی بنیادوں پر مبنی ٹیکسیشن کا نظام رائج کیا جانا چاہیے تاکہ کاروباری طبقہ بلاخوف اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔اس وقت ملک کو سب سے بڑا چیلنج سرمایہ کاروں کا گرتا ہوا اعتماد ہے جس کی بحالی کے لیے حکومت کو ایسی پالیسیاں مرتب کرنی ہوں گی جو مستقل شفاف اور کاروبار دوست ہوں۔