اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز سے قانونی امورکی ذمے داری واپس لے لی گئی
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام آباد (آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحق خان سے عدالت کے قانونی امور کی ذمہ داری واپس لے لی گئی اور ان کی جگہ ایڈیشنل جج جسٹس راجا انعام کو قانونی امور کا جج مقرر کیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی منظوری سے ڈپٹی رجسٹرار نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس کے مطابق جسٹس راجا انعام امین اسلام آباد ہائی کورٹ کے قانونی ونگ کے امور کو سپروائز کریں گے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جسٹس راجا انعام امین منہاس کو عوامی مفاد میں فوری طور پر قانونی امور کا جج مقرر کیا جاتا ہے۔ 2022ء میں جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحق کو قانونی ونگ کو سپروائز کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ واضح رہے کہ 7 فروری 2025ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کو خط لکھ کر کہا تھا کہ 9 ویں نمبر کے جج جسٹس خادم سومرو کو کمیٹی میں شامل نہیں کر سکتے تھے۔انہوں نے 6 صفحات پر لکھے گئے خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کے ہائی کورٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں تبدیلی کو بھی غیر قانونی کہہ دیا تھا۔جسٹس بابر ستار نے خط میں لکھا تھا کہ سینیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے نوٹیفکیشن واپس لیے جائیں، جسٹس بابر ستار نے سینیارٹی لسٹ کے خلاف ریپریزنٹیشن فائل کرنے کا ذکر کیا۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ سینیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا غیر آئینی غیر قانونی ہے، بغیر اسلام آباد ہائی کورٹ جج کے حلف اٹھائے ٹرانسفر ججز کو کمیٹی میں رکھنا غیر قانونی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔