ججز تقرریاں،حکومت، چیف جسٹس کی گرفت مزید مضبوط
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تحریک انصاف اور ان کے حامی وکلاء کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے،حکومت کی گرفت اداروں پر مضبوط ہوتی جارہی ہے،تحریک انصاف کے رہنماؤں سپریم کورٹ کے چاراور ہائیکورٹ کے پانچ ججزکے خطوط کے باوجود جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ میں چھ نئے ججز
کی تقرری کی منظوری دے دی،نئے ججز کی تقرری کے بعد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سپریم کورٹ میں گرفت مزید مضبوط ہوگئی ہے،کمیشن کے اجلاس کے موقع پر ملک بھر سے وکلاء کی اسلام آباد آمداور احتجاج کے باعث انتظامیہ نے ریڈزون کو سیل کئے رکھا،سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کاچارج سنبھالنے کے بعدسینئرججزجسٹس منصورعلی شاہ اورجسٹس منیب اخترمسلسل خطوط کا سہارالے رہے ہیں اور وہ روزانہ کی بنیادپرکسی نہ کسی معاملے میں اعتراض عائد کرکے چیف جسٹس کوخطوط لکھتے رہتے ہیں،چندروزقبل جب اسلام آبادہائیکورٹ میں تین ججز کا تبادلہ کیاگیاتو ہائیکورٹ کے پانچ ججزنے ایک خط لکھ کرسنیارٹی متاثرہونے کاجوازبناکر اپنے چیف جسٹس کو خط لکھا،اس خط میں یہ موقف بھی اختیارکیاگیاکہ ٹرانسفرہونے والے ججز کو نیاحلف اٹھانے کی ضرورت ہے ،تاہم چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ عامرفاروق نے پانچ ججز کے خط کو مستردکردیااور واضح طورپرکہاکہ ٹرانسفرہونے والے ججز کو نیاحلف اٹھانے کی ضرورت نہیں،جسٹس سرفرازڈوگرکو8جون2015 میں لاہورہائیکورٹ کا جج تعینات کیاگیاتھااور وہ ہائیکورٹ کے سینئرترین جج برقراررہیں گے،ماضی میں یہ ہوتاتھا کہ ججز فیصلے لکھتے تھے لیکن سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری کی برطرفی اور بحالی کے بعد سے عدلیہ میں جو ماحول پیداہوااس کا فائدہ ہونے کے بجائے جوڈیشل ایکٹوازم کے الزامات لگے،اب ججز فیصلے کم اور خطوط زیادہ لکھتے ہیںجب افتخارچوہدری کو برطرف کیاگیاتھا توسندھ سے تعلق تعلق رکھنے والے عبدالحمید ڈوگر کو سابق صدر جنرل ریٹائرڈ نے تین نومبر دوہزار سات کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا جب کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت عدالت عظمی کے تیرہ ججوں کو برطرف کردیا گیا تھا۔ افتخار محمد چوہدری کے علاوہ جسٹس رانا بھگوان داس اور جاوید اقبال، جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے سینئر جج تھے۔ رانا بھگوان داس ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے ڈیڑھ ماہ کے بعد ریٹائر ہوگئے تھے۔جسٹس عبدالحمید ڈوگر سپریم کورٹ کے چند ایک ان ججوں میں سے ہیں جن کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس نہیں ہوا تھااس کے بعد حمیدڈوگرکوپی سی او چیف جسٹس ہونے کا طعنہ دیاجاتارہا،وکلاء تحریک اور نوازشریف کے کامیاب لانگ مارچ کے نتیجے میں جسٹس عبدالحمیدڈوگرکوہٹاکرافتخارچوہدری کو بحال کیاگیااب جسٹس عامرفاروق کے سپریم کورٹ کا جج مقررہونے کے بعد ایک اور ڈوگرجن کا پورا نام جسٹس سرفرازڈوگرہے وہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقررہوں گے اور ہائیکورٹ کے پانچ ججز ان کے خلاف صف آراء ہیں دیکھتے ہیں اس معاملے میں وکلاء آگے چل کرکیاکوئی موثرتحریک چلانے میں کامیاب ہوتے ہیں یانہیں،دوسری جانب اگردیکھاجائے تو جوڈیشل کمیشن اجلاس کا جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس منیب اختراورتحریک انصاف کے دوارکان بیرسٹرگوہر علی خان اور بیرسٹرعلی ظفرنے بائیکاٹ کیا،کمیشن کے اجلاس میں جب اس بات پر رائے لی گئی کہ چارارکان بائیکاٹ کررہے ہیں تو اکثریت نے اجلاس جاری رکھنے کے حق میں ووٹ دیاجس کے بعد اجلاس کی کارروائی جاری رکھی گئی،دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے میں تحریک انصاف اور سپریم کورٹ کے دوسینئرججزایک طرف اصولی موقف لے کر کھڑے ہوگئے ہیں جب کہ دوسری طرف چیف جسٹس یحییٰ آفریدی،پیپلزپارٹی،ن لیگ ،بارکونسلزاور اقلیتی نمائندے ایک طرف ہیں اور ان کایہ موقف ہیکہ 26ویں ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کواکثریت کی بنیادپرججز تقرری کااختیاردیاگیاہے ،خطوط کے ذریعے اعتراض کرنے کی بجائے بائیکاٹ کرنے والوں کو اجلاس میں بیٹھ کر اپنی رائے دینی چاہئے تھی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کے تحریک انصاف ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پانچ ججز اسلام ا کے بعد
پڑھیں:
سپریم کورٹ: بانجھ پن پر مہر یا نان و نفقہ دینے سے انکار غیر قانونی قرار
---فائل فوٹوسپریم کورٹ نے خواتین کے بانجھ پن کی بنیاد پر مہر یا نان و نفقہ سے انکار کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے نان و نفقہ کے خلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار صالح محمد کے رویے پر اظہار برہمی کیا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بانجھ پن حق مہر یا نان و نفقہ روکنے کی وجہ نہیں، خواتین پر ذاتی حملے عدالت میں برداشت نہیں ہوں گے، شوہر نے بیوی کو والدین کے گھر چھوڑ کر دوسری شادی کر لی، پہلی بیوی کے حق مہر اور نان و نفقہ سے انکار کیا، عورت کی عزت نفس ہر حال میں محفوظ ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ میں بہنوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے متعلق فیصلہ جاری کر دیا گیا۔ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ خواتین کی تضحیک معاشرتی تعصب کو فروغ دیتی ہے، بیوی کی میڈیکل رپورٹس نے شوہر کے تمام الزامات رد کیے، خواتین کے حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، 10 سال تک خاتون کو اذیت اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، جھوٹے الزامات اور وقت ضائع کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں ماتحت عدالتوں کے فیصلے برقرار رکھے۔
خیال رہے کہ مذکورہ مقدمہ مہناز بیگم کے نان و نفقہ، مہر اور جہیز کی واپسی سے متعلق تھا، شوہر نے بیوی پر بانجھ پن اور عورت نہ ہونے کا الزام لگایا تھا۔