اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن پر سیشن انڈیکس 2024جاری کردی۔پاکستان میں 2024میں کرپشن میں اضافہ ہوا،پاکستان دنیا کا 46واں کرپٹ ترین ملک بن گیا ،180ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان کا 135وایں نمبر پرآگیا۔،2درجے تنزلی ،کرپشن پر سیشن انڈیکس میں پاکستان کا سکور100میں سے 27ہوگیا،2023میں پاکستان کا 180ممالک میں 133واں نمبر تھا ،2024میں پاکستان کا 180ممالک میں 135واں نمبر ہے،2023میں پاکستان 48واں کرپٹ ترین ملک تھا،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق 2024میں پاکستان کا 180ممالک میں 135واں نمبر ہے،پاکستان میں کرپشن پر سیشن انڈیکس کا ڈیٹا جمع کرنے کیلئے 8ذرائع استعمال کئےگئے ،ورائٹیر آف ڈیموکریسی پروجیکٹ میں پاکستان کی تنزلیٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اکنامکس انٹیلی جنس یونٹ میں بھی پاکستان کا سکور 20سے کم ہوکر 18ہوگیا ،ورلڈ اکنامک سروے کی رپورٹ میں بھی پاکستان کی بڑی تنزلی ۔

پی ڈی ایم دور میں پاکستان کا 180ممالک میں 140واں نمبر تھا،پاکستان کرپٹ ممالک میں نیچے سے 41ویں نمبر پر تھا ڈنمارک سب سے کم بدعنوان ممالک میں سرفہرست،،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کیمطابق فہرست میں بھارت پاکستان سے 39درجےبہتر،بھارت کرپٹ ممالک کی فہرست میں 96نمبر پر،سب سے کم کرپشن والے ممالک میں فن لینڈدوسرے اورسنگاپور تیسرے نمبر پر آگیا۔سب سے کم کرپٹ ممالک میں جنوبی سوڈان ،صومالیہ اوروینرویلا سرفہرست،ایران ،عراق اورروس میں بھی کرپشن میں اضافہ،روس میں بھی کرپشن اضافہ ،154نمبر پر آگیا ،افغانستان کرپٹ ممالک کی فہرست میں 165ویں نمبر پر موجود ،بنگلادیش کرپٹ ممالک کی فہرست میں 151ویں نمبر پر براجمان ہے

انجری کا شکار ہونیوالےحارث رؤف کا متبادل کون؟ 3 نام سامنے آگئے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: میں پاکستان کا 180ممالک میں ممالک میں فہرست میں ممالک کی میں بھی

پڑھیں:

پاکستان اور بھارت کے درمیان کون کون سے معاہدے موجود ہیں؟

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان اور بھارت کے تعلقات قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک غیر یقینی حالات کا شکار رہے ہیں۔ سفارتی روابط سے لے کر ثقافتی منصوبوں تک، دونوں ممالک کے تعلقات بار بار بحال ہوئے اور پھر ٹوٹ گئے۔ یہی حال دو طرفہ معاہدات کا بھی رہا ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کے بعد، جس کا الزام بھارت نے کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر پاکستان پر لگا دیا، نئی دہلی نے فوری طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔ پاکستان کے درمیان اب تک کون کون سے معاہدے طے پاچکے ہیں؟

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے کے بعد دریائے جہلم اور نیلم کی کیا صورتحال ہے؟

1950 کا نہرو-لیاقت معاہدہ:

یہ معاہدہ  اقلیتوں کے تحفظ کے لیے تھا جس میں دونوں ممالک نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ یہ معاہدہ تقسیم ہند کے بعد فسادات کے تناظر میں طے پایا۔

1960 کا سندھ طاس معاہدہ:

  سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا۔ یہ  دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق تھا۔ اس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کو اور مشرقی دریاؤں کا پانی بھارت کو دیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ 65 سال تک نافذ رہا اور جنگوں کے باوجود برقرار رہا لیکن اب مودی سرکار نے اسے معطل کردیا ہے۔

پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ، آگے کیا ہوسکتا ہے؟ سی این این کی رپورٹ آگئی

1972 کا شملہ معاہدہ:

یہ  1971 کی جنگ کے بعد طے پایا۔ شملہ معاہدہ  دونوں ممالک کو باہمی طور پر مسائل حل کرنے کا پابند بناتا تھا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت نے 2019 میں آرٹیکل 370 ختم کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔

مذہبی زیارات کا معاہدہ:

سنہ 1974 کے مذہبی زیارات کے پروٹوکول کے تحت دونوں ممالک کے زائرین کو ایک دوسرے کے ممالک میں مقدس مقامات پر جانے کی اجازت دی گئی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان میں 15 اور انڈیا میں پانچ مذہبی مقامات کیلئے ویزے جاری کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔اس معاہدے کے تحت پاکستان نے سکھ زائرین کو تین ہزار ویزے جاری کرنے تھے لیکن رواں سال ریکارڈ چھ ہزار 751 ویزے جاری کیے جب کہ انڈیا نے صرف 100 پاکستانیوں کو ویزے دیے۔

باہمی رضا مندی کے بغیر مزید کوئی نہر نہیں بنائی جائے گی، وزیر اعظم شہباز شریف

جوہری تنصیبات کے تحفظ کا معاہدہ:

دونوں ملکوں میں 1988 میں جوہری تنصیبات پر حملوں کی ممانعت کا معاہدہ طے پایا جس کے تحت دونوں ممالک ہر سال اپنی جوہری تنصیبات کی فہرست ایک دوسرے کو فراہم کرتے ہیں۔ اس معاہدے کا نفاذ 27 جنوری 1991 کو ہوا اور اس کے بعد سے دونوں ملک ہر سال یکم جنوری کو جوہری تنصیبات کی دستاویزات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی جوہری تنصیبات کا بلا واسطہ یا بالواسطہ نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

فضائی حدود کی خلاف ورزی کا معاہدہ:

لاہور قلندرز اور پشاور زلمی کے درمیان میچ کا ٹاس ہو گیا

6 اپریل 1991 کو نئی دہلی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کا مقصد پڑوسی ممالک کے درمیان حادثاتی یا غیر ارادی ہوائی حدود کی خلاف ورزی کے خطرے کو کم کرنا تھا۔ اس معاہدے میں فوجی طیاروں کے لیے قواعد و ضوابط طے کیے گئے کہ وہ ایک دوسرے کی ہوائی حدود سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر رہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی بھی طیارہ دوسرے ملک کے  سرحدی پانیوں کی حدود میں بغیر  پیشگی اجازت کے داخل نہیں ہو سکتا۔

لاہور اعلامیہ:
یہ اعلامیہ فروری 1999 میں سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور ان کے ہم منصب نواز شریف کے درمیان بھارتی وزیر اعظم کے پاکستان کے دورے کے دوران دستخط ہوا۔ اس معاہدے میں بھارت اور پاکستان نے تسلیم کیا کہ "امن اور سلامتی کا ماحول دونوں اطراف کے اعلیٰ قومی مفاد میں ہے اور تمام حل طلب مسائل، بشمول جموں و کشمیر کا حل اس مقصد کے لیے ضروری ہے"۔ انہوں نے یہ بھی اتفاق کیا کہ وہ "تمام مسائل، بشمول جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں کو تیز کریں گے۔

پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت ہے:شاہد خاقان عباسی

بیلسٹک میزائل تجربات  کی پیشگی اطلاع کا معاہدہ:
یہ معاہدہ 2005 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان  طے پایا ۔ اس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک بیلسٹک میزائل کے تجربے سے کم از کم تین دن پہلے  ایک دوسرے کو اطلاع دیں گے۔ معاہدے کے مطابق ہر فریق کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ تجرباتی پرواز کا مقام بین الاقوامی سرحد یا کنٹرول لائن سے 40 کلومیٹر کے اندر نہ ہو، اور منصوبہ بند اثر والا علاقہ 75 کلومیٹر کے اندر نہ ہو۔ یہ معاہدہ اب بھی قابل عمل ہے۔ تاہم گزشتہ سال پاکستان نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ اس معاہدے کی مکمل پابندی نہیں کر رہا ۔

جوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات کے خطرے کو کم کرنے پر معاہدہ:
جوہری حادثات پر معاہدہ 21 فروری 2007 کو پانچ سال کی ابتدائی مدت کے لیے نافذ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت، دونوں ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت اور سلامتی کو بہتر بنانے،  ایک دوسرے کو کسی بھی جوہری حادثے کی اطلاع دینے، اور ایسے حادثے کے تابکاری اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا عہد کیا۔ مزید برآں دونوں ممالک میں سے ہر ایک جوہری حادثے کی صورت میں پابند ہے کہ وہ اپنے اقدامات کو دوسرے فریق کی طرف سے غلط سمجھے جانے سے روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ 2012 اور 2017 میں معاہدے کو پانچ پانچ سال کے لیے مزید بڑھا دیا گیا۔

لائن آف کنٹرول  (ایل او سی) پر جنگ بندی کا معاہدہ:
نومبر 2003 میں پاکستان اور بھارت نے کنٹرول لائن اور ورکنگ بارڈر پر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ معاہدہ کچھ سالوں تک قائم رہا لیکن 2008 سے باقاعدہ خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ دریں اثنا 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے  کے بعد جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ۔ سنہ 2021 میں دونوں ممالک نے دوبارہ معاہدے کی پابندی کا عہد کیا۔ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، دونوں اطراف نے موجودہ طریقہ کار  ہاٹ لائن رابطہ اور فلیگ میٹنگز  کو دوبارہ زندہ کرنے پر اتفاق کیا تاکہ "کسی بھی غیر متوقع صورت حال یا غلط فہمی" سے نمٹا جا سکے۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی نجکاری کے طریقہ کار میں شفافیت کو مرکزی اہمیت دی جائے. وزیرِ اعظم
  • خلا میں پاکستان کے کتنے سیٹلائٹ ہیں۔۔؟ اور پوری دنیا کے کتنے ہیں۔۔؟
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان کون کون سے معاہدے موجود ہیں؟
  • چین کا  مارکیٹ تک رسائی کے لیے منفی فہرست کے نئے ورژن کا اجراء
  • چین کی اقوام متحدہ میں یکطرفہ غنڈہ گردی کے خلاف بھرپور آواز
  • فلسطین اور کشمیر او آئی سی کے ایجنڈے میں سرِفہرست ہیں، یوسف ایم الدوبی
  • عمران خان سے ملاقات کا دن: 6 رہنماؤں کی فہرست جیل حکام کے حوالے
  • تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
  • غیر معیاری اور جعلی ادویات: ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کا وزیر اعلیٰ پنجاب کو خط
  • پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں  کیلیے سرمایہ کاری؛ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کیساتھ معاہدہ