پارلیمان کے خلاف کسی کوبات کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، سردار ایاز صادق
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپیکرقومی اسمبلی ایازصادق نے کہاہے کہ پارلیمان کے خلاف کسی کوبات کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، الیکشن کمیشن کے معاملہ پرحکومت اور اپوزیشن کو کمیٹی کے نام نامزد کرنے کیلئے خطوط لکھے ہیں۔ منگل کوقومی اسمبلی کے اجلاس میں لیڈرآف دی اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے نکات پر سپیکر نے کہاکہ وقفہ سوالات کے دوران پوائنٹ آف آرڈر نہ دینے کافیصلہ ہواتھا، گزشتہ اجلاسوں میں اپوزیشن لیڈر وقفہ سوالات کے دوران نکتہ اعتراض پربولنے کی اجازت مانگتے رہے جس پرانہیں اجازت نہیں ملی، آج چونکہ نجی کارروائی کادن ہے اس لئے اپوزیشن لیڈر کو مائیک دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے معاملہ پرحکومت اور اپوزیشن کو کمیٹی کے نام نامزد کرنے کیلئے خطوط لکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آج میں نے میڈیا میں ایک رپورٹ دیکھی ہے جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک معزز جج نے پارلیمان کے حوالہ سے تبصرہ کیاہے، مجھے امیدہے کہ بات سچ نہیں ہو گی، اگرمعزز جج نے ایسے ریمارکس دئیے ہیں تو وزیر قانون انہیں ہماری طرف سے پیغام پہنچائے کہ پارلیمنٹ کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا، معزز جج کوبتایا جائے کہ یہ ناقابل قبول ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمان کوجعلی قراردینے کاطرز عمل قبول نہیں کیاجاسکتا۔ وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ سپیکرنے درست فرمایا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کرنے کی
پڑھیں:
بتایاجائے کس نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی، کس کس نے برآمد کی؟.پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جولائی ۔2025 )پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے شوگر ملز مالکان کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ بتایاجائے کس نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی،کس کس نے برآمد کی، یہ بھی بتایا جائے کہ کس کس ملک کو چینی برآمد کی گئی تھی. پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا اجلاس جنید اکبر کی زیر صدارت منعقد ہوا، کمیٹی کو ملک چینی کی قیمتوں پر بریفنگ دی گئی رکن کمیٹی معین پیرزادہ نے کہاکہ شوگر مافیا صوبائی حکومتوں کے بس میں نہیں ہے، کیا مراد علی شاہ یا مریم نواز کے پاس اس مافیا کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہے؟ شوگر ایڈوائزری بورڈ میں تمام مال بیچنے والے موجود ہیں لیکن صارفین کی کوئی نمائندگی نہیں ہے. یاد رہے کہ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے گزشتہ ہفتے حکومتی فیصلے کی روشنی میں چینی کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ کی منظوری پر ایف بی آر کے نوٹیفیکیشن کا نوٹس لیتے ہوئے ایس آر او پر وضاحت کے لیے چیئرمین ایف بی آر کو آج طلب کیا تھا چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے آج پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی میں پیش ہوکر انکشاف کیا کہ 5لاکھ ٹن چینی کی درآمد کیلئے کابینہ کی ہدایت پر 4 قسم کے ٹیکسوں میں کمی کی گئی، مختلف ٹیکسز کو 18 فیصد سے کم کرکے 0.2 فیصد پر لایا گیا. سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ سیزن کے آغاز میں 1.3 ملین ٹن چینی کا ذخیرہ موجود تھا، چینی برآمد کرنے کی اجازت کاشتکاروں کو تحفظ دینے کے لیے دی گئی تھی، سیکرٹری فوڈ سیکورٹی کے ریمارکس پر کمیٹی کے ارکان نے تشویش کا اظہار کیا. چیئرمین پی اے سی جنید اکبر نے کہا کہ چند شوگر ملز مالکان کو ارب پتی بنانے کے لیے پہلے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، پی اے سی نے چینی کا معاملہ آئندہ ہفتے تک موخر کر دیا واضح رہے کہ فاقی کابینہ نے شوگر ملز مالکان کی جانب سے 21 نومبر 2024 سے پیداوار شروع کرنے کی شرط پر مزید 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی تھی بعدازاں ملک بھر میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت نے گزشتہ ماہ 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم حکومت کو 50 ہزار ٹن چینی درآمد کرنے کے عالمی ٹینڈر پر کوئی بولی موصول نہیں ہوئی ہے. علاوہ ازیں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے آڈٹ رپورٹ 24-2023 میں فنانس ڈویژن سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا، فراڈ پر مبنی سرگرمیوں میں ملوث کمپنی کو قرضہ دینے کی وجہ سے 23 ارب روپے کے نقصان کا معاملہ بھی اجلاس بھی زیر غور آیا. آڈٹ حکام نے بتایا کہ نیشنل بینک نے حیسکول پٹرولیم لمیٹڈ کا معاشی تجزیہ کیے بغیر یہ قرضہ دیا، سینیٹر افنان اللہ نے فنانس ڈویژن کے حکام سے سوال کیا کہ آپ بتائیں 23 ارب روپے کہاں گئے، سید نوید قمر نے کہاکہ آپ کو ذمہ داروں کا تعین کرنا ہوگا۔(جاری ہے)
ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ایف آئی آر کے اندر 32 ملزمان کے نام تھے، اس میں کچھ بینکرز کا کردار بھی تھا، صدر نیشنل بینک نے بتایا کہ 2 ارب روپے ہمیں وصول ہوچکے ہیں، جنہوں نے جرم کیا وہ چھوٹ گئے جبکہ نیشنل بینک کے لوگ ایف آئی اے کے پاس ہیں۔ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ حیسکول کے 12 میں سے 7 بندوں کا کوئی کردار نہیں تھا،2 افراد کو عدالت نے چھوٹ دی جبکہ 5 افراد کا کیس ابھی ختم نہیں ہوا، پی اے سی نے معاملہ عدالت میں ہونے کی وجہ موخر کردیا.