سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک بیان میں صیہونی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ "اگر حماس نے ہفتے تک ہمارے قیدیوں کو واپس نہیں کیا تو جنگ بندی ختم ہو جائے گی اور اسرائیلی فوج شدید لڑائی کیلئے واپس آئے گی، تاکہ حماس کو مکمل شکست دی جا سکے۔" اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے حماس سے جنگ بندی معاہدہ ختم کرنے اور ایک مرتبہ غزہ پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکی دے دی۔ اسرائیل کے وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو نے ہفتہ تک اپنے قیدیوں کی رہائی نہ ہونے کی صورت میں غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ جنوری 19 کو شروع ہونے والی جنگ بندی کا مستقبل خطرے میں پڑگیا، اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی اہم شقوں کی خلاف ورزی پر حماس نے جوابی اقدام اٹھاتے ہوئے مزید تین قیدیوں کی رہائی منسوخ کر دی ہے۔ حماس کے اقدام پر اسرائیلی وزیراعظم سیخ پا ہوگئے اور سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں پھر سے جنگ کی دھمکی دے ڈالی۔

بینجمن نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ "اگر حماس نے ہفتے تک ہمارے قیدیوں کو واپس نہیں کیا تو جنگ بندی ختم ہو جائے گی اور اسرائیلی فوج شدید لڑائی کے لیے واپس آئے گی، تاکہ حماس کو مکمل شکست دی جا سکے۔" دوسری جانب حماس نے کہا کہ اسرائیل کی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں اس حد تک پہنچ گئی ہیں کہ اس نے معاہدے کے تحت مزید قیدیوں کی رہائی کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا، "مزاحمتی قیادت نے دشمن کی خلاف ورزیوں اور معاہدے کی عدم پاسداری کا مشاہدہ کیا ہے، جبکہ اس دوران حماس نے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کیں۔"

ادھر نیتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو "غزہ پٹی کے اندر اور اردگرد افواج جمع کرنے کا حکم دیا ہے۔" دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر ہفتہ تک تقریباً 70 قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو اسرائیل کو جنگ بندی مکمل طور پر منسوخ کر دینی چاہیئے، بصورتِ دیگر "حالات بے قابو ہو جائیں گے۔" خیال رہے کہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک 48 ہزار 219 فلسطینی جاں بحق اور ایک لاکھ 11 ہزار 665 زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ حکومت کے میڈیا دفتر نے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کو بڑھا کر 61 ہزار 709 بتایا ہے، کیونکہ ملبے تلے دبے لاپتہ افراد کو اب مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نیتن یاہو کی دھمکی

پڑھیں:

دھمکی نہیں دلیل

اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں: امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اسکے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔ تحریر: احسان احمدی

امریکی حکام نے برسوں سے اپنے آپ کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اس کے جوہری پروگرام میں رکاوٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ خلاصہ ہے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور ایک سینیئر امریکی ماہر رے ٹیکیکی کے الفاظ کا۔ رے ٹیکیکی نے ہفتے کے روز پولیٹیکو ویب سائٹ پر واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے بارے میں ایک مضمون  شائع کیا تھا۔ مغربی میڈیا کے معمول کے پروپیگنڈے کے برعکس رے ٹیکیکی نے اپنے مضمون کا مرکز اس حقیقت پر رکھا کہ جس چیز کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان مختلف ادوار میں مذاکرات ہوئے، وہ ایران کے خلاف پابندیوں کا دباؤ نہیں تھا بلکہ امریکہ کو ایران کی جوہری پیش رفت سے خطرے کا احساس تھا۔

یہ نقطہ نظر، میڈیا کی تشہیر سے ہٹ کر، مختلف امریکی حکومتوں کے حکام کے الفاظ میں اشاروں کنایوں میں درک کیا جاسکتا ہے۔ ان اہلکاروں میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شامل ہیں۔ اپنی ایک رپورٹ Every Day Is Extera میں وہ واضح کرتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایران کی مقامی افزودگی کو تسلیم کیے بغیر اس کے ساتھ بات چیت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں، جان کیری لکھتے ہیں: "اس بات سے قطع نظر کہ ایران کو افزودگی کا "حق" حاصل ہے یا نہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک ہم احتیاط سے طے شدہ حدود کے تحت ایران کی افزودگی جاری رکھنے کے امکان کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، تب تک  ایران کے ایٹمی پروگرام تک رسائی، شفافیت اور حقائق کے حصول کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ افزودگی کے حق کو تسلیم کرکے ہی اس بات کو  یقینی بنایا جا سکتا  ہے کہ ایران فوجی جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے یا نہیں۔

سابق امریکی سفارت کار نے مزید کہا ہے کہ ایران میں اوسط ہر دوسرا فرد اس خیال سے ناراض ہوگا کہ ان کا ملک وہ نہیں کرسکتا، جو دوسرے آزاد ممالک (افزودگی) کرتے ہیں، کیونکہ امریکہ ایسا کرنا چاہتا ہے۔ ایرانیوں کے نزدیک یہ انداز امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مساوی ہوگا۔ وہ امریکی جنہوں نے ان کے خیال میں شاہ کے دور میں ان کی آزادی اور خودمختاری میں کافی عرصے تک مداخلت کی تھی۔ اس کتاب میں کیری نے انکشاف کیا کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی خفیہ طور پر ایران میں مقامی افزودگی کو قبول کرنے کی ضرورت کے خیال کو قبول کر لیا تھا۔

وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے  اپنی نجی گفتگو سے یہ درک کیا  کہ بش انتظامیہ کے بظاہر عوامی موقف کے باوجود، اس انتظامیہ نے خفیہ طور پر اور نجی طور پر (ایرانی افزودگی کے) خیال سے اتفاق کر لیا تھا، حالانکہ وہ کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ ایٹمی ڈھانچہ یا سطح (افزودگی) کیا ہونی چاہیئے۔ اپنے مضمون میں رے ٹیکیکی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ٹرمپ کی  پہلی انتظامیہ کے دوران زیادہ سے زیادہ دباؤ کا منصوبہ ایران کے جوہری پروگرام کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز، حتیٰ کہ اوباما کے دور میں بھی، واشنگٹن کی جانب سے تہران کو دی جانے والی اہم مراعات کا نتیجہ تھا۔

"اوباما کی زیادہ دوستانہ پالیسی تبھی آگے بڑھی، جب واشنگٹن نے (تہران) کو ایک کلیدی رعایت دی یعنی "ایران کو افزودہ کرنے کا حق،" امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں۔ امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اس کے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ پر مستقل قبضے کا اسرائیلی خواب
  • سندھ طاس معاہدہ کسی کو ختم کرنے کی اجازت نہیں: شاہد خاقان عباسی
  • پہلگام فالس فلیگ کے بعدپاکستان کیخلاف ایک اور بھارتی منصوبہ بے نقاب، پاکستانی قیدیوں کو استعمال کرنے کا خدشہ
  • صیہونی فوج اور معاشرے میں افراتفری
  • دھمکی نہیں دلیل
  • صیہونی فوج کے غزہ پر سفاکانہ حملے جاری، مزید 32 فلسطینی شہید
  • صیہونی وزیراعظم اور ڈونلڈ ٹرامپ کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو
  • غزہ میں اسرائیلی فوج کا خونی کھیل جاری،وحشیانہ بمباری سے مزید 28 فلسطینی شہید
  • قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے غزہ میں 7 سالہ جنگ بندی کا نیا فارمولا تجویز
  • سرکاری عہدہ رکھنے والوں اور غیر فعال کارکنان کو پارٹی میں شامل نہ کرنیکی ہدایات