توہینِ مذہب کے مقدمات کا ایک حساس پہلو
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
ان دنوں توہینِ مذہب میں درج مقدمات کے حوالے سے یہ بحث جاری ہے کہ توہینِ قرآن کریم اور توہینِ رسالت کے بعض مقدمات پر اس پہلو سے نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ جس طرح کسی بھی گستاخ کو بہرحال اس کے کیفر کردار تک پہنچانا ہماری دینی و قانونی ذمہ داری ہے، اسی طرح کسی بے گناہ کو سزا سے بچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس لیے ان مقدمات کا دونوں حوالوں سے قومی سطح پر جائزہ لینے اور ممتاز دینی و قانونی ماہرین کا اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے تاکہ گستاخوں کو ان کے سنگین و قبیح جرم کی جلد از جلد سزا دینے کے ساتھ ساتھ بے گناہوں کی گلوخلاصی کا بھی اہتمام ہو سکے۔ اس سلسلہ میں ربع صدی قبل کے دو مقدمات کے بارے اپنا ایک کالم دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اس سے مسئلہ کے اس پہلو کی حساسیت کا کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے-
 یورپ کے بعض اخبارات کی طرف سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی پر عالم اسلام میں اضطراب مسلسل بڑھتا جا رہا ہے اور پاکستان کی کم و بیش تمام دینی و سیاسی جماعتوں نے ۳ مارچ کو ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی ہے جس کی تیاریاں ملک بھر میں ہر سطح پر جاری ہیں۔ قوم کا مطالبہ یہ ہے کہ آنحضرتؐ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا اہتمام کرنے والے اخبار کے ملک ڈنمارک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں اور مغربی میڈیا کی اسلام دشمن مہم اور سرگرمیوں کا اسلامی سربراہ کانفرنس کی سطح پر نوٹس لیا جائے۔ وزیراعظم جناب شوکت عزیز نے گزشتہ روز ایک بیان میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ڈنمارک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے مسئلے کا او آئی سی کے فورم پر جائزہ لیا جائے گا۔
 لاہور میں گزشتہ دنوں ہڑتال کے موقع پر جو افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی وہ بھی زیر بحث ہے اور اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر ہمارے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور ہماری دینی و سیاسی قیادت کو اس سلسلہ میں عوامی جذبات کا پوری طرح اندازہ نہیں ہے اس لیے احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنے والے لوگ قیادت کے بغیر ہی اپنے اپنے انداز میں جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس میں یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس صورتحال سے کچھ تشدد پسند عناصر ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہوں لیکن اگر سیاسی و دینی قیادت بیدار ہو اور عوامی جذبات کے اظہار کی تحریک کی عملاً قیادت کر رہی ہو تو ایسی صورتحال پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
 اصل بات یہ ہے کہ عوام اس بات پر غصہ میں ہیں کہ بعض یورپی اخبارات نے توہین رسالتؐ کے جس نئے مذموم سلسلہ کا آغاز کیا ہے اس پر مسلم حکومتوں کا (ایک دو کے سوا) رد عمل روایتی اور رسمی سا ہے اور اس کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس نہیں لیا جا رہا۔ اور اس کے ساتھ اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف مسلم ممالک کے عوام کا وہ غصہ بھی شامل ہوگیا ہے جو ان حکومتوں کی مغرب نواز پالیسیوں کے باعث ایک عرصہ سے مسلم عوام کے دلوں میں پرورش پا رہا ہے۔ اور اس حوالہ سے بی بی سی کا یہ تبصرہ بالکل درست اور حقیقت پسندانہ ہے کہ مظاہروں کی شدت میں مسلمان عوام کا اپنی حکومتوں کے خلاف غصہ بھی پوری طرح کارفرما ہے۔
 ہم نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ مغرب اس معاملے میں مسلمانوں کے جذبات کی شدت اور حساسیت کا پوری طرح اندازہ نہیں کر رہا اور وہ اس بات کا ادراک نہیں کر پا رہا کہ مسلمان قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت اور تقدس کے مسئلے پر اس قدر جذباتی اور حساس ہیں کہ وہ اس کے تحفظ کے جذبے کے تحت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جناب رسول اکرمؐ کے ناموس اور حرمت کے سوال پر دنیا بھر کے مسلمان اپنے جذبات کا جس انداز سے اظہار کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے جبکہ قرآن کریم کے حوالے سے مسلمانوں کی حساسیت کا اندازہ ایک حالیہ واقعہ سے کیا جا سکتا ہے۔
 قدرت اللہ اینڈ کمپنی لاہور میں قرآن کریم کی طباعت و اشاعت کا ایک بڑا ادارہ ہے جس نے گزشتہ دنوں قرآن کریم کا ایک نسخہ سعودی عرب کی طرز پر شائع کیا ہے جو مسئلہ بن گیا ہے۔ سعودی عرب کا رسم الخط اور انداز تحریر جنوبی ایشیا سے مختلف ہے۔ قرآن کریم کے متن میں تو کسی جگہ کوئی فرق نہیں اور نہ ہو سکتا ہے، لیکن بعض سورتوں کے ناموں اور بعض الفاظ کے طرز تحریر میں فرق ہے جس سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو سعودی عرب کی طرز پر طبع شدہ قرآن کریم کی تلاوت میں دقت پیش آتی ہے۔ چنانچہ حرمین شریفین یعنی مسجد حرام اور مسجد نبویؐ میں بھی اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے عام لوگوں کو تلاوت کے لیے دونوں طرز کے نسخے الگ الگ فراہم کیے جاتے ہیں۔
 مثلاً قرآن کریم کی بعض سورتوں کے ناموں میں فرق ہے۔ ہمارے ہاں جس سورۃ کو بنی اسرائیل کے نام سے پڑھا جاتا ہے، سعودی نسخوں میں اس سورۃ کو ’’الاسراء‘‘ کے نام سے لکھا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ المؤمن کا نام سورۃ الغافر، سورۃ حم السجدہ کا نام سورۃ فصلت، سورۃ الدھر کا نام سورۃ الانسان، اور سورۃ اللہب کا نام سورۃ المسد لکھا گیا ہے۔ ان سورتوں کے یہ سب نام درست ہیں اور احادیث و آثار میں ان کا تذکرہ موجود ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں جنوبی ایشیا میں جو رسم الخط اور مصحف صدیوں سے رائج چلا آرہا ہے اس کے مطابق یہ نام معروف نہیں ہیں۔
 اس لیے قدرت اللہ اینڈ کمپنی کی طرف سے اس نسخے کی اشاعت کے ساتھ ہی یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے کہ قرآن کریم کی سورتوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ اس پر معروف قانون دان جناب ایم ڈی طاہر نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی اور پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایم پی اے محترمہ فرزانہ پراچہ نے تحریک التواء کا نوٹس دے دیا۔ محکمہ اوقاف اور وزارت مذہبی امور نے بھی اس کا نوٹس لیا اور قدرت اللہ اینڈ کمپنی نے صورتحال کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے حکومت پنجاب کے قائم کردہ قرآن بورڈ سے رجوع کر لیا اور ذمہ دار مفتیان کرام سے بھی رابطہ قائم کیا۔ اس پر جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا مفتی حمید اللہ خان نے لکھا:
 (جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قرا ن کریم کی کیا جا سکتا کا نام سورۃ سورتوں کے سکتا ہے کے ساتھ کے نام بات کا اور اس
پڑھیں:
علیمہ خانم کے 11 بنک اکاﺅنٹس منجمد، 5 بنکوں کو توہین عدالت کے نوٹس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی:۔ انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی خصوصی عدالت کے حکم پر اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک اور الفلاح بنک نے بانی پی ٹی آئی اورسابق چیئرمین کی ہمشیرہ علیمہ خانم کے مجموعی طور پر 11 اکائونٹس منجمد کردئیے ہیں۔ منجمد کئے گئے اکائونٹس میں علیمہ خانم کے ذاتی اکائونٹس کے ساتھ ٹرسٹ کے اکائونٹس بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسٹینڈز چارٹرڈ بنک نے ملزمہ کے 10 اکائونٹس اور الفلاح بنک نے ملزمہ کا ایک اکائونٹ منجمد کردیا ہے، عدالت نے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر مسلم کمرشل بنک اور یونائیٹڈ بنک سمیت 5 بنکوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دئیے ہیں جبکہ وارنٹ گرفتاری کی عدم تعمیل پر عدالت نے ساتویں مرتبہ علیمہ خانم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے ہیں۔
تحریک انصاف کے 26 نومبر کے احتجاج پر تھانہ صادق آباد کے مقدمہ میں گزشتہ روز سماعت کے موقع پر علیمہ خانم اور ان کے وکلا عدالت میں پیش نہ ہوئے اس موقع پر 3 ملزمان ذاتی حیثیت میں عدالت میں موجود تھے جبکہ دیگر 7 ملزمان کے وکیل پیش ہوئے، دوران سماعت اسپیشل پراسیکیوٹر ظہیر شاہ عدالت میں موجود تھے۔
اس موقع پر ملزمہ کے 30 بنک اکائونٹس کے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی گئی جن میں ملزمہ کے ذاتی اکائونٹس کے علاوہ ٹرسٹ اکائونٹس اورمختلف کمپنیوں کے اکائونٹس شامل ہیں، تاہم عدالتی حکم کے باوجود نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم سمیت مختلف کمپنیوں کے اکائونٹس منجمد نہ کرنے پر عدالت نے مسلم کمرشل بنک، یونائیٹڈ بنک، حبیب میٹرو بنک، فیصل بنک اور بنک المکرمہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دئیے ہیں اور ہدایت کی ہے کہ ملزمہ کے ذریعے آپریٹ ہونے والے تمام اکائونٹس منجمد کیے جائیں عدالت نے ساتویں مرتبہ علیمہ خانم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے سماعت 6 نومبر تک ملتوی کر دی۔