ملک کے آٹو سیکٹر میں نمایاں بہتری آئی ہے اور جنوری میں گاڑیوں کی فروخت میں 65 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن ( پاما) کی رپورٹ کے مطابق آٹو سیکٹر میں الیکٹرک وہیکل ، جیپ، کار، وین سمیت دیگر یونٹس کی ایک ماہ میں کُل فروخت 17 ہزار تک پہنچ گئی۔آٹو سیکٹر کی فروخت جنوری 2024 سے جنوری 2025 تک 61 فیصد بہتر رہی۔ مالی سال 2025 کے ابتدائی سات ماہ میں آٹو سیکٹر کی فروخت 56 فیصد بڑھ کر 78 ہزار سے تجاوز کرگئی۔

رپورٹ کے مطابق مسافر گاڑیوں کی فروخت 11,868یونٹس رہی جو دسمبر 2024 میں 7,864 یونٹس کے مقابلے 51 فیصد زائد ہے۔ 1300 سی سی اور اس سے زیادہ کی گاڑیوں کی فروخت 85 فیصد سے بڑھ کر5,518 یونٹس تک پہنچ گئی۔ 1000 سی سی گاڑیوں کی فروخت میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ 1000 سی سی سے کم گاڑیوں کی فروخت 63 فیصد سے بڑھ کر 5،633 یونٹس رہی۔

رپورٹ کے مطابق ٹرکوں کی فروخت میں 344 فیصد اضافہ اور  بسوں میں 61 فیصد کمی دیکھی گئی۔  موٹر سائیکلوں کی فروخت بھی نمایاں اضافے سے 132,947 یونٹس تک پہنچ گئی۔ آٹو ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آٹو سیکٹر میں بہتری شرح سود میں کمی اور روپے کی قدر میں بہتری کا نتیجہ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گاڑیوں کی فروخت کی فروخت میں فیصد اضافہ

پڑھیں:

فلسطین پر بھارت کی نمایاں مسلم تنظیموں اور سول سوسائٹی کا مشترکہ اعلامیہ جاری

اسلام ٹائمز: مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم حکومتِ ہند، عالمی رہنماؤں اور دنیا بھر کے باضمیر انسانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کریں۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی

بھارت کی بڑی اور نمایاں مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے قضیہ فلسطین پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جس میں بھارتی حکومت اور عالمی طاقتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ غزہ میں جاری ظلم و بربریت کو روکنے کے لئے فوری مداخلت کریں۔ انہوں نے کہا "ہم بھارت کی مسلم تنظیموں کے رہنماء، مذہبی علماء اور ملک کے امن پسند شہری، غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانیت سوز بحران کی شدید مذمت کرتے ہیں۔" انہوں نے کہا "ہم 20 کروڑ سے زائد بھارتی مسلمانوں اور وطن عزیز کے تمام امن پسند شہریوں کی جانب سے فلسطینی عوام کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ ہم حکومتِ ہند، عالمی رہنماؤں اور دنیا بھر کے باضمیر انسانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔

غزہ میں سنگین بحرانی کیفیت
فلسطینی عوام پر جاری جارحانہ اسرائیلی حملے منظم نسل کشی کی صورت اختیار کرچکے ہیں، ان حملوں میں گھروں، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزیں کیمپوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اکتوبر 2023ء سے اب تک تقریباً ایک لاکھ معصوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جارحانہ اسرائیلی بمباری کے سبب غزہ کے 90 فیصد طبی مراکز یا تو پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں یا ناکارہ ہوچکے ہیں، اس وقت پورے غزہ میں گنتی کے چند غذائی مراکز بچے ہیں، جو 20 لاکھ سے زائد افراد کی ضرورتوں کی تکمیل کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ 17,000 سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں جبکہ اس جنگ نے پانچ لاکھ سے زائد بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔ ایک جانب غزہ میں اتنی سنگین بحرانی کیفیت ہے اور دوسری جانب ہزاروں ٹن خوراک اور طبی امداد سرحدوں پر روک دی گئی ہے، پانی و صفائی کے نظام کی تباہی کے سبب غزہ میں مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اگر فوری طور پر ناکہ بندی ختم نہ کی گئی تو غزہ میں مکمل طور پر قحط سالی کا خطرہ ہے۔

عالمی طاقتوں سے کیا گیا یہ بڑا مطالبہ
مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے کہا کہ ایسی صورت میں عالمی برادری کی خاموشی ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی طاقتوں اور تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ عسکری و اقتصادی تعلقات منقطع کریں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کے خاتمہ کے مطالبے کی حمایت کریں۔ ہم تمام مسلم ممالک سے بھی پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ بنائیں، تاکہ غزہ میں جاری نسل کشی کو روکا جاسکے۔ تاریخی اعتبار سے ہمارا ملک ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پوری قوت سے اس تاریخی روایت کی پاسداری کریں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم اپنی حکومتِ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کی اخلاقی اور سفارتی روایت کا احترام کرے، کھل کر اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں کی مذمت کرے، اس کے ساتھ عسکری اور اسٹریٹجک تعلقات کو معطل کرے۔ فلسطینی عوام کی جائز جدوجہد میں ان کا ساتھ دے اور عالمی سطح پر خطہ میں امن و استحکام کی کوششوں میں بھرپور حصہ لے۔ ہم اپنی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی بنیادوں پر غزہ کے مظلومین کے لئے فوری امداد کا انتظام کرے اور غزہ میں خوراک، پانی، ایندھن اور طبی سامان کی ترسیل کے لئے کی جا رہی سفارتی کوششوں میں بھرپور حصہ لے۔

مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کی عام شہریوں اور اداروں سے اپیل
مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے کہا کہ ہم عام شہریوں اور اداروں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی مصنوعات اور ان کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں، جو کسی بھی طریقے سے اس نسل کشی میں شریک ہیں۔ سول سوسائٹیز، تعلیمی ادارے اور مذہبی تنظیمیں ملک میں مظلوموں کی آواز بنیں اور فلسطینی جدوجہد کے خلاف پھیلائے جا رہے پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے کو بے نقاب کریں۔ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کے لئے جاری پُرامن اور قانونی مزاحمت میں پُرجوش شرکت کریں۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ غزہ کے لئے یکجہتی مارچ، بیداری مہمات، علمی مذاکروں اور بین المذاہب تقاریب کا اہتمام کیا جائے، تاکہ یہ پیغام جائے کہ ہندوستانی ضمیر خاموش نہیں ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو ریاستی ہراسانی یا دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل رہے۔ مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے کہا کہ یہ بات بے حد اہم ہے کہ اس تنازعہ کے سلسلے میں ہمارا موقف وقتی سیاسی مفادات کے بجائے آئین میں درج اصولوں اور ہماری تہذیبی اور اخلاقی قدروں پر مبنی ہو۔ بے گناہ انسانوں کی نسل کشی کے وقت خاموشی یا غیر جانبدار رہنا سفارت کاری نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ اب وقت ہے کہ ہم غزہ کے عوام کے ساتھ کھل کر یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں، ہمارے اقدامات انصاف کے تقاضوں اور انسانی ہمدردی کی ہماری روایت سے ہم آہنگ ہوں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، ہمیں ایک ہوکر اس نسل کشی کو روکنے کے لئے آواز اٹھانا ہوگی۔ مسئلہ فلسطین پر اس مشترکہ اعلامیہ کو جاری کرنے والوں میں مولانا ارشد مدنی (صدر جمیعۃ علماء ہند)، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)، سید سعادت اللہ حسینی (امیر جماعت اسلامی ہند)، مولانا علی اصغر امام مہدی (امیر مرکزی جمیعت اہلحدیث)، مولانا حکیم الدین قاسمی (جنرل سیکریٹری جمیعۃ علماء ہند)، مولانا احمد ولی فیصل رحمانی (امیر شریعت امارت شریعہ بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ، مغربی بنگال)، مفتی مکرم احمد (امام شاہی جامع مسجد فتحپوری)، مولانا عبیداللہ خان اعظمی (سابق رکن پارلیمنٹ)، ملک معتصم خان (نائب امیر جماعت اسلامی ہند)، ڈاکٹر محمد منظور عالم (جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل)، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان (سابق چیئرمین دہلی مائنریٹی کمیشن)، عبد الحفیظ (صدر ایس آئی او آف انڈیا)، مولانا محسن تقوی (معروف شیعہ عالم دین)، پروفیسر اختر الواسع (سابق وائس چانسلر، مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور) شامل ہیں۔

درایں اثناء انڈین نیشنل کانگریس نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی مظالم پر مودی حکومت کی خاموشی شرمناک ہے اور ایسی اخلاقی بزدلی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہے۔ کانگریس نے غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں اور فلسطینیوں پر ڈھائے جا رہے مظالم پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مودی حکومت کی خاموشی کو شرمناک اور اخلاقی بزدلی کی انتہاء قرار دیا ہے۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر اور پارٹی کے مواصلاتی انچارج جے رام رمیش نے الزام لگایا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کو ناراض کرنے سے بچنے کے لئے جان بوجھ کر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جے رام رمیش نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ غزہ میں فلسطینی عوام پر اسرائیلی حکومت کے ذریعے مسلسل خوفناک مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ جن لوگوں کو بنیادی انسانی ضرورت یعنی خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں دیکھا جاتا ہے، انہیں نہایت بے رحمی سے قتل کیا جا رہا ہے یا پھر دانستہ طور پر بھوکا رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی حادثاتی سانحہ نہیں بلکہ ایک منظم اور سوچا سمجھا نسل کشی کا منصوبہ ہے، جس کا مقصد پورے فلسطینی معاشرے کو ختم کرنا ہے۔

کانگریس کمیٹی کے لیڈر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں جب دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی خبریں فلسطین سے سامنے آ رہی ہیں، مودی حکومت کی خاموشی انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم اس لئے خاموش ہیں، تاکہ ان کے قریبی دوست نیتن یاہو ناراض نہ ہو جائیں۔ ہندوستانی حکومت نے آج تک ایسی اخلاقی بزدلی کبھی نہیں دکھائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ رویہ نہ صرف سیاسی طور پر قابل اعتراض ہے بلکہ انسانیت کے خلاف جرم پر آنکھ بند کرنا ہے، جو کہ ہندوستان کی دیرینہ خارجہ پالیسی اور اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔ دوسری طرف غزہ کی صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس درمیان کانگریس نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنا مؤقف واضح کرے اور غزہ میں انسانیت سوز مظالم کی مذمت کرے۔ کانگریس نے یاد دلایا کہ بھارت ہمیشہ عالمی سطح پر مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے، لیکن موجودہ حکومت کا رویہ اس روایت سے انحراف ہے، جو ملکی شبیہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین پر بھارت کی نمایاں مسلم تنظیموں اور سول سوسائٹی کا مشترکہ اعلامیہ جاری
  • امریکا میں کتنے فیصد ملازمین کو خوراک کے حصول، بچوں کی نگہداشت میں مشکل کا سامنا؟
  • ہفتہ وار مہنگائی کی شرح بڑھ کر 4.07فیصد ہو گئی ، 14اشیائے ضروریہ مزید مہنگی
  • پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری، ڈالر کے مقابلے میں 76 پیسے کا اضافہ
  • سعودی عرب میں ٹرین سے سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ
  • گاڑیوں اورموٹر سائیکلوں کی رجسٹریشن میں بڑا اضافہ
  • مچھلی اور اس کی مصنوعات کی برآمد میں جون کے دوران سالانہ بنیاد پر 25.58 فیصد اضافہ ،حجم 10.8 ارب روپے رہا
  • پاکستان، یو اے ای تعاون میں نمایاں پیشرفت
  • مصنوعی ذہانت کے استعمال سے گوگل کی مالک کمپنی الفابیٹ کی آمدنی میں نمایاں اضافہ
  • پاکستان کا 9 ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ 12.297 ارب ڈالر تک پہنچ گیا