Daily Mumtaz:
2025-11-04@04:51:46 GMT

برطانیہ کا غیر قانونی تارکین کو شہریت نہ دینے کا فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

برطانیہ کا غیر قانونی تارکین کو شہریت نہ دینے کا فیصلہ

برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ وہ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے ملک پہنچنے کے بعد غیر قانونی تارکین کی جانب سے شہریت کے حصول کو تقریباً ناممکن بنانے کے لیے امیگریشن قوانین کو سخت کر رہی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق شہریت کے قوانین کے حوالے سے جاری نئی گائیڈنس کے مطابق سمندر کے ذریعے یا گاڑیوں میں چھپ کر برطانیہ آنے والے تارکین وطن کو شہریت نہیں دی جائے گی۔
برطانیہ کے محکمہ داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق اس گائیڈنس نے ان اقدامات کو مزید سخت کیا ہے جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ برطانیہ میں غیرقانونی داخل ہونے والے افراد بشمول کشتیوں سے آنے
وزیراعظم کیئر سٹارمر کی لیبر پارٹی کی حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ برطانیہ آنے والے غیرقانونی تارکین وطن کی تعداد کو کم کرے کیونکہ گذشتہ عام انتخابات میں تارکین وطن مخالف انتہائی دائیں بازو کی جماعت ریفارم پارٹی نے 40 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔
تاہم ان ضوابط میں تبدیلیوں پر لیبر پارٹی کے کچھ اراکین پارلیمان نے تنقید کی ہے۔ ممبر پارلیمان سٹیلا کریسی نے ایکس پر لکھا کہ ’اگر ہم کسی کو ریفیوجی کا درجہ دیتے ہیں تو پھر یہ غلط ہوگا کہ ہم ان کے لیے شہریت حاصل کرنے کا راستہ ہی بند کر دیں’یہ پالیسی ان کو ہمیشہ کے لیے دوسرے درجے کا فرد بنا دے گی۔‘
امیگریشن قوانین کے حوالے سے بلاگ ’فری مومنٹ‘ کا کہنا ہے کہ مذکورہ تبدیلیوں سے ایک بڑی تعداد میں تارکین وطن فوری اور موثر طور پر برطانوی شہری بننے سے محروم ہو جائیں گے۔
فری مومنٹ کے مطابق یہ گائیڈنس ’غیر معمول طور پر نفرت انگیز اور انضمام کے لیے نقصاندہ ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ اعلامیہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے اراکین پارلیمان نے حکومت کے نئے ’بارڈر سکیورٹی، اسائلم اور امیگریشن بل‘ پر بحث کا آغاز کیا۔
اس بل کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انسداد دہشت گردی کی طرز پر اختیارات دیے جائیں گے جن کو استعمال کرکے وہ ان منظم گینگز کی سرکوبی کرسکیں گے جو رودبار انگلستان کے ذریعے غیرقانونی تارکین کو برطانیہ پہنچاتے ہیں۔
برطانیہ پہنچنے والے قانونی اور غیرقانوی تارکین دونوں کی تعداد اس وقت تاریخی طور پر بہت زیادہ ہے۔ 2024 کے انتخابات کے دوران تارکین وطن کا ایشو بڑا انتخابی ایشو تھا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں کیئر سٹارمر اقتدار میں آئے تھے۔
عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیراعظم سٹارمر نے اپنے پیش رو رشی سونک کے غیرقانوی تارکین کو روکنے کے منصوبے کو ختم کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت برطانیہ پہنچنے والے غیرقانونی تارکین کو روانڈا ڈی پورٹ کیا جانا تھا۔
وزیراعظم سٹارمر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ روانڈا پلان کے بجائے ان گینگز کو توڑ کر غیرقانونی تارکین وطن کی برطانیہ آمد کو کم کریں گے جو ان کو برطانیہ لاتے ہیں۔
برطانیہ کی وزارت داخلہ کے غیر حتمی اعداد و شمار کے مطابق فرانس اور برطانیہ کے درمیان انگلش چینل (رودبار انگلستان) سے 2024 کے دوران 36 ہزار 816 افراد گزرے جو کہ 2023 کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہے۔
2023 کے دوران 29 ہزار 437 افراد گزرے تھے۔
برطانوی حکومت کی جانب سے غیر قانونی تارکین کے حوالے سے شہریت کے ضوابط میں تبدیلی سے پاکستان سمیت مختلف ممالک سے برطانیہ پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن متاثر ہوں گے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: غیر قانونی تارکین غیرقانونی تارکین تارکین وطن تارکین کو کے مطابق نے والے کے لیے

پڑھیں:

امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔

جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔

نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“

سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  •   برطانیہ: ٹرین حملے کے ملزم پر قتل کی 10 کوششوں کے الزامات
  • پنجاب میں قبل از وقت کھلنے والے تعلیمی اداروں پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ
  • غیرقانونی مقیم غیرملکیوں کے خلاف آپریشن تیز، راولپنڈی میں 216 افغان شہری گرفتار
  • راولپنڈی ؛ افغان باشندوں کو مکان کرایہ پر دینے والے 18 مالک مکان گرفتار
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • ٹرمپ کی 2026 ء کیلیے تارکین وطن کو ویزا دینے کی حد مقرر
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے مالی سال 2026ء کیلئے تارکین وطن کو ویزا دینے کی حد مقرر کر دی
  • چین میں وزن کم کرنے والے کو انعام میں لگژری کار دینے کی انوکھی پیش کش
  • افغانیوں کو دکان و گھر کرائے پر دینے والے مالکان پر 79 مقدمات درج
  • غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کے سہولت کاروں کی پکڑ دھکڑ