Express News:
2025-11-05@03:21:57 GMT

’’ کیا بات کرو ہو‘‘

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

جب گھر میں میٹھے چاؤل پکیں تو لازم ہے کہ اس کی خوشبوہمسایوں تک بھی پہنچتی ہے، پاکستان ایک وفاق ہے ، ایک صوبے یا شہر میں کچھ ہورہا ہو تو باقی گھروالوں کو بھی پتہ چل جاتا ہے۔

لاہو میں تیس برس بعدہارس اینڈ کیٹل شو ہوا ہے، نیوزی لینڈ اور پاکستانی کرکٹ کھلاڑیوں نے ون ڈے میچ کھیلا ہے، شدید حبس کے بعد ہوا چلے تو اسے وہی محسوس کرسکتا ہے، جو حبس بھگت رہا ہو، میں دعوت کے باوجود ہارس اینڈ کیٹل شونہیں دیکھ سکا نہ اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے گیا،لیکن میں محسوس کرسکتا ہوں۔ یقیناً کراچی، پشاوراور کوئٹہ کے شہریوں نے بھی محسوس کیا ہوگا۔جب کسی شہر میں کوئی ایونٹ ہوتا ہے تو یہ صرف ہلہ گلہ اور موج مستی نہیں ہوتا، بلکہ روپے کی گردش میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔لوگ گھروں سے اسٹیڈیم میچ دیکھنے کے لیے نکلیں یا ہارس اینڈ کیٹل شو دیکھنے جائیں، یا کوئی تہوار منائیں، جیب میں پیسے رکھ کر نکلتے ہیں، جو کھانے پینے، ہنسنے کھیلنے اور ٹرانسپورٹیشن پر خرچ ہوتے ہیں، معیشت حرکت میں آتی ہے۔ آپ چائنہ کو دیکھیں، وہاں پورا سال مختلف موسمی تہوار منائے جاتے ہیں۔

 کہیں قمری سال اور کہیں شمسی سال اور کہیں قدیم کیلینڈر ایئرمنائے جاتے ہیں، کاروباری کانفرنسز اور تجارتی میلے ہوتے ہیں، کھیلوں کے ٹورنامنٹس جاری رہتے ہیں، ثقافتی شو ہوتے ہیں، غرض سارا سال پورا چین حرکت میں رہتا ہے، اس کا مقصد صرف معیشت کو متحرک رکھنا ہے، پیسے کو گردش میں رکھنا ہے، لوگوں کو رقم خرچ کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ معاشی اصول ہے کہ ایک فرد پیسہ خرچ کرتا ہے تو وہ دوسرے کا کاروبار اور آمدنی ہوتی ہے۔ ایک ہزار کا نوٹ اگر دس ہاتھوں میں استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب دس ہزار روپے کا کاروبار ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اولمپک گیمز اور فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی بزنس کلاس اور حکومتیں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں۔ ان ایونٹس کا مطلب اربوں ڈالر کا کاروبار ہے۔ بھارت میں حال ہی میں ’’مہاکنبھ‘‘ میلا ہوا ہے،مذہبی بحث میں پڑے بغیر صرف اس میلے کے ایام کے دوران آمدنی و خرچ کا حساب لگائیں تو حجم اربوں بھارتی روپے تک جا پہنچتا ہے۔ ہندوستان میں بھی آئے روز فیشن شوز، کھیلوں کے ٹورنامنٹس ، علاقائی میلے اور تہوار منائے جاتے ہیں، ہرسال لاکھوں غیرملکی سیاح آتے ہیں، اندازہ لگائیں کتنے ارب روپے کا کاروبار ہوتا ہوگا۔

تھائی لینڈ میں کرسمس، نیوائر اور ویلنٹائن ڈے منانے کے لیے لاکھوں سیاح آتے ہیں، ان ایام میں چھوٹے سے چھوٹے ہوٹلز، موٹلز،اپارٹمنٹس تک بک ہوتے ہیں، کرائے بھی زیادہ ہوتے ہیں، پتایا، بنکاک، وغیرہ میں کیفے،بارز، مساج سینٹرز اور شاپنگ مالز سیاحوں سے اٹے ہوتے ہیں، سمندر میں کشتیاں اور سٹیمرز چلانے والوں تک کے پاس گاہکوں کا بے پناہ رش ہوتا ہے، سڑکوں اور گلیوں میں ٹھیلے اور چھابڑیاں لگانے والے تک کی جیبیں نوٹوں سے بھری ہوتی ہیں، کاروباری طبقے نے پچاس فیصد سیل لگائی ہوتی ہے۔ لاکھوں سیاح دل کھول کر پیسے خرچ کرتے ہیں، ہر طرف گہماگہمی، ہر چہرہ خوش، ظاہر ہے جیب میں پیسے ہوں، خرچ کرنے کا موقع ہو، تو خوشی کا احساس لازم ہے۔کوئی ان معاملات کو اخلاق و عقیدے کی عینک سے دیکھے تو اس کی مرضی ہے۔

 امن کیا ہوتا ہے، زندگی کی روانی کیا ہوتی ہے، پارا چنار والوں سے پوچھ لیں یا پھر کرک شہر کے باسیوں سے پوچھ لیں۔ کرک شہر میں بدامنی سے کون واقف نہیں ہے، اس کی وجوہات کا بھی کم از کم خیبر پختونخوا کی حکومت کو تو علم ہوگا۔ وہاں دو تین روز قبل گرینڈ امن جرگہ یعنی ’’مہا امن پنچایت‘‘ ہوئی ہے۔ اس کے شرکاء نے علاقے میں موجود مسلح جتھوں کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ تین دن کے اندر اندر علاقے سے نکل جائیں، اگر مقررہ مدت کے بعد ہتھیار بند جتھے علاقے میں موجود رہے تو امن پسند شہری ان کے خلاف لشکر کشی پر مجبور ہوں گے ۔

امن جرگہ یا امن پنچایت نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس کو جو بھی وسائل درکار ہیں، وہ فراہم کیے جائیں تاکہ پولیس دہشت گردوں اور مسلح جھتوں کے خلاف موثر کارروائی کر سکے۔ سی ٹی ڈی کو مکمل اختیارات دینے، نیشنل ایکشن پلان پر 100فیصد عمل درآمد یقینی بنانے اور دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ ریاست دہشت گردوں کے خلاف سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، عوام اس اقدام کی مکمل حمایت کریں گے۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی نشاندہی کے بعد ان کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کرک کے شہریوں نے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار کرک ہی نہیں بلکہ پاکستان کے امن پسند عوام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ پاکستان میں کاروبار اور انفرااسٹرکچر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

ویسے بھی قاتل مائنڈ سیٹ کبھی امن پسند نہیں ہوسکتا، وہ رحم دل نہیں ہوسکتا، وہ کوئی کاروبار نہیں کرسکتا، وہ اپنے گھر والوں کا بھی دشمن ہوتا ہے اور محلہ داروں کا بھی دشمن ہوتا ہے، لہٰذا قاتل سے ہمدردی کی دلیل بے معنی و بے وقعت ہے۔ اخبار کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ کرک کے امن جرگے میں مقامی ایم این اے شاہد خٹک، صوبائی وزیر زراعت میجر سجاد بارکوال اور خیبر پختونخوا کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی ہے ، میں ان میں سے کسی کو ذاتی طور پر نہیں جانتا لیکن ان کے تمام مطالبات کی حمایت کرتا ہوں۔ کیونکہ کرک جتنا ان کا شہر ہے ، اتنا میرا بھی ہے۔

اگر وہاں بدامنی ہے تو اس کا مجھے بھی دکھ اور احساس ہونا چاہیے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پاکستان کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز اس کے عوام ہیں۔ یہ ریاست ہماری ہے، پاکستان میں امن اور کاروبار کی بحالی ہمارے بچوں اور خاندانوں کی ضرورت ہے ، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو امن اور کاروبار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ان کا کاروبار بے گناہوں کو قتل کرنا ہے اور وہ اپنا ’’کاروبار‘‘ پوری تندہی اور انہماک سے کررہے ہیں۔ پاکستان میں قیام امن اور کاروباری ماحول پیدا کرنے کے لیے عوام کو متحد ہونا پڑے گا ، حکمرانوں کا کیا ہے، تو وہ بوریا بستر اٹھائیں گے اور پہلی پروازوں سے یورپ وغیرہ کا رخ کرلیں گے ، ان کے پاس غیرممالک کے ویزے، گرین کارڈز اور پاسپورٹ تک موجود ہیں، مسئلہ تو میرا اور آپ کا ہے۔ ہمارا جینا مرنا یہیں ہے۔

کیا یہ المیہ نہیں ہے ضلع کرم میں اشیائے خورونوش، ادویات، پھل، سبزیاں اور دیگر ضروری سامان لے جانے والے ٹرکوں پر حملے ہوتے ہیں۔ وہاں بنکرز اور مورچے تباہ کیے جارہے ہیں، کیا شہر ایسے ماحول میں ترقی کرسکتے ہیں؟ ایسے شہروں میںکون کاروبار کرے گا؟ ایسا ضلع اور شہر جہاں کے باسی اپنی مرضی سے نقل و حرکت نہ کرسکیں،جہاں اناج لے جانے والے ٹرکوں پر دہشت گرد یا ڈاکو حملے کریں، ایسے ضلع یا شہر میں کون اپنا سرمایہ لگائے گا، وہاں کیا خاک ہارس اینڈ کیٹل شو ہوں گے یا کرکٹ میچ ہوگا۔کیا ہمارے حکمرانوں کے لیے یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے؟ خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت موجود ہے، گورنر، وزیراعلیٰ ، وزراء،مشیر اور معاونین موجود ہیں، ڈسٹرکٹ انتظامیہ ہے، پولیس ہے، دیگر محکمے موجود ہیں، لاکھوں افسر اور ملازم ہیں، یہ سارے لوگ سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں، گاڑیاں اور مراعات لے رہے ہیں، لیکن کارکردگی……؟ حضور! ذرا اپنی اداؤں پر غور فرمائیے۔

وفاقی حکومت بھی منہ میں گھنگنیاں ڈال کر نہ بیٹھے۔آپ کو بھی اپنے حصے کی ذمے داری ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ قومی خزانے سے تنخواہیں اور سہولتیں، وفاقی حکومت، اس کے افسران و ملازمین بھی ہر مہینے لیتے ہیں۔جاتے جاتے ڈاکٹر کلیم عاجز کا یہ شعر پڑھیے اورسر دھنیے۔

 ہم کو جو بھی ملا ہے، وہ تمہیں سے تو ملا ہے

ہم اور بھلادیں تمہیں، کیا بات کرو ہو

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اینڈ کیٹل شو کا کاروبار جاتے ہیں ہوتے ہیں نہیں ہے کے خلاف ہوتا ہے اور ان کے لیے

پڑھیں:

جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو

پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان تیسرے ٹی20 میچ میں شاندار فتح کے بعد قومی ٹیم کے کپتان سلمان علی آغا اور اسٹار بیٹر بابر اعظم کے درمیان پی سی بی ڈیجیٹل پر ایک دلچسپ اور خوشگوار گفتگو ہوئی۔ دونوں کھلاڑیوں نے نہ صرف اپنی کارکردگی پر روشنی ڈالی بلکہ میچ کے یادگار لمحات کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا۔

سلمان علی آغا نے گفتگو کے آغاز میں بابر اعظم کی شاندار اننگز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ‘جب بابر رنز بناتے ہیں تو ٹیم کے ساتھ پورا پاکستان خوش ہوتا ہے، اور سب کو یقین ہوتا ہے کہ اب پاکستان جیت سکتا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے: پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: بابر اعظم نے ویرات کوہلی کا کونسا ریکارڈ توڑ ڈالا؟

سلمان نے مسکراتے ہوئے بابر سے پوچھا، ‘بیٹنگ کے دوران آپ نے مجھے اتنا بھگایا کیوں؟’ بابر نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا، ‘آپ ہی نے تو زیادہ ڈبل رنز لیے، آخر آپ کپتان ہیں۔’

گفتگو کے دوران بابر اعظم نے اپنی بیٹنگ حکمتِ عملی کے بارے میں بتایا کہ اسپنرز کے خلاف انہیں کچھ مشکلات پیش آئیں، تاہم انہوں نے سلمان کے ساتھ یہ طے کیا کہ جیسے ہی کوئی گیند رینج میں آئے گی، اس پر چانس لیا جائے گا۔ یہ سنتے ہی سلمان نے مسکراتے ہوئے پوچھا، ‘تو پھر آیا رینج میں؟’ جس پر دونوں کھلاڑی ہنس پڑے۔

یہ بھی پڑھیے: تیسرا ٹی 20 : پاکستان نے جنوبی افریقہ کو شکست دے کر سیریز اپنے نام کرلی

بابر نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنے شاٹس پر اعتماد رکھا، خود کو بیک کیا اور اللّٰہ کے فضل سے ٹیم کو کامیابی ملی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے اپنی ٹریننگ اور فوکس پر محنت کر رہے ہیں اور ہمیشہ مثبت رہنے کی کوشش کرتے ہیں، اگرچہ بعض اوقات سب کچھ درست لگ رہا ہوتا ہے مگر حالات قابو میں نہیں ہوتے۔

اختتامی لمحات میں سلمان علی آغا نے بابر اعظم کے عزم اور محنت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ‘جب بابر فارم میں نہیں ہوتے تو تھوڑے پریشان نظر آتے ہیں، لیکن ان کی محنت، نظم و ضبط اور مستقل مزاجی انہیں ایک عظیم کھلاڑی بناتی ہے۔’

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • ڈاکٹرز نے پرائیوٹ کلینک و بڑے اسپتالوں کو کاروبار بنایا ہوا ہے
  • 27ویں ترمیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سب کو پتا ہے کون کروارہا ہے، حامد خان
  • محسوس ہوتا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر کام شروع ہو چکا، ملک محمد احمد خان
  • ہر ڈس آنر چیک فوجداری جرم نہیں ہوتا جب تک بدنیتی ثابت نہ ہو، لاہور ہائیکورٹ
  • کراچی آتا ہوں تو یہاں کا انفرااسٹرکچر دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے، وفاقی وزیرعبدالعلیم خان
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان
  • جنوبی کوریا میں موت کاروبار کا ذریعہ کیسے بن گئی؟
  • سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، ایک لاکھ 63 ہزار پوائنٹس کی حد دوبارہ بحال
  • مٹیاری وگردنواح میں منشیات کا استعمال بڑھ گیا، پولیس خاموش
  • جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو