Express News:
2025-07-26@22:16:00 GMT

’’ کیا بات کرو ہو‘‘

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

جب گھر میں میٹھے چاؤل پکیں تو لازم ہے کہ اس کی خوشبوہمسایوں تک بھی پہنچتی ہے، پاکستان ایک وفاق ہے ، ایک صوبے یا شہر میں کچھ ہورہا ہو تو باقی گھروالوں کو بھی پتہ چل جاتا ہے۔

لاہو میں تیس برس بعدہارس اینڈ کیٹل شو ہوا ہے، نیوزی لینڈ اور پاکستانی کرکٹ کھلاڑیوں نے ون ڈے میچ کھیلا ہے، شدید حبس کے بعد ہوا چلے تو اسے وہی محسوس کرسکتا ہے، جو حبس بھگت رہا ہو، میں دعوت کے باوجود ہارس اینڈ کیٹل شونہیں دیکھ سکا نہ اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے گیا،لیکن میں محسوس کرسکتا ہوں۔ یقیناً کراچی، پشاوراور کوئٹہ کے شہریوں نے بھی محسوس کیا ہوگا۔جب کسی شہر میں کوئی ایونٹ ہوتا ہے تو یہ صرف ہلہ گلہ اور موج مستی نہیں ہوتا، بلکہ روپے کی گردش میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔لوگ گھروں سے اسٹیڈیم میچ دیکھنے کے لیے نکلیں یا ہارس اینڈ کیٹل شو دیکھنے جائیں، یا کوئی تہوار منائیں، جیب میں پیسے رکھ کر نکلتے ہیں، جو کھانے پینے، ہنسنے کھیلنے اور ٹرانسپورٹیشن پر خرچ ہوتے ہیں، معیشت حرکت میں آتی ہے۔ آپ چائنہ کو دیکھیں، وہاں پورا سال مختلف موسمی تہوار منائے جاتے ہیں۔

 کہیں قمری سال اور کہیں شمسی سال اور کہیں قدیم کیلینڈر ایئرمنائے جاتے ہیں، کاروباری کانفرنسز اور تجارتی میلے ہوتے ہیں، کھیلوں کے ٹورنامنٹس جاری رہتے ہیں، ثقافتی شو ہوتے ہیں، غرض سارا سال پورا چین حرکت میں رہتا ہے، اس کا مقصد صرف معیشت کو متحرک رکھنا ہے، پیسے کو گردش میں رکھنا ہے، لوگوں کو رقم خرچ کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ معاشی اصول ہے کہ ایک فرد پیسہ خرچ کرتا ہے تو وہ دوسرے کا کاروبار اور آمدنی ہوتی ہے۔ ایک ہزار کا نوٹ اگر دس ہاتھوں میں استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب دس ہزار روپے کا کاروبار ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اولمپک گیمز اور فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی بزنس کلاس اور حکومتیں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں۔ ان ایونٹس کا مطلب اربوں ڈالر کا کاروبار ہے۔ بھارت میں حال ہی میں ’’مہاکنبھ‘‘ میلا ہوا ہے،مذہبی بحث میں پڑے بغیر صرف اس میلے کے ایام کے دوران آمدنی و خرچ کا حساب لگائیں تو حجم اربوں بھارتی روپے تک جا پہنچتا ہے۔ ہندوستان میں بھی آئے روز فیشن شوز، کھیلوں کے ٹورنامنٹس ، علاقائی میلے اور تہوار منائے جاتے ہیں، ہرسال لاکھوں غیرملکی سیاح آتے ہیں، اندازہ لگائیں کتنے ارب روپے کا کاروبار ہوتا ہوگا۔

تھائی لینڈ میں کرسمس، نیوائر اور ویلنٹائن ڈے منانے کے لیے لاکھوں سیاح آتے ہیں، ان ایام میں چھوٹے سے چھوٹے ہوٹلز، موٹلز،اپارٹمنٹس تک بک ہوتے ہیں، کرائے بھی زیادہ ہوتے ہیں، پتایا، بنکاک، وغیرہ میں کیفے،بارز، مساج سینٹرز اور شاپنگ مالز سیاحوں سے اٹے ہوتے ہیں، سمندر میں کشتیاں اور سٹیمرز چلانے والوں تک کے پاس گاہکوں کا بے پناہ رش ہوتا ہے، سڑکوں اور گلیوں میں ٹھیلے اور چھابڑیاں لگانے والے تک کی جیبیں نوٹوں سے بھری ہوتی ہیں، کاروباری طبقے نے پچاس فیصد سیل لگائی ہوتی ہے۔ لاکھوں سیاح دل کھول کر پیسے خرچ کرتے ہیں، ہر طرف گہماگہمی، ہر چہرہ خوش، ظاہر ہے جیب میں پیسے ہوں، خرچ کرنے کا موقع ہو، تو خوشی کا احساس لازم ہے۔کوئی ان معاملات کو اخلاق و عقیدے کی عینک سے دیکھے تو اس کی مرضی ہے۔

 امن کیا ہوتا ہے، زندگی کی روانی کیا ہوتی ہے، پارا چنار والوں سے پوچھ لیں یا پھر کرک شہر کے باسیوں سے پوچھ لیں۔ کرک شہر میں بدامنی سے کون واقف نہیں ہے، اس کی وجوہات کا بھی کم از کم خیبر پختونخوا کی حکومت کو تو علم ہوگا۔ وہاں دو تین روز قبل گرینڈ امن جرگہ یعنی ’’مہا امن پنچایت‘‘ ہوئی ہے۔ اس کے شرکاء نے علاقے میں موجود مسلح جتھوں کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ تین دن کے اندر اندر علاقے سے نکل جائیں، اگر مقررہ مدت کے بعد ہتھیار بند جتھے علاقے میں موجود رہے تو امن پسند شہری ان کے خلاف لشکر کشی پر مجبور ہوں گے ۔

امن جرگہ یا امن پنچایت نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس کو جو بھی وسائل درکار ہیں، وہ فراہم کیے جائیں تاکہ پولیس دہشت گردوں اور مسلح جھتوں کے خلاف موثر کارروائی کر سکے۔ سی ٹی ڈی کو مکمل اختیارات دینے، نیشنل ایکشن پلان پر 100فیصد عمل درآمد یقینی بنانے اور دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ ریاست دہشت گردوں کے خلاف سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، عوام اس اقدام کی مکمل حمایت کریں گے۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی نشاندہی کے بعد ان کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کرک کے شہریوں نے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار کرک ہی نہیں بلکہ پاکستان کے امن پسند عوام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ پاکستان میں کاروبار اور انفرااسٹرکچر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

ویسے بھی قاتل مائنڈ سیٹ کبھی امن پسند نہیں ہوسکتا، وہ رحم دل نہیں ہوسکتا، وہ کوئی کاروبار نہیں کرسکتا، وہ اپنے گھر والوں کا بھی دشمن ہوتا ہے اور محلہ داروں کا بھی دشمن ہوتا ہے، لہٰذا قاتل سے ہمدردی کی دلیل بے معنی و بے وقعت ہے۔ اخبار کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ کرک کے امن جرگے میں مقامی ایم این اے شاہد خٹک، صوبائی وزیر زراعت میجر سجاد بارکوال اور خیبر پختونخوا کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی ہے ، میں ان میں سے کسی کو ذاتی طور پر نہیں جانتا لیکن ان کے تمام مطالبات کی حمایت کرتا ہوں۔ کیونکہ کرک جتنا ان کا شہر ہے ، اتنا میرا بھی ہے۔

اگر وہاں بدامنی ہے تو اس کا مجھے بھی دکھ اور احساس ہونا چاہیے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پاکستان کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز اس کے عوام ہیں۔ یہ ریاست ہماری ہے، پاکستان میں امن اور کاروبار کی بحالی ہمارے بچوں اور خاندانوں کی ضرورت ہے ، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو امن اور کاروبار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ان کا کاروبار بے گناہوں کو قتل کرنا ہے اور وہ اپنا ’’کاروبار‘‘ پوری تندہی اور انہماک سے کررہے ہیں۔ پاکستان میں قیام امن اور کاروباری ماحول پیدا کرنے کے لیے عوام کو متحد ہونا پڑے گا ، حکمرانوں کا کیا ہے، تو وہ بوریا بستر اٹھائیں گے اور پہلی پروازوں سے یورپ وغیرہ کا رخ کرلیں گے ، ان کے پاس غیرممالک کے ویزے، گرین کارڈز اور پاسپورٹ تک موجود ہیں، مسئلہ تو میرا اور آپ کا ہے۔ ہمارا جینا مرنا یہیں ہے۔

کیا یہ المیہ نہیں ہے ضلع کرم میں اشیائے خورونوش، ادویات، پھل، سبزیاں اور دیگر ضروری سامان لے جانے والے ٹرکوں پر حملے ہوتے ہیں۔ وہاں بنکرز اور مورچے تباہ کیے جارہے ہیں، کیا شہر ایسے ماحول میں ترقی کرسکتے ہیں؟ ایسے شہروں میںکون کاروبار کرے گا؟ ایسا ضلع اور شہر جہاں کے باسی اپنی مرضی سے نقل و حرکت نہ کرسکیں،جہاں اناج لے جانے والے ٹرکوں پر دہشت گرد یا ڈاکو حملے کریں، ایسے ضلع یا شہر میں کون اپنا سرمایہ لگائے گا، وہاں کیا خاک ہارس اینڈ کیٹل شو ہوں گے یا کرکٹ میچ ہوگا۔کیا ہمارے حکمرانوں کے لیے یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے؟ خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت موجود ہے، گورنر، وزیراعلیٰ ، وزراء،مشیر اور معاونین موجود ہیں، ڈسٹرکٹ انتظامیہ ہے، پولیس ہے، دیگر محکمے موجود ہیں، لاکھوں افسر اور ملازم ہیں، یہ سارے لوگ سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں، گاڑیاں اور مراعات لے رہے ہیں، لیکن کارکردگی……؟ حضور! ذرا اپنی اداؤں پر غور فرمائیے۔

وفاقی حکومت بھی منہ میں گھنگنیاں ڈال کر نہ بیٹھے۔آپ کو بھی اپنے حصے کی ذمے داری ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ قومی خزانے سے تنخواہیں اور سہولتیں، وفاقی حکومت، اس کے افسران و ملازمین بھی ہر مہینے لیتے ہیں۔جاتے جاتے ڈاکٹر کلیم عاجز کا یہ شعر پڑھیے اورسر دھنیے۔

 ہم کو جو بھی ملا ہے، وہ تمہیں سے تو ملا ہے

ہم اور بھلادیں تمہیں، کیا بات کرو ہو

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اینڈ کیٹل شو کا کاروبار جاتے ہیں ہوتے ہیں نہیں ہے کے خلاف ہوتا ہے اور ان کے لیے

پڑھیں:

جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟

عطاء اللہ ذکی ابڑو

آپ شرابی کے ساتھ چند منٹ گزاریں آپ محسوس کریں گے کہ زندگی بہت آسان ہے ، فقیروں، سادھوؤں یا سنیاسی بابوں کے پاس چلے جائیں ،آپ کو اپنا سب کچھ کسی کو تحفے میں دینے کی خواہش جاگے گی؟ کسی لیڈر سے مل لیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ نے اتنا کچھ پڑھ کرابتک جھک ہی ماری ہے ؟ لائف انشورنس ایجنٹ کے سامنے چند منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ مرنا کتنا سود مند ہے ؟ تاجروں کی سنیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کی کمائی آٹے میں نمک کے برابر ہے ؟ سائنسدانوں کی تحقیق دیکھیں گے تو آپ کو اپنی لاعلمی کا احساس ہوگا؟ ایک اچھے استاد سے ملیں گے تو آپ کو دوبارہ طالب علمی کا شوق جاگے گا ؟ غرض کہ آپ جیسی عینک پہنیں گے ویسا ہی آپ کو دکھائی دینے لگے گا ؟ وقت کا یہی تقاضا جو اس واقعے پر بھی پورا اترتا ہے ؟جسے آج آپ کے سامنے پیش کرنے جارہا ہوں ۔یہ واقعہ کوئٹہ کے نواحی گاوں ڈیگاری میں جون کے مہینہ میں پیش آیا، 37 سالہ خانو بی بی اور احسان اللہ نامی لڑکے کی سوشل میڈیا پر ایک جرگہ کے ہاتھوں قتل کی وڈیو وائرل ہوتے ہی ٹی وی پرچند ٹکرز چلے ، خبر گرم ہوئی اورہم نے اسے حقیقت مان کر بنا کچھ سوچے ،سمجھے اس واقعہ کو اپنے اپنے نظریہ سے پرکھنا شروع کردیا کسی نے اس ادھوری کہانی کا پورا سچ جاننے کی جستجو ہی نہیں کی؟ کہتے ہیں آدھا سچ پورے وجود کو برباد کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح اس واقعے کا بھی پورا سچ سامنے آنا ابھی باقی ہے ؟ تن تنہا بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں کے بیچ کھڑی نہتی لڑکی اورصرف اس کا آشنا ہی جرگے والوں کی بندوقوں کا نشانہ نہیں تھے دونوں کے قتل کی خبرسننے کے لیے اس کے پیچھے دو قبائل بانو اوراحسان اللہ کی موت کے منتظرتھے۔ اب یہ صرف ایک اکیلی خانو بی بی کی زندگی کا سوال نہیں تھا۔ اس کے پیچھے دونوں قبائل کے لوگوں کی زندگی داؤ پرلگی تھی اس لیے خانو نے ہنسی خوشی بندوق کی گولی سینے سے لگانے کو اپنے لیے تمغہ سمجھا اوراسے گلے لگاکر اپنے قبیلے کے کئی پیاروں کی زندگی بچالی ۔جی ہاں اس کڑی دھوپ تلے تپتے صحرا میں اکیلی خانو بی بی نہیں کھڑی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں،بھائی، بہن،ماں اورباپ سمیت خاندان کے ایک ایک فرد کا چہرہ سامنے تھا جن کا قرض چکانے اپنے گھر کی دہلیز سے اس صحرا تک آئی تھی ؟ اورہاں شاید یہ اس کے عشق کا امتحان تھا ؟ وہ پہلے سے اپنے عقد میں ایک شوہراورکئی بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کراحسان کے ساتھ آئی تھی ؟ خانو پریہ بھی الزام تھا کہ وہ تین ماہ سے اپنے عاشق احسان اللہ کے ساتھ بغیر کسی نکاح کے یعنی کسی بھی ازدواجی تعلق کے بغیر شریعت کے حکم کی نفی کرتے ہوئے دن، رات بسرکررہی تھی ۔خانو اپنے اس عشق کے امتحان میں تو پوری اتر گئی مگر اپنے پیچھے اپنے مجازی خدا،پھول سے کھیلتے پانچ بچوں،ماں، باپ، بہن ،بھائی اوراپنے عاشق کی پہلی بیوی جس سے چار بچے بھی ہیں ۔اس کے قبیلے والوں کو بھی ساری زندگی کے لیے کڑے امتحان میں ڈال گئی؟
خانو نے جرگہ کا فیصلہ تو سنا تھا مگر لگتا ہے وہ آج بھی اپنے دل کے فیصلے پراٹل تھی؟ کیونکہ خانو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بندوق اٹھائے جرگہ کے کارندوں کو للکارا اورانہیں اپنی زبان میں کہا کہ ( صرسم ائنا اجازت اے نمے ) تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ؟ یعنی وہ کہہ رہی تھی کہ خبردار یہ جسم اب اس کے محبوب کی امانت ہے بعد مرنے کے اس کی بے حرمتی نہ کرنا؟ ڈیگاری کے صحرا میں خانو پر بندوقیں تانے کھڑے جرگہ کے کارندے 37سالہ خانو کو موت کے گھاٹ اتارنے کا یہ اقدام نہ اٹھاتے تو پیچھے احسان اللہ کا قبیلہ خانو بی بی کے پورے قبیلے کو موت کی گھاٹ اتارنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا تھا؟ یہی وجہ تھی کہ خانوکے کنبے والوں نے ایک اکیلی لڑکی کو قبیلے کی بھینٹ چڑھاکر پہ در پہ سات گولیاں چلاکرکا اسے مٹی کا ڈھیر بنادیا؟ لاش کیلئے گڑھا کھودا اورخانو کو اسی صحرا کی مٹی کے سپرد کرکے چلتے بنے؟ دونوں قبائل کے سرکش لوگ شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بات منوں مٹی تلے دفن ہوگئی؟اوردونوں قبائل نے اپنا اٹل فیصلہ سناکراپنی اپنی زندگیاں بچالیں؟ یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی؟ ان کا اصل امتحان توتب شروع ہوا جب ٹھیک ایک ماہ بعد سوشل میڈیا پران کے اپنے ہی کسی گروہ کے کارندے نے اس سبق آموزواقعے کی وڈیو کو سوشل میڈیا پراپ لوڈ کردی آناً فاناً ناک پر رومال رکھ غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کا دم بھرنے والی فلاحی تنظیمیں باہر نکل آئیں؟حکومت سمیت پورا ملک حرکت میں آگیا ۔یہ واقعہ ایک ہولناک خبربن کر سوشل میڈیا کی زینت بن چکا تھا۔ پوری دنیا میں ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی کر رہا تھا ؟فوٹیج نے دنیا میں پاکستان کے امیج اورانسانی رویوں کوخاک میں ملادیا تھا ؟ ادھرجوڈیشری بھی حرکت میں آچکی تھی اورمجسٹریٹ نے کوئٹہ واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مارے جانے والے دونوں لڑکے اور لڑکی کی قبر کشائی کا حکم دیا ۔جرگہ میں قتل کا حکم دینے والا سردار شیر ستکزئی سمیت 13 افراد آج ریمانڈ پر ہیں اور ان پر اے ٹی سی ایکٹ کے تحت ایس ایچ او ہنہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان جرگہ میں کیا جانے والا یہ پہلا فیصلہ تھا یا پھر حکومت پہلی بار اس فیصلے سے آشنا ہوئی ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
آج بھی کئی قبائلی جرگے ہوتے ہیں اور ان جرگہ کے فیصلوں کا حکومت کو بھی انتظار رہتا ہے کیونکہ یہ اس ملک کے کئی قبیلوں کا رسم رواج ہے، کسی قبیلے میں یہ عورت ونی کے نام پر بھیڑیوں کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے تو کہیں کارو اور کاری غیرت کے سوال پر ابدی نیند سلادیا جاتا ہے تو کہیں اس حوا کی بیٹی کو زمینوں کا بٹوارہ بچانے کے لیے قرآن سے شادی کرنا پڑتی ہے ؟ اور جب بات پگدار کا سربچانے کی ہو تو وہ اپنی جان بخشی کے لیے اپنی جان سے پیاری کمسن بیٹی کو کسی کے باپ پر نچھاور کرتے دیر نہیں کرتے ؟ یہی پگدار سامنے والے کواپنی بیٹیاں بطور بیوی کے پیش کرکے اپنا سر بچاتے ہیں تب ان کی عزت ؟ غیرت کہاں چلی جاتی ہے ؟ یہ وہی قبائلی نظام ہے جو فاٹا میں بھی نافذالعمل تھا ،بلوچستان کے قبائل بھی اسی پر چلتے ہیں ؟ پنجاب اور سندھ میں بھی ان قبائلی سرداروں اور بھوتاروں کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی؟ ہمارے ملک کے حکمراں اگر ان سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداوں کی نہیں سنیں گے تو پھر یہ تخت نشیں کیسے بنیں گے ؟آج بھی اس مملکت خداد میں تین الگ الگ قانون نافذ ہیں جہاں جرگہ کے فیصلے ہوتے ہیں ،وہاں حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ؟ اور جہاں حکومت اپنی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے وہاں شریعت کورٹ کا قانون ہے ؟ الغرض کوئی شخص ملکی قوانین پر عمل نہیں کرتا ؟ جب ایک ریاست کے ہوتے ہوئے ایک ہی ملک میں تین الگ الگ قانون ہوں گے تو پھر اس طرح کی لاقانونیت کو کون روک سکتا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • نام ماں کا بھی
  • کیا یہ ہے وہ پاکستان
  • کلاؤڈ برسٹ کیا ہے اور یہ معاملہ کیوں پیش آتا ہے؟
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں!
  • رائے عامہ
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کرے تو کیا کرے؟، اسد عمر
  • تیل کی قیمت نیچے لانا چاہتے ہیں، امریکا میں کاروبار نہ کھولنے والوں کو زیادہ ٹیرف دینا پڑے گا، ٹرمپ
  • ’اسلام کا دفاع‘
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟