پاکستان کا قیمتی سرمایہ ضائع کیوں ہو رہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
کسی بھی ملک اور سماج کی ترقی اور مستقبل کا دارمدار اس ملک کے نوجوانوں کو قرار دیا جاتا ہے تاہم پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو نہ صرف بیروزگاری بلکہ تعلیم کے مساوی مواقع اور مناسب طبی وسائل کی عدم فراہمی سمیت کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان کی 64فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک اپنی مکمل آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اس کثیر تعداد کے باوجود صورت حال انتہائی پریشان کن ہیں۔ خواندگی و ناخواندگی کے اعتبار سے 100 میں سے 29 نوجوان ناخواندہ ہیں۔ ناخواندہ ہونے کا مطلب جنہوں نے سرے سے تعلیم ہی حاصل نہیں کی، انہیں اپنا نام تک لکھنا یا پڑھنا نہیں آتا، جبکہ ہر 100 میں سے صرف 6 فیصدنوجوان ایسے ہیں جنہوں نے 12 سال سے زائد تعلیم حاصل کر رکھی ہے، جس میں بیچلر، ماسٹرز، ایم فل، پی ای ڈی کی سطح تک کی تعلیم شامل ہے۔ اور 100 میں سے بقیہ 65 نوجوان ایسے ہیں جن کی تعلیم 12 سال یعنی انٹر یا ایف اے، ایف ایس سی کی سطح سے نیچے ہے، جس میں پرائمری اور مڈل کی سطح تک کی تعلیم شامل ہے۔ان نوجوانوں میں سے 15 فیصد کو نیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ 52 فیصد نوجوان اپنا موبائل فون رکھتے ہیں۔ 94 فیصد کو لائبریری کی سہولت میسر نہیں اور 93 فیصد کو کھیلنے کیلئے میدان میسر نہیں۔
روزگار و معاش کے اعتبار سے 100 میں سے 39 نوجوان ملازم ہیں۔ ان 39 میں سے 7 خواتین، جب کہ 32 مرد ہیں۔ پھر ان 100 افراد میں سے 57 افراد جن میں 41 خواتین اور 16 مرد ایسے ہیں جو نہ تو نوکری کر رہے ہیں اور نا ہی نوکری کی تلاش میں ہیں، صرف 4 فیصد بے روزگار نوجوان ایسے ہیں جو ملازمت کی تلاش میں ہیں۔سی ایس ایس 2022 امتحان کیلئے 32 ہزار 59 امیدواروں نے اپلائی کیا جبکہ 20 ہزار 262 امیدواروں نے امتحان دیا، 393 امیدوار پاس ہوئے جبکہ 19869امیدوار فیل قرار پائے۔سی ایس ایس کامیابی کا تناسب 1.
ایک آدھ سال پہلے کی بات ہے وفاقی حکومت کے زیر اہتمام اسلام آباد میں کانسٹیبلز کی صرف سولہ سو آسامیوں کے لئے تقریباً ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں نے آن لائن درخواستیں دیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں ماسٹر ڈگری ہولڈرز بھی تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں بیروزگاری کی حالت کیا ہے؟۔ ان ڈیڑھ لاکھ امیدواروں کی سکروٹنی کی گئی۔ قد، چھاتی اور دوڑ کے مقابلوں میں جنہوں نے رہ جانا تھا وہ باہر رہ گئے اور28ہزار امیدوار باقی بچے جنہوں نے تحریری امتحان میں حصہ لیا۔ لیکن آسامیاں سولہ سو ہی رہیں۔
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت خصوصی تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت سے محروم ہے جس کے باعث ان میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے، ’’ہم اس وقت ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں شدید سماجی بے چینی کے علاوہ انتہائی تیزی سے معاشی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مالی وسائل میں کمی کے باعث نوجوانوں میں شدید مایوسی اور احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔ اکثر نوجوانوں کے پاس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں اور جن کے پاس ہیں وہ مناسب نوکریوں اور کاروباری مواقع کی کمی سے پریشان ہیں۔‘‘
اگر نوجوان طبقہ محفوظ و مضبوط ہے تو قوم و ملت کی حفاظت پر آنچ تک نہیں آسکتی، اور اگر اس طبقہ میں کوئی کج روی پائی جائے تو قوم و ملت کا شیرازہ درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔ نوجوان ایک بپھرے ہوئے گھوڑے کی مانند ہوتا ہے۔ اس کی لگام جب تک صحیح ہاتھوں میں نہ ہوگی یہ بے لگامی کے نشے میں تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے (۹ مئی اس کی ایک مثال ہے)۔ اسی طرح اگر نوجوانوں کے بنیادی مسائل، حقوق و ضروریات کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ معاشرے اور اقوام کی تنزلی کا باعث بھی بنتے ہیں۔جن امور کے متعلق اعدادوشمار موجود ہیں ان میں تعلیم صف اول کا درجہ رکھتی ہے۔ تعلیم نوجوانوں کا وہ بنیادی حق ہے جس سے انہیں محروم رکھنا کسی بھی معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہو گی کہ نوجوانوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو علمی ذوق و شوق سے محروم ہے، مگر اس کے علاوہ کثیر تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے حصولِ تعلیم میں آڑے آنے والے دیگر عوامل کے علاوہ دو قوی وجوہ زبان اور دام ہیں۔
انہیں علوم اپنی آشنا زبان میں میسر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوان اعلیٰ علوم و فنون میں ڈگریاں حاصل کرلینے کے باوجود بھی ملک و ملت کیلئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ اور کچھ نوجوان ایسے ہیں جو تعلیم کی قیمت ادا نہیں کرسکتے۔ سائنسی علوم کے علاوہ آرٹس کے مضامین کی فیسیں بھی آسمانوں کو چھوتی ہیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کو درپیش تعلیمی مسائل حل کرنے کیلئے وہ ماہانہ، ششماہی اور سالانہ بھاری فیسیں وصول کرنے والے اداروں کو لگام دے، اور غیرملکی زبان کو ضرورت کی حد تک محدود رکھے، تاکہ اس ملک کے کسی بھی خطے میں مقیم اور کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان علم سے محروم نہ رہیں۔
نوجوانوں کا ایک بڑا مسئلہ ان کا ذریعہ معاش ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 100 میں سے 57 افراد بے روز گار ہیں، مگر ان میں سے صرف 4 نوجوان روزگار کی تلاش میں ہیں۔ غیر تعلیم یافتہ کے علاوہ ڈگری ہولڈر نوجوانوں کی کثرت ہے جو بے روزگار ہیں اور وہ اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ اپنے ملک سے کہیں ہجرت کر جائیں۔ ہمارے ہم نام ایک سینئر سیاسی رہنما کے بقول ’’گزشتہ تین برس کے دوران جس قدر تیزی سے پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک آباد ہونے کی خاطر وطن سے ہجرت کر رہے ہیں وہ انتہائی خوفناک اور لرزہ خیز ہے اور تاریخ کے سب سے بڑے برین ڈرین کا باعث ہے۔‘ جو ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر سوچے کی ضرورت ہے۔ بلکہ اب تو ڈنکی لگا کر موت کے منہ میں جانے والوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔حکومت کی ناقص حکمت عملی اور پالیسیوں نے نوجوان کو بہر حال مایوس کر رکھا ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: نوجوان ایسے ہیں کی تلاش میں ہیں نوجوانوں کی کے علاوہ جنہوں نے ہیں اور کسی بھی نہیں ا
پڑھیں:
جو کام حکومت نہ کر سکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-8
آصف محمود
کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے
ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)