2024 میں قتل کیے گئے 70 فیصد صحافیوں کا ذمہ دار اسرائیل ہے، سی پی جے
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سی پی جے نے ایک بیان میں کہا کہ 2024 میں 18 ممالک میں کم از کم 124 صحافی قتل کیے گئے۔ اسلام ٹائمز۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں صحافیوں کو قتل کیا گیا، اور تقریباً 70 فیصد ہلاکتوں کا ذمہ دار غاصب صیہونی ریاست اسرائیل ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سی پی جے نے ایک بیان میں کہا کہ 2024 میں 18 ممالک میں کم از کم 124 صحافی قتل کیے گئے، جو 3 دہائیوں سے زیادہ عرصہ قبل کمیٹی کی جانب سے اعداد و شمار ریکارڈ کرنے کے آغاز کے بعد سے رپورٹروں اور میڈیا کارکنوں کے لیے سب سے مہلک سال تھا۔ سی پی جے کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور غزہ کے تنازع میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 85 صحافی قتل ہو چکے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے واقعات کی تحقیقات کو روکنے، صحافیوں پر الزام عائد کرنے اور ہلاکتوں کے لیے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے اپنے فرض کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے بارے میں کافی معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور اس لیے وہ ان کی جانچ پڑتال کرنے کے قابل نہیں ہے۔ حالیہ برسوں کے مقابلے میں 2024 میں ہلاک ہونے والے صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، 2023 میں 102 اور 2022 میں 69 صحافی ہلاک ہوئے تھے۔ سی پی جے کے سی ای او جوڈی گنسبرگ نے کہا کہ سوڈان اور پاکستان میں گزشتہ سال قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد دوسرے نمبر پر تھی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سی پی جے
پڑھیں:
غزہ جنگبندی کے مذاکرات میں 3 اہم رکاوٹیں موجود ہیں، ترکیہ
اپنے ایک انٹرویو میں ھاکان فیدان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی انٹیلیجنس اہلکار مختلف ممالک کا دورہ کر کے دنیا کو بڑی تعداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ "هاکان فیدان" نے NTV کو انٹرویو دیتے ہوئے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات کی تازہ صورتحال پر بات کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کے دوران تین اہم معاملات پر گفتگو رک گئی ہے۔ کیونکہ حماس چاہتی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اقوام متحدہ کے ذریعے انسانی امداد تقسیم کی جائے لیکن اسرائیل اس بات پر راضی نہیں۔ ایک اور اختلافی نکتہ، اسرائیلی فوج کے غزہ پٹی سے کب اور کیسے پیچھے ہٹنے کے معاملے پر ہے۔ ھاکان فیدان کے مطابق، حماس یہ بھی چاہتی ہے کہ اسرائیل تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد بھی جنگ بندی پر عمل کرنے کا تحریری عہد کرے، لیکن تل ابیب نے اب تک اس شرط کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے غزہ میں انسانی المیے کی شدت پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے نہ صرف غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا بلکہ وہ وہاں کی آبادی کو بھوک سے مار رہا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کے بغیر غزہ نامی منصوبے پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکار مختلف ممالک کا دورہ کر کے دنیا کو بڑی تعداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس کے خلاف ہیں اور متعلقہ ممالک کو خبردار کر چکے ہیں۔