ہمیں اپنا قانون دیکھناہے، برطانیہ کانہیں، آپ وقت ضائع کر رہے ہیں، جسٹس امین کا سلمان اکرم سے مکالمہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے وکیل سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کیا ہے کہ ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے برطانیہ کا نہیں، یہ غیرضروری بحث ہے، آپ وقت ضائع کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بنچ کی جانب سے بھارت میں کورٹ مارشل کیخلاف اپیل کا حق دینے کا سوال ہوا تھا، برطانیہ میں کورٹ مارشل فوجی افسر نہیں بلکہ ہائی کورٹ طرز پر تعینات ہونے والے ججز کرتے ہیں، کمانڈنگ افسر صرف سنجیدہ نوعیت کا کیس ہونے پر مقدمہ آزاد فورم کو ریفر کر سکتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے برطانیہ کا نہیں، یہ غیرضروری بحث ہے آپ وقت ضائع کر رہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زیر سماعت اپیلوں میں کالعدم شدہ دفعات بحالی کی استدعا کی گئی ہے، قانون کی شقوں کا جائزہ لینا ہے تو عالمی قوانین کوبھی دیکھنا ہوگا، سلمان اکرم راجہ صاحب اگر دفعات کالعدم نہ ہوتیں تب آپ کے دلائل غیرمتعلقہ ہوسکتے تھے اب نہیں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیس میں اصل سوال ہے کہ موجودہ نظام کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل ہوسکتا یا نہیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت میں بھی ممکن نہیں،
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ برطانوی قانون تو وہاں کی فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہے،
موجودہ کیس میں تو جرم عام شہریوں نے کیا، وہ اس پر کیسے اپلائی ہو سکتا؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ برطانوی قانون کی مثال ٹرائل کے آزاد اور شفاف ہونے کے تناظر میں دی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سلمان اکرم راجہ کورٹ مارشل نے کہا کہ
پڑھیں:
سپریم کورٹ کا 24سال بعد فیصلہ، ہائیکورٹ کا حکم برقرار،پنشن کے خلاف اپیل مسترد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی:۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے ڈاکٹر کے رضاکارانہ استعفے پر پنشن کیس کا 24 سال بعد فیصلہ کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا حکم برقرار رکھاہے اور پنشن کے خلاف اپیل مسترد کردی۔
دوران سماعت وکیل نے کہاکہ ڈاکٹر نے میڈیکل مسائل کی بنیاد پر استعفیٰ دیا تھا، عدالت نے کہاکہ ایک شخص نے 18 سال سروس دی، بیمار ہوگیا تو آپ چاہتے ہیں بھوکا مر جائے؟
جسٹس حسن اظہر نے کہاکہ ڈاکٹر کی عمر 73 برس ہو گئی، 18برس کام کیا، پنشن بھی نہیں دے رہے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اب اس عمر میں زبردستی نوکری کروائیں گےَ؟
جسٹس شاہد وحید نے کہاکہ میڈیکل گراﺅنڈ پر استعفیٰ جبری ریٹائرمنٹ نہیں ہوتا، جبری ریٹائرمنٹ سزا ہوتی ہے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ایک روپیہ بھی نہ ملے؟ عدالت نے ہائیکورٹ کا حکم برقرار رکھتے ہوئے پنشن کے خلاف اپیل مسترد کردی۔