اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 فروری ۔2025 )سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے نو مئی کے واقعات میں سزا یافتہ مجرم کے وکیل سے کہا کہ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں نو مئی کا جرم سرزد ہوا ہے؟ نو مئی کو حد کردی گئی اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے ہیں.

(جاری ہے)

سلمان اکرم راجہ نے بینچ کے اس سوال پر عدالت سے کہا کہ جی جی میں اس پر عدالت کو بتاتا ہوں آرٹیکل 184/3 کو محدود نہیں کیا جا سکتا ملزمان کا آزاد عدالت اور فئیر ٹرائل کا حق ہے آئینی عدالت کے سات رکنی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سولینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی بینچ میں دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں.

نو مئی کے مجرم کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل پر آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے کہا کہ ’فیئر ٹرائل کے لیے آپ کو آرٹیکل آٹھ تین سے نکلنا ہو گاسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی سے متعلق قانون سازی 2015 اور پھر 2017 میں ہوئی تھی اے پی ایس والے آج بھی انصاف کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں جسٹس افغان نے ریمارکس دیے میرا اشارہ آرمی چیف کی توسیع کی قانون کی طرف تھا جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقع پر کہا کہ آرمی پبلک سکول کے کچھ مجرمان کو پھانسی ہو گئی تھی.

جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے کہ فوج میں ایک انجینئرنگ کور ہوتی ہے فوج میں ایک میڈیکل کور بھی ہوتی ہے دونوں کور میں ماہر انجینئر اور ڈاکٹرز ہوتے ہیں کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسلح افواج کی جیگ برانچ ہے جسٹس امین الدین خان نے اس موقع پر کہا کہ یہ تو قانون سازوں کا کام ہے ایک جرم سرزد ہوا تو سزا ایک ہو گی یہ کیسے ہوگا ایک ملٹری ٹرائل ہو دوسرا ملزم اس سے الگ کر دیا جائے؟.

سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزام لگا کر فئیر ٹرائل سے محروم کر دینا یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے مجھے خود ایک بہت بڑا کریمنل بنا دیا گیا ہے مجھ پر رینجرز اہلکاروں کے قتل کی عمران خان کے ساتھ سازش کا الزام ہے اگر قانون کی شقیں بحال ہوتی ہیں تو مجھے ایک کرنل کے سامنے پیش ہونا پڑے گا . جسٹس محمد علی مظہر نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ آپ کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی دفعات لگی ہوں گی جسٹس امین نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ آپ کی ملٹری کسٹڈی مانگ گئی ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے جواباً کہا کہ میرے کیس کو چھوڑیں نظام یہ ہے الزام لگا کر ملٹری ٹرائل کی طرف لے جاﺅ .

جسٹس محمد علی مظہر نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ایسا نہیں ہے کسی کو پکڑ کر ملٹری ٹرائل کریں گے عام ایف آئی آر میں بھی محض الزام پر ملزم کو پکڑا جاتا ہے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا پرانا قانون صرف جاسوسی کے خلاف تھا آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم سے نئے جرائم شامل کیے گئے ہیں. سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بنچ کی جانب سے انڈیا میں کورٹ مارشل کے خلاف اپیل کا حق دینے کا سوال ہوا تھا برطانیہ میں کورٹ مارشل فوجی افسر نہیں بلکہ ہائی کورٹ طرز پر تعینات ہونے والے ججز کرتے ہیں کمانڈنگ افسر صرف سنجیدہ نوعیت کا کیس ہونے پر مقدمہ آزاد فورم کو ریفر کر سکتا ہے جسٹس امین الدین خان نے جواباً کہا کہ ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے برطانیہ کا نہیں.

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیس میں اصل سوال ہے کہ موجودہ نظام کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل ہوسکتا یا نہیں سلمان اکرم راجہ نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت میں بھی ممکن نہیں جسٹس مسرت ہلالی نے سلمان اکرم راجہ سے کہا جب 21ویں آئینی ترمیم ہوئی تو اس وقت آپ کی پارٹی نے ملٹری کورٹس کے قیام کی حمایت کی تھی چلیں یوں کہہ دیتی ہوں ایک سیاسی جماعت نے بھی 21 ویں ترمیم کے تحت ملٹری کورٹس کی حمایت کی.

سلمان اکرم راجہ نے جواب دیاکہ میں کسی سیاسی جماعت کی یہاں نمائندگی نہیں کر رہا اس وقت انہوں نے غلط کیا تھا جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا بات ہوئی اب اپوزیشن میں آ کر کہہ دیں اس وقت جو ہوا غلط تھا جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکیسویں آئین ترمیم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں ترمیم میں ایک چیز اچھی تھی کہ سیاسی جماعتوں پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا.

سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوتے کہاکہ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو شق شامل کی جا رہی ہے اس کا مستقبل میں کیا اثر پڑ سکتا ہے ایک شق کی وجہ سے سویلینز کو فوجی عدالتوں میں لے جایا جا رہا ہے پورا فریم ورک 1962 کے آئین سے مختلف ہو چکا ہے 1962 اور 1973 کے آئین کے بعد آج کل حالات بہت مختلف ہیں غداری سے بڑا جرم کوئی نہیں ہم آرٹیکل چھ میں بھی یہ نہیں کہتے کہ اپیل کا حق نہیں ہے غداری کے مقدمے میں بھی ہائیکورٹ کے تین ججز فیصلہ کرتے ہیں جسٹس جمال خان مندوخیل نے دلائل سن کر کہا ’اس کا مطلب یہ ہے کہ قصور سسٹم کا ہے عدالت نے کیس کی سماعت مزید دلائل کے لیے 18 فروری تک ملتوی کر دی.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے سلمان اکرم راجہ سے سلمان اکرم راجہ نے جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس امین الدین کورٹ مارشل مندوخیل نے جسٹس جمال نے کہا کہ سے کہا کہ ہیں جسٹس میں بھی

پڑھیں:

سپریم کورٹ: ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا، جسٹس ہاشم کاکڑ کے ذومعنی ریمارکس

 فیصل آباد کی ایک ٹرائل کورٹ کی جانب سے پولیس افسر کے خلاف دی گئی آبزرویشنز کے معاملے کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران کمرۂ عدالت ہلکے پھلکے مکالموں سے گونج اٹھا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ اور ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈکوارٹر ملک جمیل ظفر کے درمیان دلچسپ تبادلۂ خیال پر عدالت میں قہقہے لگے۔

سماعت کے دوران ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈکوارٹر کے ہمراہ موجود وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ فیصل آباد کی ٹرائل کورٹ میں ایک فوجداری مقدمہ زیرِ سماعت تھا، جہاں عدالت نے گواہوں کی حاضری یقینی بنانے کا حکم جاری کیا۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کو وراثت سے محروم کرنا اسلام کے خلاف ہے، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

ان کے مطابق اُس وقت درخواست گزار ایس پی کے عہدے پر تعینات تھے اور ٹرائل کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان کے خلاف آبزرویشنز دی تھیں۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ صرف لوگوں کو جیل میں ڈالنا کافی نہیں، عدالتوں میں گواہوں کو پیش بھی کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج خود جا کر گواہ نہیں لا سکتے۔

اسی دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے مسکراتے ہوئے شاہ خاور سے دریافت کیا کہ یہ جو آپ کے ساتھ پولیس آفیسر کھڑے ہیں، کیا یہی ڈی آئی جی ہیں۔

مزید پڑھیں:

جواب میں شاہ خاور نے بتایا کہ جی مائی لارڈ، یہی ہیں۔

جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ یہ دیکھیں یہ یہاں کھڑے ہمیں ڈرا رہے ہیں۔

انہوں نے ڈی آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا۔

ان ریمارکس پر کمرۂ عدالت میں ایک بار پھر قہقہے گونج اٹھے۔

مزید پڑھیں:جسٹس منصور شاہ جج نہیں رہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن

بعد ازاں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ٹرائل کورٹ کی آبزرویشنز کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے چیمبر میں فیصلہ سناتے ہوئے ان آبزرویشنز کو برقرار رکھا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اپیل بحال کردی۔

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ہائیکورٹ نے انہیں سنے بغیر فیصلہ دیا۔

سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ لاہور ہائیکورٹ معاملے کو میرٹس پر 2 ماہ کے اندر سن کر فیصلہ کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد پولیس ٹرائل کورٹ جسٹس ہاشم کاکڑ ڈی آئی جی سپریم کورٹ لاہور ہائیکورٹ

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں ترمیم بنیادی حقوق پر ڈرون حملہ، جمعہ کو یوم سیاہ منانے کا اعلان
  • ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا، جسٹس ہاشم کاکڑ
  • عمران خان سے ملاقات میں رکاوٹ، سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی
  • ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا: جسٹس ہاشم کاکڑ
  • سپریم کورٹ: ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا، جسٹس ہاشم کاکڑ کے ذومعنی ریمارکس
  • ملک میں شرافت‘ آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے‘ سلمان اکرم راجا
  • آج اس ملک میں شرافت، آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ، سلمان اکرم راجا
  • آج اس ملک میں شرافت، آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے:سلمان اکرم راجا
  • آج اس ملک میں شرافت، آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے، سلمان اکرم راجا
  • پاکستان کا آئین مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کی مکمل ضمانت دیتا ہے: صدرِ مملکت