اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 فروری 2025ء) کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے چند سالوں میں روایتی کلاس، روایتی استاد اور روایتی امتحانات سمیت بہت کچھ بدلنے جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سید اصغر زیدی نے بتایا کہ وہ آج کل یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی میں مختلف مضامین کے لیے کسٹمائزڈ چیٹ جی پی ٹی ٹولز تیار کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔

ان کے بقول اس سے طالبعلم اپنے کورس کے مطابق استاد کا لیکچر، اس سے متعلقہ سوالات کے جوابات اور اس مضمون کے حوالے سے دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں کی سفارش کردہ کتابوں کا مواد انگریزی اردو پنجابی یا سرائیکی سمیت مختلف زبانوں میں حاصل کر سکیں گے۔

(جاری ہے)

یوں ان کا وقت بھی بچے گا اور انہیں زیادہ معلومات بھی میسر ہوں گی۔ اب کلاس میں پیچھے رہ جانے والے کمزور طالب علم بھی اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو بہتر کر سکیں گے۔

یہ صورتحال روایتی کتاب، کلاس روم اور استاد کے رول کو تبدیل کر دے گی اور آنے والے دور میں استاد کا کام طلبہ کی نگرانی و رہنمائی کرنا، ان کی ابلاغی اور تجزیاتی مہارتوں میں اضافہ کرنا اور اس کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر زیدی کے بقول اے آئی ٹولز کی مدد سے اب طلبہ کے لیے ایسا تعلیمی مواد تیار کیا جا سکتا ہے جو ان کی ذہنی سطح اور سیکھنے کی رفتار کے مطابق ہو۔

ان کے مطابق مشین لرننگ الگورتھمز طلبہ کے رجحانات اور کمزوریوں کو پہچان کر انہیں مخصوص اسباق تجویز کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''اب چیٹ بوٹس اور ورچوئل ٹیچرز طلبہ کے سوالات کا فوری جواب دے سکتے ہیں، جبکہ خودکار تشخیصی نظام اسائنمنٹس کی جانچ کو آسان بنا رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی سسٹمز کی مدد سے امتحانی بدعنوانیوں کا خاتمہ ہو گا اور آن لائن امتحانات کی نگرانی کی جا سکے گی اور خودکار گریڈنگ سسٹمز اساتذہ کا کام کم کر سکتے ہیں۔

‘‘

اے آئی کے ذریعے ٹرانس جینڈر کے حوالے سے رویے کو بدلا جا سکتا ہے؟

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے پاکستان کے تعلیمی شعبے میں بہتری لانے کی بہت گنجائش موجود ہے لیکن لگتا ہے کہ اس ضمن میں ابھی سرکاری حلقوں میں اس کا درست اور پورا ادراک موجود نہیں ہے۔

پاکستان میں نسٹ، لمز اور فاسٹ سمیت کئی یونیورسٹیوں میں اے آئی ٹولز کے تعلیمی استعمال کے حوالے سے سنجیدہ سوچ بچار جاری ہے۔

فاسٹ یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر مرزا مبشر بیگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان اور دنیا کے دیگر ملکوں میں ابھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو مختلف پراجیکٹس میں تجرباتی طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول اے آئی پاکستان کے تعلیمی شعبے کو بہتر بنانے میں بہت مدد دے سکتی ہے۔ اس کی مدد سے اسمارٹ کلاس رومز بنائے جا سکتے ہیں اور اس کے علاوہ تدریس و امتحانات کا خودکار نظام بھی بنایا جا سکتا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ سائیکالوجی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رافعیہ رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مصنوعی ذہانت طلبہ اور محققین کے لیے ڈیٹا کے تجزیہ کو آسان بنا سکتی ہے۔ اے آئی ٹولز پر مبنی سافٹ ویئرز تحقیقی مقالوں کی تیاری اور ان کے تجزیے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت سے تعلیمی انقلاب لانے کا یہ سفر اتنا آسان بھی نہیں ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر سرکاری تعلیمی اداروں میں انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی تک طلبہ اور اساتذہ کو میسر نہیں ہے۔

تعلیمی ڈیٹا کے تحفظ کے لیے مضبوط پالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ اور اساتذہ کی معلومات محفوظ رہیں۔

لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر شبانہ اصغر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اے آئی سے درست طریقے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کے تمام اسٹیک ہولڈرز، استاد، طالب علم ، محقق اور تعلیمی پالیسیاں بنانے والوں کو اس ضمن میں پوری طرح آگاہی ہو وگرنہ اس کے بلا سوچے سمجھے استعمال کے نتائج برے بھی ہو سکتے ہیں۔

پاکستان: مصنوعی ذہانت(اے آئی) پالیسی جلد نافذ کرنے کا اعلان

فاسٹ کے استاد ڈاکٹر مبشر بیگ کا کہنا ہے کہ اے آئی کے دیانت دارانہ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے کچھ اصول و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہ ہو سکا تو اس کے منفی استعمال، فیک اسائن منٹس کی تیاری، سرقے اور نقل کا خدشہ رہے گا۔ ڈاکٹر رافعیہ رفیق کی رائے میں حکومت پاکستان کو مصنوعی ذہانت کے مؤثر اور ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی بنانی چاہیے۔

سنٹر فار ساؤتھ ایشین اسٹیڈیز جامعہ پنجاب کی اسسٹنٹ پروفیسر مریم نقوی نے بتایا کہ ابھی پاکستان کے تعلیمی شعبے میں اے آئی کا استعمال زیادہ نہیں ہو رہا ہے۔ طلبہ اسے انفرادی طور پر استعمال کر رہے ہیں یا کچھ نجی یونیورسٹیاں اس پر کام کر رہی ہیں ان کے بقول، ''لاہور کینٹ میں واقع ایک نجی یونیورسٹی نے تو اے آئی کو بطور مضمون بھی متعارف کروا دیا ہے۔

لیکن ابھی دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کس طرح کی پالیسی سامنے لاتی ہے۔‘‘

لائبہ غفار نامی ایک طالبہ نے بتایا کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز کی مدد سے بہت کم وقت میں ڈیٹا مل جاتا ہے۔ خاص طور پر لٹریچر ریویو میں بہت مدد ملتی ہے لیکن اس پر زیادہ انحصار بہت خطر ناک ہو سکتا ہے۔ یہ بہت غلط ہوگا کہ بچے بغیر اپنا ذہن استعمال کیے پورا تھیسز لکھ لیں اور ان کے علم میں کوئی خاص اضافہ نہ ہو۔

ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن: پاکستان تیزی سے بدلتے دس ممالک میں سے ایک، نئی رپورٹ

زاہد سلیم نامی ایک طالبعلم نے بتایا کہ اے آئی جتنی بھی مفید ہو اس سے پاکستان میں بہتری آنے کے امکانات اس لیے کم ہیں کہ یہاں حکومت مخالفین کو دبانے کے لیے انٹرنیٹ سروسز بند کر دیتی ہے اور سوشل میڈیا سائیٹس پر پابندی لگ جاتی ہے۔ زاہد کہتے ہیں، ''ہمیں ڈر ہے کہ حکومت کو کسی نے غلط بریفنگ دے دی تو اے آئی اور چیٹ جی پی ٹی بھی یہاں بین ہو سکتی ہیں۔‘‘

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مصنوعی ذہانت نے بتایا کہ کے تعلیمی کی مدد سے ڈی ڈبلیو سکتے ہیں سکتا ہے کے بقول میں بہت اے ا ئی کے لیے اور اس

پڑھیں:

مستقبل کی بیماریوں کی پیشگی شناخت کے لیے نیا اے آئی ماڈل تیار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بین الاقوامی سائنسدانوں نے ایک ایسا جدید مصنوعی ذہانت (AI) ماڈل تیار کیا ہے جو مریضوں کی میڈیکل ہسٹری کی بنیاد پر مستقبل میں لاحق ہونے والی بیماریوں کا برسوں پہلے اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس ماڈل کو **ڈلفی-2M** کا نام دیا گیا ہے، اور یہ ایک ہزار سے زائد امراض کے امکانات کی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ تحقیق برطانیہ، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نے مشترکہ طور پر مکمل کی اور اسے معروف سائنسی جریدے **نیچر** میں شائع کیا۔ ماہرین کے مطابق ڈلفی-2M کو برطانیہ کے **یوکے بایو بینک** کے وسیع بایومیڈیکل ڈیٹا پر تربیت دی گئی۔ یہ ماڈل نیورل نیٹ ورکس اور ٹرانسفارمر ٹیکنالوجی پر مبنی ہے، جو وہی نظام ہے جس پر چیٹ جی پی ٹی اور دیگر جدید زبان سیکھنے والے چیٹ بوٹس کام کرتے ہیں۔

جرمنی کے کینسر ریسرچ سینٹر کے مصنوعی ذہانت کے ماہر مورٹز گرسٹنگ نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیماریوں کے ارتقائی عمل کو سمجھنا بالکل ایسے ہے جیسے کسی زبان کی گرائمر سیکھنا۔ ان کے مطابق ڈلفی-2M مریضوں کے ڈیٹا میں موجود پیٹرنز کو سیکھتا ہے اور اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کون سی بیماری کب اور کس دوسری بیماری کے ساتھ ظاہر ہوسکتی ہے۔ اس طریقۂ کار سے ماڈل انتہائی درست اور بامعنی پیش گوئیاں کرنے کے قابل ہوتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ جدید ماڈل مستقبل میں طبی میدان میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے ذریعے ڈاکٹرز اور ماہرین قبل از وقت بیماریوں کے خطرات کا اندازہ لگا کر بروقت علاج یا حفاظتی اقدامات کرسکیں گے۔ محققین کے نزدیک ڈلفی-2M دراصل صحت کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کی وسعت اور صلاحیتوں کا ایک نمایاں مظاہرہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مستقبل کی بیماریوں کی پیشگی شناخت کے لیے نیا اے آئی ماڈل تیار
  • علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کی ملتان میں استاد العلماء علامہ سید محمد تقی نقوی سے اہم ملاقات
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا آزاد کشمیر کے مختلف تعلیمی اداروں کا دورہ، طلبہ، اساتذہ کیساتھ گفتگو
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ خصوصی نشست
  • ڈیجیٹل یوتھ ہب نوجوانوں کومصنوعی ذہانت پر مبنی وسائل تک ذاتی رسائی فراہم کرے گا، چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام سے یونیسف کی نمائندہ کی ملاقات
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ نشست
  • اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
  • پاکستان کا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں ، جام کمال خان
  • خیبرپختونخوا: محکمہ تعلیم کے ملازمین کی تعلیمی چھٹی کا غلط استعمال بے نقاب
  • گلبرگ ٹائون :اساتذہ کی ٹریننگ اور طلبہ کیلیے پی بی ایل پروگرام کا آغاز