افغان پناہ گزینوں کے لیے پاکستان میں مشکلات کیوں بڑھ گئیں؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی جانب سے پناہ گزینوں کی دوبارہ امریکا میں آبادکاری کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس وقت افغان باشندے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے 205 افغان ملک بدر، دیگر کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن
صرف یہی نہیں بلکہ اب پاکستانی حکومت کی جانب سے بھی یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کو 3 مراحل میں ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔ پہلا مرحلے میں غیر دستاویزی مہاجرین شامل ہوں گے، دوسرے میں اے سی سی کارڈ رکھنے والے افغان شہری جبکہ تیسرے مرحلے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے جاری کردہ پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے مہاجرین شامل ہوں گے۔ پاکستان کی جانب سے اس فیصلے کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان معاشی اعتبار سے یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔
لیکن اس حوالے سے افغان مہاجرین کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے 31 مارچ تک کی مہلت دی گئی ہے اور وہ توقع کر رہے ہیں کہ اس وقت تک امریکا کی طرف سے ان کے لیے کوئی مثبت جواب سامنے آجائے گا۔
مزید پڑھیے: افغانستان: اربوں ڈالر امداد کے باوجود خواتین سمیت 4 کروڑ افراد سنگین صورتحال کا شکار، رپورٹ
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس فیصلے سے اسے عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
افغان باشندوں کی مشکلات اور دیگر امور پر گہری نظر رکھنے والی صحافی شمیم شاہد نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک امریکا نے افغانستان کے بارے میں خصوصی طور پر کسی خاص پالیسی کو واضح نہیں کیا ہے البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد غیر قانونی طور پر یا سرحدی گزرگاہوں سے آنے والوں کو اپنے اپنے وطن واپس بھجوانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
شمیم شاہد نے کہا کہ اس اعلان پر کسی نہ کسی حد تک عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے لیکن افغانستان سے امریکا پہنچنے والے زیادہ تر افغان باشندے قانونی طریقوں سے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی حکومت کو عالمی سطح پر تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس کی اصل وجہ طالبان کے افغان عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور معاشی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دی گئی ہے جبکہ دوسری طرف طالبان سیاسی انتقام کے تحت مخالفین کو گرفتار کررہے ہیں اور بہت سوں کو جبری طور پر گمشدہ کرکے ماورائے قانون قتل بھی کرچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں پھنسے افغان مہاجرین کی کہانی، ’امریکا نے پالیسی نہ بدلی تو کہیں کے نہیں رہیں گے‘
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس بار حکومت پاکستان نے 31 مارچ تک افغان باشندوں کو نکلنے کا کہہ دیا ہے مگر ان کی پکڑ دھکڑ ابھی سے ہی جاری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں روزانہ افغان باشندوں بشمول خواتین اور بچوں کو گرفتار کرکے تھانوں اور جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے اور ان کو بعد میں طورخم کے راستے زبردستی افغانستان بجھوایا جا رہا ہے۔
شمیم شاہد نے کہا کہ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ پاکستانی اداروں کے پاس وسائل نہیں ہیں اور گرفتار لوگوں کو کئی کئی دنوں تک قید میں رکھا جاتا ہے اور ان کو کھانے پینے کی اشیا بھاری رقوم بلکہ بھاری رشوت کی ادائیگی پرفراہم کی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنی بے عزتی پاکستان میں افغان باشندوں کی ہو رہی ہے وہ کسی اور ملک میں نہیں ہو رہی اور پاکستان کے اس ہتک آمیز رویے کی وجہ سے ہی افغانستان میں پاکستان کے حوالے سے نفرت پائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک ہے لہٰذا افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے پر اس پر انگلیاں اٹھیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین یورپی یونین اور دیگر انسانی حقوق کی تحفظ کی تنظیمیں تو پہلے سے ہی پاکستان کے اس فیصلے پر تنقید کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ حکم نامہ، پاکستان سے امریکا جانے کے منتظر ہزاروں افغانوں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا
شمیم شاہد کا کہنا تھا کہ امریکا افغانستان کے موجودہ حالات پر زیادہ دیر تک خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا کیوں کہ اس کے اس خطے میںاب بھی بہت سے مفادات ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے امریکا افغانستان سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔
’کشتیاں جلا کر آئے ہیں، وہاں ہمارا کچھ نہیں بچا‘اسلام آباد میں مقیم ایک افغان شہری نے وی نیوز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک تو امریکی امیگریشن پالیسی میں افغان مہاجرین کے حوالے سے کچھ نرمی نظر نہیں آئی ہے لیکن امیدیں اب بھی قائم ہیں کیونکہ امریکا میں امیگرنٹ حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور کانگریس کے اراکین اس کے لیے اقدامات کر رہے ہیں جس پر ہم پرامید ہیں کہ افغان مہاجرین کی مشکلات کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سے امریکا جانے کا ارادہ رکھنے والے افغان پناہ گزین کو اس وقت واحد پریشانی یہ لاحق ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے بس یہ نوبت نہ آئے کہ انہیں دوبارہ افغانستان جانا پڑے کیونکہ اب افغانستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ اپنی تمام کشتیاں جلا کر اس راستے پر نکلے تھے، افغانستان میں اب ان کے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔
افغان شہری نے امید ظاہر کی کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے دی گئی 31 مارچ کی ڈیڈلائن سے پہلے امریکا کی جانب سے کوئی اچھی خبر ضرور ملے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ فی الحال پولیس کی جانب سے انہیں کسی قسم کی کوئی بھی پریشانی نہیں پہنچی ہے مگر بہت سے لوگ مشکلات کے باعث اسلام آباد سے پشاور کی طرف بڑھ رہے ہیں کیونکہ وہ خود کو وہاں محفوظ سمجھ رہے ہیں۔
’خواتین افغانستان میں گھٹ گھٹ کر مرجائیں گی‘ہگئی احمد ذئی اس وقت پشاور میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی حکومت کی ان خبروں کے بعد ان کا دل مزید مایوس ہو چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اب ہم کہاں جائیں گے اس حوالے سے انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا صرف طالبان حکومت ہی افغان بچیوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹ ہے؟
انہوں نے کہا کہ ہم اب بھی کہیں نہ کہیں امریکا سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ امریکا افغان پناہ گزینوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان واپس جانا ہمارے لیے اب نا ممکن ہے کیونکہ وہاں خواتین گھٹ گھٹ کر مر جائیں گی۔
ہمیں کم از کم امریکا کی جانب سے حتمی فیصلے تک تو مہلت ملنی چاہیے کیونکہ امریکا روانگی کے حوالے سے ہمارے تمام تر معاملات آخری مراحل میں تھے۔
واضح رہے کہ پاکستان کا افغان مہاجرین کو 31 مارچ 2025 تک پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ اس کی ’غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے‘ کا حصہ ہے جس کا مقصد غیر دستاویزی، بشمول افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا ہے۔ یہ منصوبہ اکتوبر 2023 میں سامنے آیا تھا جس میں غیر دستاویزی افغان مہاجرین کو ملک چھوڑنے یا جلاوطنی کا سامنا کرنے کے لیے 30 دن کا الٹی میٹم دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیے: امریکا افغانستان میں دوبارہ جنگ پر غور کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان
پاکستانی حکومت نے ان کی وجہ سے قومی سلامتی کے بارے میں خدشات ظاہر کیے ہیں۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں، بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ تنظیموں نے اپنے مؤقف کے لیے دلیل دی ہے کہ اس فیصلے نے افغان مہاجرین کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی بھی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی حکومت نے افغان مہاجرین کے لیے رجسٹریشن کے ثبوت (PoR) کارڈز کی توثیق 30 جون 2025 تک بڑھا دی ہے جس سے انہیں ایک سال تک ملک میں رہنے کی اجازت ہوگی لیکن اس توسیع کا اطلاق تمام افغان مہاجرین پر نہیں ہوتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان شہری افغان مہاجرین امریکا پاکستان سے افغانیوں کا انخلا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان شہری افغان مہاجرین امریکا پاکستان سے افغانیوں کا انخلا پاکستانی حکومت کی کہ پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کو انہوں نے کہا کہ افغانستان میں افغان باشندوں ہے کہ پاکستان امریکا افغان پناہ گزینوں پاکستان میں کہنا تھا کہ افغان پناہ افغان شہری پاکستان کے پاکستان سے کی جانب سے شمیم شاہد کہ امریکا اس فیصلے حوالے سے کا افغان رہے ہیں کا کہنا یہ بھی اور ان ہے اور ہیں کہ کے لیے کی وجہ
پڑھیں:
بھارت کی مشکلات میں اضافہ، سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے نے پاکستان کو کتنا مضبوط بنادیا؟
پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ ایک باہمی دفاعی معاہدہ طے کیا ہے۔
امریکی ماہر امورِ خارجہ مائیکل کوگل مین کے مطابق یہ پیشرفت پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ سعودی عرب بھارت کا قریبی شراکت دار بھی سمجھا جاتا ہے۔
Pakistan has not only inked a new mutual defense pact, it inked it with a close ally that’s also a top partner of India’s. This pact would not deter India from attacking Pakistan. But with 3 key powers-China, Turkey & now KSA-fully on Pak’s side, Pak is in a very good place.
— Michael Kugelman (@MichaelKugelman) September 18, 2025
کوگل مین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کی جانے والی اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں اگرچہ بھارت کو پاکستان پر حملے سے باز رکھنے کا امکان کم ہے۔
کوگل مین کے مطابق پاکستان اب 3 بڑی طاقتوں, چین، ترکی اور سعودی عرب کی مکمل حمایت حاصل کرنے کے بعد ایک مضبوط سفارتی و دفاعی پوزیشن میں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب اور پاکستان کسی بھی جارح کیخلاف ہمیشہ ایک رہیں گے، سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب جیسے قریبی اتحادی کی شمولیت پاکستان کے لیے خطے میں تزویراتی اہمیت کو مزید بڑھا دے گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک تاریخی دفاعی معاہدہ طے پایا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب نے کے درمیان ہونے والے اس اہم ’تزویراتی باہمی دفاعی معاہدہ‘ کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سلامتی تعاون کو مزید گہرا کرنا اور کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کرنا ہے۔
اس معاہدے کی رو سے اگر کسی نے ایک ملک پر حملہ کیا تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ، بھارت کا ردعمل بھی سامنے آگیا
معاہدے میں فوجی شراکت، دفاعی صلاحیتوں کی ترقی اور ممکنہ دشمنوں کے خلاف مشترکہ ردعمل جیسے نکات شامل ہیں۔
یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے، خصوصاً قطر پر اسرائیلی فضائی حملوں اور فلسطین کی صورتحال کے بعد۔
The Crown Prince and Prime Minister of the Kingdom of Saudi Arabia H.R.H. Muhammad bin Salman bin Abdulaziz Al Saud and Prime Minister Muhammad Shehbaz Sharif exchange the documents of Strategic Mutual Defense Agreement (SMDA) in Riyadh.
#PakistanSaudiPartnership
(17 September… pic.twitter.com/unSTIgQx98
— Prime Minister's Office (@PakPMO) September 18, 2025
مبصرین کے مطابق سعودی عرب کی یہ پیش رفت اس کی عالمی سلامتی شراکت داریوں کو متنوع بنانے کی کوشش کا حصہ بھی ہے، کیونکہ امریکا کی بطور روایتی محافظ حیثیت پر اب کچھ حلقوں میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اگرچہ معاہدے میں نیوکلیئر ہتھیاروں کا براہِ راست ذکر نہیں کیا گیا لیکن چونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، اس لیے اس تعاون کے دائرے میں ایسے امکانات پر بھی بات ہو سکتی ہے۔
بھارت نے اس معاہدے پر محتاط ردعمل دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ علاقائی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے، تاہم اس نے واضح کیا ہے کہ یہ معاہدہ سعودی عرب کے ساتھ اس کے تعلقات میں تبدیلی نہیں لائے گا۔
پاکستان نے اس معاہدے کو دیرینہ دفاعی شراکت داری کی توسیع قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کسی خاص واقعے کا فوری ردعمل نہیں بلکہ ایک پالیسی فریم ورک ہے۔
یہ بھی پڑھیں:‘سعودی ہمارے بھائی ہیں، ہمیشہ کے لیے بھائی’، ترجمان پاک فوج کا پاک سعودی تعلقات کو خراج تحسین
دوسری جانب سعودی عرب نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بھی برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تاکہ علاقائی توازن قائم رکھا جا سکے۔
مجموعی طور پر یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو ایک نئی جہت دے رہا ہے بلکہ خطے کی سیاست اور طاقت کے توازن پر بھی گہرے اثرات ڈالنے کا امکان ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت پاک سعودی معاہدہ پاکستان پاکستان سعودی عرب کوگل مین