WE News:
2025-11-03@03:21:48 GMT

افغان پناہ گزینوں کے لیے پاکستان میں مشکلات کیوں بڑھ گئیں؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

افغان پناہ گزینوں کے لیے پاکستان میں مشکلات کیوں بڑھ گئیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی جانب سے پناہ گزینوں کی دوبارہ امریکا میں آبادکاری کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ سے اس وقت افغان باشندے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے 205 افغان ملک بدر، دیگر کو 31 مارچ  تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن

صرف یہی نہیں بلکہ اب پاکستانی حکومت کی جانب سے بھی یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کو 3 مراحل میں ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔ پہلا مرحلے میں غیر دستاویزی مہاجرین شامل ہوں گے، دوسرے میں اے سی سی کارڈ رکھنے والے افغان شہری جبکہ تیسرے مرحلے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے جاری کردہ پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے مہاجرین شامل ہوں گے۔ پاکستان کی جانب سے اس فیصلے کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان معاشی اعتبار سے یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔

لیکن اس حوالے سے افغان مہاجرین کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے 31 مارچ تک کی مہلت دی گئی ہے اور وہ توقع کر رہے ہیں کہ اس وقت تک امریکا کی طرف سے ان کے لیے کوئی مثبت جواب سامنے آجائے گا۔

مزید پڑھیے: افغانستان: اربوں ڈالر امداد کے باوجود خواتین سمیت 4 کروڑ افراد سنگین صورتحال کا شکار، رپورٹ

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس فیصلے سے اسے عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

افغان باشندوں کی مشکلات اور دیگر امور پر گہری نظر رکھنے والی صحافی شمیم شاہد نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک امریکا نے افغانستان کے بارے میں خصوصی طور پر کسی خاص پالیسی کو واضح نہیں کیا ہے البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد غیر قانونی طور پر یا سرحدی گزرگاہوں سے آنے والوں کو اپنے اپنے وطن واپس بھجوانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

شمیم شاہد نے کہا کہ اس اعلان پر کسی نہ کسی حد تک عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے لیکن افغانستان سے امریکا پہنچنے والے زیادہ تر افغان باشندے قانونی طریقوں سے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی حکومت کو عالمی سطح پر تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس کی اصل وجہ طالبان کے افغان عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور معاشی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دی گئی ہے جبکہ دوسری طرف طالبان سیاسی انتقام کے تحت مخالفین کو گرفتار کررہے ہیں اور بہت سوں کو جبری طور پر گمشدہ کرکے ماورائے قانون قتل بھی کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں پھنسے افغان مہاجرین کی کہانی، ’امریکا نے پالیسی نہ بدلی تو کہیں کے نہیں رہیں گے‘

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس بار حکومت پاکستان نے 31 مارچ تک افغان باشندوں کو نکلنے کا کہہ دیا ہے مگر ان کی پکڑ دھکڑ ابھی سے ہی جاری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں روزانہ افغان باشندوں بشمول خواتین اور بچوں کو گرفتار کرکے تھانوں اور جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے اور ان کو بعد میں طورخم کے راستے زبردستی افغانستان بجھوایا جا رہا ہے۔

شمیم شاہد نے کہا کہ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ پاکستانی اداروں کے پاس وسائل نہیں ہیں اور گرفتار لوگوں کو کئی کئی دنوں تک قید میں رکھا جاتا ہے اور ان کو کھانے پینے کی اشیا بھاری رقوم  بلکہ بھاری رشوت کی ادائیگی پرفراہم کی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنی بے عزتی پاکستان میں افغان باشندوں کی ہو رہی ہے وہ کسی اور ملک میں نہیں ہو رہی اور پاکستان کے اس ہتک آمیز رویے کی وجہ سے ہی افغانستان میں پاکستان کے حوالے سے نفرت پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک ہے لہٰذا افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے پر اس پر انگلیاں اٹھیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین یورپی یونین اور دیگر انسانی حقوق کی تحفظ کی تنظیمیں تو پہلے سے ہی پاکستان کے اس فیصلے پر تنقید کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ حکم نامہ، پاکستان سے امریکا جانے کے منتظر ہزاروں افغانوں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا

شمیم شاہد کا کہنا تھا کہ امریکا افغانستان کے موجودہ حالات پر زیادہ دیر تک خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا کیوں کہ اس کے اس خطے میںاب بھی بہت سے مفادات ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے امریکا افغانستان سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔

’کشتیاں جلا کر آئے ہیں، وہاں ہمارا کچھ نہیں بچا‘

اسلام آباد میں مقیم ایک افغان شہری نے وی نیوز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک تو امریکی امیگریشن پالیسی میں افغان مہاجرین کے حوالے سے کچھ نرمی نظر نہیں آئی ہے لیکن امیدیں اب بھی قائم ہیں کیونکہ امریکا میں امیگرنٹ حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور کانگریس کے اراکین اس کے لیے اقدامات کر رہے ہیں جس پر ہم پرامید ہیں کہ افغان مہاجرین کی مشکلات کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سے امریکا جانے کا ارادہ رکھنے والے افغان پناہ گزین کو اس وقت واحد پریشانی یہ لاحق ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے بس یہ نوبت نہ آئے کہ انہیں دوبارہ افغانستان جانا پڑے کیونکہ اب افغانستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ اپنی تمام کشتیاں جلا کر اس راستے پر نکلے تھے، افغانستان میں اب ان کے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔

افغان شہری نے امید ظاہر کی کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے دی گئی 31 مارچ کی ڈیڈلائن سے پہلے امریکا کی جانب سے کوئی اچھی خبر ضرور ملے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ فی الحال پولیس کی جانب سے انہیں کسی قسم کی کوئی بھی پریشانی نہیں پہنچی ہے مگر بہت سے لوگ مشکلات کے باعث اسلام آباد سے پشاور کی طرف بڑھ رہے ہیں کیونکہ وہ خود کو وہاں محفوظ سمجھ رہے ہیں۔

’خواتین افغانستان میں گھٹ گھٹ کر مرجائیں گی‘

ہگئی احمد ذئی اس وقت پشاور میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی حکومت کی ان خبروں کے بعد ان کا دل مزید مایوس ہو چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اب ہم کہاں جائیں گے اس حوالے سے انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا صرف طالبان حکومت ہی افغان بچیوں کی تعلیم میں بڑی رکاوٹ ہے؟

انہوں نے کہا کہ ہم اب بھی کہیں نہ کہیں امریکا سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ امریکا افغان پناہ گزینوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان واپس جانا ہمارے لیے اب نا ممکن ہے کیونکہ وہاں خواتین گھٹ گھٹ کر مر جائیں گی۔

ہمیں کم از کم امریکا کی جانب سے حتمی فیصلے تک تو مہلت ملنی چاہیے کیونکہ امریکا روانگی کے حوالے سے ہمارے تمام تر معاملات آخری مراحل میں تھے۔

واضح رہے کہ پاکستان کا افغان مہاجرین کو 31 مارچ 2025 تک پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ اس کی ’غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے‘ کا حصہ ہے جس کا مقصد غیر دستاویزی، بشمول افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا ہے۔ یہ منصوبہ اکتوبر 2023 میں سامنے آیا تھا جس میں غیر دستاویزی افغان مہاجرین کو ملک چھوڑنے یا جلاوطنی کا سامنا کرنے کے لیے 30 دن کا الٹی میٹم دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیے: امریکا افغانستان میں دوبارہ جنگ پر غور کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان

پاکستانی حکومت نے ان کی وجہ سے قومی سلامتی کے بارے میں خدشات ظاہر کیے ہیں۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں، بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ تنظیموں نے اپنے مؤقف کے لیے دلیل دی ہے کہ اس فیصلے نے افغان مہاجرین کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی بھی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی حکومت نے افغان مہاجرین کے لیے رجسٹریشن کے ثبوت (PoR) کارڈز کی توثیق 30 جون 2025 تک بڑھا دی ہے جس سے انہیں ایک سال تک ملک میں رہنے کی اجازت ہوگی لیکن اس توسیع کا اطلاق تمام افغان مہاجرین پر نہیں ہوتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغان شہری افغان مہاجرین امریکا پاکستان سے افغانیوں کا انخلا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان شہری افغان مہاجرین امریکا پاکستان سے افغانیوں کا انخلا پاکستانی حکومت کی کہ پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کو انہوں نے کہا کہ افغانستان میں افغان باشندوں ہے کہ پاکستان امریکا افغان پناہ گزینوں پاکستان میں کہنا تھا کہ افغان پناہ افغان شہری پاکستان کے پاکستان سے کی جانب سے شمیم شاہد کہ امریکا اس فیصلے حوالے سے کا افغان رہے ہیں کا کہنا یہ بھی اور ان ہے اور ہیں کہ کے لیے کی وجہ

پڑھیں:

مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!

پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد

(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)

پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔

پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔

انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔

اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔

افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی

(دفاعی تجزیہ کار)

 میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔

پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔

بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔

آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔

بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔

افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔

افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔

افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔

محمد مہدی

(ماہر امور خارجہ)

پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔

71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔

دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔

خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔

سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • خطے کے استحکام کا سوال
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • پاکستان سے اب تک 8 لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس چلے گئے
  • پاکستان سے اب تک 8لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس چلے گئے
  • پاکستان سے اب تک 8 لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس
  • افغان مہاجرین کی وطن واپسی: صرف ایک دن میں 10 ہزار افراد افغانستان روانہ
  • ایک روز کے دوران صرف چمن بارڈر سے 10 ہزار افغان مہاجرین واپس اپنے وطن روانہ
  • افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری، اب تک کتنے پناہ گزین واپس جا چکے؟
  • ٹی ٹی پی کی پشت پناہی جاری رہی تو افغانستان سے تعلقات معمول پر نہیں آسکیں گے: خواجہ آصف
  • چوروں کی طرح داخل ہونے والے پناہ گزین نہیں دہشت گرد ہیں، خواجہ آصف کا افغان وفد کے بیان پر رد عمل