صرف فروری کے مہینے میں کراچی میں ٹریفک حادثات میں 100 کے قریب لوگ جان سے گزر گئے اور 900 کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ ان ہی میں انٹر کا طالب علم حسنین تھا جو بہن کو مارشل آرٹ کا مقابلہ جیتنے کی خوشی میں کھانا کھلانے گھر سے نکلا اور لاش کی صورت میں گھر واپس آیا۔ ماں باپ کا اکلوتا تھا۔ اب ماں باپ ساری زندگی اُسے یاد کرکے ضبط کے دریا پار کرتے رہیں گے۔
سندھ حکومت نے ڈمپروں سے بھی نمٹنے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے جیسا کہ ان کا دستور ہے۔ لیکن یہ دستور بھی عوام کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں کیونکہ کمیٹی نے اوور لوڈنگ، اوور اسپیڈنگ، غیر معیاری کمرشل گاڑیوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کردیا ہے۔ اقدام اچھا ہے اگر کرپشن نہ کی جائے جو کہ ہونا مشکل ہے۔اعداد وشمار جو جاری کیے گئے ہیں اُن کے مطابق بیس گاڑیوں کو چالان جاری کیے گئے۔ کیا ان اعداد وشمار پر یقین کیا جاسکتا ہے۔ تین کروڑ کے شہر میں قانون کی خلاف ورزی پر بیس چالان… باقی چائے پانی کے نام پر کسی کی جیب میں گیا۔ قانون کے مطابق بڑی گاڑیاں، ڈمپر، ٹینکر اور کنٹینرز وغیرہ شہر میں رات 11 سے صبح 6 بجے تک ہی داخل ہونی چاہیے لیکن انہیں کون روکے…؟ بااثر افراد کے کاروبار ہیں جو پیسے کے بل پر قانون کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ تیز رفتاری ہے۔ اور تیز رفتاری عموماً جلد بازی کی وجہ سے کی جاتی ہے، جلد بازی شیطان کا کام ہے، تھوڑا دیر سے پہنچنا اس سے یقینا بہتر ہے کہ آپ قبر میں جا لیٹیں یا بستر پر۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ 30 ہزار سے زائد افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ 50 ہزار سے زائد زخمی ہوجاتے ہیں جو طبعی موت اور دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 2024ء میں اعداد وشمار کے مطابق ٹریفک حادثات میں جان سے جانے والے 57 فی صد موٹر سائیکل سوار تھے۔ اکثر کی اموات بھاری گاڑیوں کے قریب تنگ راستے سے گزرتے ہوئے حادثوں میں ہوتی ہے۔ کراچی میں 2 بڑی بندرگاہیں ہیں کراچی پورٹ اور قاسم پورٹ یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں کنٹینر اُترتے ہیں، انتظامیہ بتاتی ہے کہ صرف کراچی پورٹ پر چار جہاز روزانہ لنگر انداز ہوتے ہیں ہر جہاز میں تین ہزار دو سو سے تین ہزار چار سو تک کنٹینر ہوتے ہیں۔ ہر ایک کنٹینر کو ایک ٹرک یا ٹرالر پر رکھ کر آگے بھیجا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف کراچی پورٹ سے روزانہ بارہ سے چودہ ہزار ٹرک کنٹینر لے کر سڑکوں پر آتے ہیں اور آگے جاتے ہیں پورے ملک کو مال بھیجا جاتا ہے کیا ضروری ہے کہ ان کو بیچ شہر سے گزارا جائے؟ ان کے لیے کوئی شہر کے باہر سے گزرتی سرکلر روڈ نہیں بنائی جاسکتی جو ان کو شہر کے باہر باہر سے ہائی وے تک پہنچادے۔
لیکن یہ کیسے ہو؟ کراچی والے تو پہلے ہی سڑکوں کی تباہ حالی کا رونا روتے ہیں، شہر کی سڑکیں اکثریت ٹوٹی ہوئی ہیں اور جو نہیں ٹوٹیں انہیں بنانے کے نام پر توڑا جارہا ہے۔ بڑے بڑے گڑھے بارش کے موقع پر موت کے جال بن جاتے ہیں، سڑکوں کی توڑ پھوڑ سے اُٹھنے والی مٹی دھول گردو غبار شہریوں کو بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ پھر جگہ جگہ گڑھے اور مٹی کے ٹیلے جن سے گردن، ریڑھ کی ہڈیوں اور مہروں کی تکلیف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی سڑک یا سڑک کا ٹکڑا بن جاتا ہے اُسی وقت دیگر اداروں کو ہوش آجاتا ہے کہ ہمیں یہاں پائپ لائن یا کیبل ڈالنا تھا۔ اور پھر ان کا کام شروع ہوجاتا ہے۔
کراچی میٹرو پولیٹن شہر ہے یہاں سارے ملک سے سامان آتا جاتا ہے، لوگ آتے جاتے ہیں، یہاں کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، بہتے ہوئے گٹر، اُبلتے نالے اور کچروں کے ڈھیر سندھ حکومت کو نظر آتے ہیں نہ وفاقی حکومت کو… فائدے دونوں اٹھاتے ہیں، ان کی بلا سے لوگ ڈمپروں کے شکار ہوں یا ٹینکروں کے نیچے آئیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ٹریفک حادثات ا جاتا ہے کے مطابق
پڑھیں:
قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔
دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔
جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔
آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔
آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔
اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔
ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور 'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔
ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔