کراچی کے طلبہ کے ساتھ ناانصافی: ایک لمحہ فکر!
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
سید راشد علی ترمذی
کراچی جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اور ترقی کا مرکز ہے، آج ظلم و زیادتی کا شکار ہو چکا ہے۔ یہاں کے باسیوں، خصوصاً اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی انہیں روزگار کے مواقع سے محروم کیا جاتا ہے، تو کبھی ان کے تعلیمی حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر ہر ذی شعور شخص کو سوچنا چاہیے۔
کسی بھی قوم کی ترقی کا دارو مدار اس کے نوجوانوں کی تعلیم پر ہوتا ہے، لیکن کراچی کے طلبہ کو اس بنیادی حق سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آئے روز ایسی شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ امتحانات میں ان کے نمبروں میں دانستہ رد و بدل کیا جاتا ہے تاکہ ان کی تعلیمی کارکردگی کو کمزور ثابت کر کے انہیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے سے روکا جا سکے۔ دوسری طرف، اندرون سندھ کے طلبہ کو غیر معمولی نمبر دے کر انہیں کراچی کے پروفیشنل کالجز میں داخل کرایا جاتا ہے، جبکہ مقامی طلبہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ یہ تعلیمی نسل کشی نہیں تو اور کیا ہے؟ کراچی کے بچوں کے ساتھ یہ سلوک نہ صرف ناانصافی بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے، تاکہ ایک مخصوص طبقے کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔ یہ ناانصافی ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب دنیا بھر میں میرٹ اور قابلیت کو بنیاد بنایا جا رہا ہے، مگر یہاں جان بوجھ کر کراچی کے طلبہ کو پسماندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے مقتدر ادارے، جو ہر مسئلے پر اپنی رائے دینے میں دیر نہیں کرتے، اس سنگین مسئلے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وہ جو قانون کی بالادستی اور انصاف کی بات کرتے ہیں، کراچی کے طلبہ کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی پر کیوں لب نہیں کھول رہے؟ کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ایک منظم طریقے سے اردو بولنے والے نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کو تباہ کیا جا رہا ہے؟
یہ وقت خاموش بیٹھنے کا نہیں، بلکہ آواز بلند کرنے کا ہے۔ اگر کراچی کے لوگ اب بھی خاموش رہے تو ان کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے جائیں گے۔
یہ شہر، جو پاکستان کو 70 فی صد سے زیادہ ریونیو فراہم کرتا ہے، اس کے شہریوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کب تک جاری رہے گا؟ ہم تمام مقتدر اداروں، حکومتی نمائندوں اور عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ناانصافی کا فوری نوٹس لیا جائے۔ کراچی کے طلبہ کو ان کا تعلیمی حق دیا جائے، امتحانی نمبروں میں کی جانے والی جانبداری کا خاتمہ کیا جائے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کا عمل مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے۔ اگر آج اس ظلم کے خلاف آواز نہ اُٹھائی گئی تو کل کو کراچی کا نوجوان اپنی تعلیم، مستقبل اور حق سے مکمل طور پر محروم ہو جائے گا۔ یہ شہر ہمارا ہے، اس کے بچوں کا حق بھی ہمارا ہے! کراچی کے طلبہ کے ساتھ ناانصافی بند کرو!
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کراچی کے طلبہ کی جا رہی ہے کے طلبہ کو کے ساتھ کیا جا
پڑھیں:
گلگت بلتستان میں اساتذہ کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ اسناد کی تصدیق کا حکم
مراسلے میں تمام ریکارڈز کو اسکین کر کے محفوظ بنانے اور واضح طور پر درست، مشتبہ اور غیر تصدیق شدہ اسناد کی درجہ بندی کرنے کے بھی احکامات دیئے گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ محکمہ تعلیم گلگت بلتستان نے صوبے بھر میں تعلیمی اداروں میں تعینات تمام اساتذہ کی تعلیمی و پیشہ ورانہ اسناد کی تصدیق کا جامع عمل شروع کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈائریکٹر جنرل اسکول ایجوکیشن کو باضابطہ طور پر ایک سرکاری مراسلہ ارسال کیا گیا ہے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اساتذہ کی اسناد کی درستگی، قابلیت اور مؤثریت کو یقینی بنانا گلگت بلتستان کے تعلیمی نظام کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ تمام اضلاع میں اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تحت کام کرنے والے اساتذہ کی اسناد کی جامع جانچ پڑتال کی جائے گی۔ مراسلے کے مطابق اساتذہ کی میٹرک، انٹرمیڈیٹ، بیچلرز اور ماسٹرز ڈگریوں کی متعلقہ بورڈز اور جامعات سے جانچ کرائی جائے گی۔ پیشہ ورانہ قابلیت کی تصدیق کے عمل کے دوران بی ایڈ، ایم ایڈ، اے ڈی ای یا اس کے مساوی اسناد اور دیگر پیشہ ورانہ اسناد کی جانچ کی جائے گی۔ مراسلے میں پیش کردہ اسناد کو ہر استاد کے سروس ریکارڈ سے ملا کر جانچنے اور کسی قسم کی تضاد کی نشاندہی کرنے کا بھی حکم دیدیا گیا ہے۔
مراسلے میں تمام ریکارڈز کو اسکین کر کے محفوظ بنانے اور واضح طور پر درست، مشتبہ اور غیر تصدیق شدہ اسناد کی درجہ بندی کرنے کے بھی احکامات دیئے گئے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے مراسلے میں ہر کیس میں واضح سفارشات پیش کرنے، خاص طور پر جہاں تضادات پائے جائیں، اور جعل سازی یا غلط بیانی کی صورت میں محکمانہ کارروائی کی تجویز دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مراسلے میں ہدایت دی گئی ہے کہ ضلعی یا ڈویژن کی سطح پر تجربہ کار افسران کی نگرانی میں تصدیقی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ شفافیت اور دیانتداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ مزید برآں، اس کارروائی کی ایک مکمل رپورٹ، دستخط شدہ اور مجاز افسر کی منظوری کے ساتھ، ایک ماہ کے اندر سیکریٹریٹ کو ارسال کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ ڈپٹی سیکریٹری اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، گلگت بلتستان، کُمیل عباس کی جانب سے جاری کردہ اس ہدایت نامے پر عمل درآمد کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے۔