WE News:
2025-09-17@23:17:49 GMT

’جنک فوڈ‘ بچوں کی صحت کسی طرح تباہ کر رہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

’جنک فوڈ‘ بچوں کی صحت کسی طرح تباہ کر رہا ہے؟

ماہرین صحت نے کہا ہے کہ بچے تیزی سے ’جنک فوڈ‘ کی رغبت کا شکار ہو رہے ہیں، جس سے ان کی صحت اور تندرستی پر سنگین سمجھوتہ ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستانی بچے ذیابطیس کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟

فاسٹ فوڈ چینز، سہولت اسٹورز اور نوجوانوں کے ذہنوں کو نشانہ بنانے والے اشتہارات سے بچپن میں موٹاپے، ذیابیطس اور خوراک سے متعلق دیگر عوارض میں اضافہ ہوا ہے۔

صحت مند کھانے کے بارے میں آگاہی کی ضرورت

ماہرامراض اطفال وسیم ملک نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنک فوڈ کی وبا سے نمٹنے کے لیے خوراک کی تشہیر پر سخت ضابطوں، بہتر غذائیت کی لیبلنگ اور اسکولوں اور کمیونٹیز میں صحت مند کھانے کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

30 فیصد بچے زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار

انہوں نے کہا کہ 5 سے 18 سال کی عمر کے تقریباً 30 فیصد بچے زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں جس کا بنیادی سبب جنک فوڈ کا استعمال ہے۔

ماہر امراض اطفال وسیم ملک نے کہا کہ بچپن میں موٹاپے میں خطرناک حد تک اضافہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔

جنک فوڈ میں ضروری غذائی اجزا کم ہوتے ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ جنک فوڈ میں کیلوریز، شوگر اور غیر صحت بخش چکنائی زیادہ ہوتی ہے جبکہ ضروری غذائی اجزا کم ہوتے ہیں۔

جنک فوڈ صحت کے مسائل بشمول موٹاپے اور ذیابیطس سے لے کر دل کی بیماری اور کینسر کی بعض اقسام، بچوں میں انسولین کے خلاف مزاحمت اور ٹائپ 2 ذیابیطس ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

انہوں نے والدین پر زور دیا کہ بچوں کو مختلف قسم کی صحت بخش غذائیں جیسے پھل، سبزیاں، مکمل اناج اور پروٹین کو استعمال کرائیں۔

جنک فوڈ انڈسٹری

انہوں نے کہا کہ جنک فوڈ انڈسٹری نوجوان ذہنوں تک رسائی حاصل کر رہی ہے اس لیے والدین، پالیسی سازوں، اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد اس بڑھتے ہوئے بحران کا مقابلہ کرنے اور اپنے ملک کے بچوں کے لیے صحت مند مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بچے پروٹین پھل جنک فوڈ جنک فوڈ انڈسٹری ذیابیطس سبزیاں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بچے پروٹین پھل جنک فوڈ جنک فوڈ انڈسٹری ذیابیطس سبزیاں انہوں نے جنک فوڈ کا شکار کہا کہ نے کہا کے لیے

پڑھیں:

سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250916-06-7

 

 

لاہور (کامرس ڈیسک)پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری قومی معیشت کا بڑا حصہ کھیتوں سے حاصل ہونے والی اجناس، باغات کی پیداوار اور مویشی پالنے کے نظام پر منحصر ہے۔ دیہات میں بسنے والے لاکھوں خاندان اپنی روزی روٹی انہی کھیتوں سے کماتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں آنے والے شدید اور تباہ کن سیلاب نے نہ صرف کسانوں کو بلکہ پوری زرعی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پانی کے طوفان نے کھیت کھلیان بہا دیے، تیار فصلیں تباہ کر ڈالیں اور کسان کو بے بسی کے عالم میں کھڑا کر دیا۔ یہ آفت صرف ایک قدرتی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے زرعی ڈھانچے، حکومتی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی کمزوری کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔خیبرپختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں سے اس سیلابی تباہی کا آغاز ہوا۔ شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور ندی نالوں میں طغیانی نے بستیاں اجاڑ دیں اور زرعی زمینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صرف اسی صوبے کے 16 اضلاع میں 31 ہزار 600 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں اور باغات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ سب سے زیادہ نقصان بونیر میں ہوا جہاں 26 ہزار 141 ایکڑ پر کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں۔ سوات، دیر لوئر اور شانگلہ میں بھی ہزاروں ایکڑ زمین زیرِ آب آ گئی۔ مکئی، چاول، سبزیاں اور پھلدار باغات وہ اجناس ہیں جن پر مقامی معیشت کا انحصار ہے، لیکن یہ سب اس سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف کسانوں کا ذریعہ معاش ختم ہوا بلکہ مقامی منڈیوں میں اجناس کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔پنجاب، جو پاکستان کی زرعی پیداوار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہ ، اس بار سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 21 لاکھ 25 ہزار 838 ایکڑ زرعی رقبہ سیلاب کی نذر ہوا۔ یہ تباہی صرف زمین یا فصلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے زرعی آلات، گوداموں، گھروں اور کسانوں کی روزمرہ زندگی کو بھی برباد کر دیا۔ فیصل آباد ڈویڑن سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 3 لاکھ 23 ہزار 215 ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر ضائع ہو گئیں۔ اسی طرح گوجرانوالہ ڈویڑن، گجرات ڈویڑن، بہاولپور ڈویڑن، ساہیوال، ملتان ڈویڑن اور ڈی جی خان میں بالترتیب2 لاکھ 62 ہزار 862 ایکڑ، 2 لاکھ 38 ہزار 416 ایکڑ، 1 لاکھ 45 ہزار 432 ایکڑ، 1 لاکھ 37 ہزار 79 ایکڑ، 58 ہزار 439 ایکڑاور 49 ہزار 165 ایکڑفصلیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئیں۔زرعی تباہی کے ساتھ ساتھ لاکھوں مویشی بھی یا تو پانی کے ریلوں میں بہہ گئے یا خوراک کی کمی اور بیماریوں کے باعث مر گئے۔ دیہات میں کسان کی معیشت صرف فصلوں پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ مویشی اس کا دوسرا بڑا سہارا ہوتے ہیں۔ دودھ، گوشت اور کھال کے ساتھ ساتھ بیل اور بھینس کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سبز چارے کی شدید قلت ہے اور کسان اپنے بچ جانے والے جانوروں کو خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ حکومت کی طرف سے ونڈے کی معمولی تقسیم ہو رہی ہے مگر اکثر یہ سہولت ضرورت مند کسان تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسے حالات میں مرکزی مسلم لیگ، الخدمت فاؤنڈیشن، مرکزی کسان لیگ اور دیگر مذہبی و فلاحی تنظیمیں سائیلج اور توری کی تقسیم کر رہی ہیں، مگر یہ اقدامات وقتی ہیں، مستقل حل نہیں۔درحقیت پاکستان کا کسان ہماری معیشت کی بنیاد ہے۔ اگر کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ سیلاب نے کسان کو کچل کر رکھ دیا ہے، اس لیے اب یہ حکومت اور ریاست کی آئینی، اخلاقی اور معاشی ذمہ داری ہے کہ وہ کسان کو دوبارہ کھڑا ہونے کا موقع دے۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • پاکستان میں 10 کروڑ سے زائد بالغ افراد وزن کی زیادتی یا موٹاپے کا شکار
  • پنجاب میں زور ٹوٹ گیا،سکھر بیراج میں اونچے درجے کا سیلاب،نقل مکانی،فصلیں تباہ
  • شادی میں تاخیر پاکستانی خواتین کو موٹاپے سے بچانے میں مددگار ثابت
  • دریائے سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں، بند ٹوٹ گئے، دیہات زیرِ آب
  • کیا زیادہ مرچیں کھانے سے واقعی موٹاپے سے نجات مل جاتی ہے؟
  • پنجاب میں تباہ کن سیلاب: 112 جاں بحق، 47 لاکھ متاثر: پی ڈی ایم اے
  •  امریکی ریاست یوٹا میں بگولوں سے کئی مکانات تباہ
  • سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت