Jasarat News:
2025-07-26@01:33:05 GMT

کراچی کی مشہور پشاوری آئسکریم

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

کراچی کی مشہور پشاوری آئسکریم

میں: کیا میں اس غیر سنجیدہ عنوان کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟

وہ: دراصل اس عنوان کی وجہ ایک واقعہ ہے۔ کئی سال قبل پشاور شہر کی سیر کے دوران بس دو چیزیں ذہن میں سما گئیں ایک روایت سے جڑا قصہ خوانی بازار دوسرا ایک Shop Sign جو اپنے انوکھے اور تخلیقی انداز تحریر سے ہر آنے جانے والے کو اپنی طرف متوجہ کررہا تھا، جس پہ لکھا تھا کراچی کی مشہور پشاوری آئس کریم۔

میں: آئس کریم والے نے اپنے کاروبار کی مشہوری کے لیے جس تخلیقی اُپچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ نام وضع کیا، وہ کم از کم ہمارے میڈیا پر اُن چیختے چلاتے، بھونڈے اور بے تُکے اشتہارات سے تو بہتر ہے جو صبح وشام ہمارا جینا حرام کیے رکھتے ہیں۔

وہ: تمہاری بات بالکل درست ہے لیکن اشتہارات کا یہ بے تُکا پن صرف ہماری طبیعتوں پر گراں گزرنے تک محدود نہیں کیوں کہ ہماری اس ناگواری کی وجہ تو محض وہ خلل ہے جو کسی شو یا ڈرامے کے تسلسل کو خراب کرتا ہے، اصل میں اشتہارات نے ہماری اقدار، سماج، زبان اور تہذیب پر اتنی ضربیں لگائی ہیں کہ پوری قوم ذہنی طور پر مفلوج ہوچکی ہے۔ اب اپنی پسندو ناپسند پر ہمارا اختیار ہے نہ فیصلہ سازی کے کسی مرحلے پر ہم خود کو بااختیار محسوس کرتے ہیں۔

میں: یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اپنی زندگی کے فیصلوں پر اختیار ایک اشتہار ہم سے کیسے چھین سکتا ہے؟

وہ: ذرا اس پہلو پر غور کرو کہ ہم زندگی میں اپنی پسند وناپسند کا معیار کسی اپنے کے مشورے سے زیادہ اشتہار میں بتائے گئے پیغام کی بنیاد پر متعین کرتے ہیں۔ کیا کھانا ہے، کیا پہننا ہے، کیسے کھانا ہے اور کیسے پہننا ہے، کب کھانا ہے اور کب پہننا ہے۔ فرد کی زندگی کے انتہائی ذاتی نوعیت کے ان تمام فیصلوں کا اختیار بھی اب اس کے پاس نہیں رہا۔ اس کے ہر دن کا آغاز سماجی رابطے کی کسی بھی ویب سائٹ پر چلنے والے طرز(Trend) کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اور اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ صبح کا انداز کچھ ہے، اور شام کا چلن کچھ اور۔ یہ انداز یہ چلن کسی نہ کسی ادارے یا مصنوعات بنانے والی کسی کمپنی کے تعاون سے جاری کیا جاتا ہے جو اشتہار کاری کا ایک ذریعہ اور طریقہ ہے۔ جو اشیاء فرد پہلے خود چھان پھٹک کر اور اس کا معیار اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور ہاتھوں سے چھونے کے بعد حاصل کرتا تھا، اب وہ محض ایک اشتہار ساز کی جھوٹی سچی باتوں پر من وعن ایمان لاکر خاموشی سے خرید لیتا ہے۔

میں: لیکن اس میں اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے ان کمپنیوں کا کیا قصور ہے، وہ گاہک کو بندوق کے زور پر اپنی مصنوعات خریدنے پہ تو مجبور نہیں کرتے ’کہ ہم نے اپنے صابن پر دس روپے کم کردیے ہیں اگر نہیں خریدا تو تم جہاں نظر آئے تمہیں وہی گولی ماردی جائے گی‘۔

وہ: بالکل ایسا ہی ہے کہ اس عمل میں گاہک کے ساتھ زور زبردستی کا کوئی سلوک روا نہیں رکھا جاتا لیکن پروڈکٹ خریدنے پر مائل یا مجبور کرنے کا یہ معاملہ دھونس دھمکی کے بجائے نفسیاتی حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ اشتہار ساز صارف کی نفسیات کو سمجھنے اور ہر پہلو سے اس کا پورا فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، وہ اپنی پروڈکٹ کے ساتھ نت نئی مفت پیشکشوں کی صورت میں ہو یا قرعہ اندازی کے ذریعے نکلنے والے پرکشش انعامات کی شکل میں یا پھر کبھی اسے کوئی جذباتی منظر دکھا کر اس کی جیب سے رقم نکلوانا، اس کی وضاحت انگریزی اصطلاح Emotional Blackmailing سے بآسانی ہوجاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں اشتہارات کے ذریعے قابل فروخت اشیاء کو اتنا بڑھا چڑھا کر دکھایا اور بتایا جاتا ہے کہ انسان کی آنکھیں خیرہ اور دماغ مائوف ہوجاتا ہے۔

اشتہارات کی اس ہمہ گیر نفسیاتی یلغار کے نتیجے میں آج دنیا کی ہر چیز ایک پروڈکٹ بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ فرد کی اپنی ذات ایک پروڈکٹ ہے اور جب معاملہ کسی مشہور کھلاڑی، فن کار وغیرہ کا ہو تو پھر اس کے جسم پر موجود ہر چیز کسی نہ کسی ادارے اور اس کی بنائی ہوئی شے کی تشہیر کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بے چارہ صارف صرف اس بنیاد پر اس پروڈکٹ کو استعمال کرنا شروع کردیتا ہے کہ اشتہار یا کسی پروگرام میں وہ چیز اس کی پسندیدہ شخصیت کے ہاتھوں یا چہرے کی زینت بنی ہوئی ہے، بھلے حقیقی زندگی میں وہ اس مشہور شخصیت کو ایک آنکھ نہ بھاتی ہو۔ یوں کچھ ہی دن بعد وہ چمکتی دمکتی پروڈکٹ صارف کی نظر سے گر جاتی ہے، مگر کمپنی کا ملک ایک شاطر ایڈورٹائزر کی طرح اسی شے کو ایک نئے نام اور نئے فن کار کے ساتھ دوبارہ بازار میں لے آتا ہے۔

فرد کی زندگی پر اشتہارات کے اثرات کا معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔ اشتہارات نے انسان کے اندر چھپی لالچ کو ابھارا، گئی تہذیب سے جڑی قناعت نئی تہذیب کی شناخت ہوس سے بدل گئی۔ بڑے بڑے

ساہوکاروں کی دیکھا دیکھی مقامی سطح کے چھوٹے کاروباریوں اور دکان داروں کو بھی یہ سیکھ ملی کہ کاغذ اور گتے کے پیکٹ میں لپیٹ کر جو چاہے کھلادو، معیار کو جتنا چاہے گرادو، بازار میں سب بک جاتا ہے، بس اگر تھوڑا بہت خرچہ کرنا بھی ہے تو پروڈکٹ کی پیکنگ کو پرکشش بنانے کے لیے اس پر کوئی اچھوتا سا نام چھاپ کر اور چمکتے دمکتے رنگوں کی مدد سے اس کو خوب صورت بناکر۔ ساتھ ہی جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا کے مصداق برقی ذرائع ابلاغ کے لیے اشتہار بناکر اپنی پروڈکٹ کی وقعت میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے اور اسے عوام کے لیے کم وقت میں زیادہ قابل قبول بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرزِ معاش سے کھلے بندوں دھوکا دہی کے ایک نئے چلن کا آغاز ہوا جو موجودہ دور تک آتے آتے کاروبار میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا جائزذریعہ بن گیا۔

میں: ہاں یہ بات تو ہے ہوس اور منافع خوری کا عمل شاید اسی سوچ کا مرہونِ منت ہے۔

وہ: اس حوالے سے یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اشتہارات کو مغربی تہذیب اور اس کے معاشی نظامِ سرمایہ داری کا اہم ستون کہنا بے جا نہ ہوگا۔ جہاں اس نظام نے سرمائے کو صنعت اور معیشتی اداروں کی شکل میں چند افراد تک محدود کردیا وہیں سادہ لوح عوام کو نت نئی مصنوعات کی ترغیب دلا کر اس کے حصول کی خواہش جگانے میں اشتہارات نے اس نظام کی بنیادوں کو ہرگزرتے دن کے ساتھ مستحکم کیا۔ مگر اشتہارات کا یہ معاملہ محض عوام الناس کی جیبوں سے پیسے نکال کر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنے تک محدود نہیں رہا، اس نے نہ صرف انفرادی سطح پر فرد کے سوچنے کا انداز بدل دیا بلکہ اجتماعی حوالے سے بھی اقدار وروایات کو ایک ایسا چولا پہنا دیا جس سے معاشروں کی خوبصورتی تہذیبی رکھ رکھائو سے نکل کر محض اشیاء کی ظاہری تراش خراش اور نمودو نمائش تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اشتہارات کے زبان وادب پر پڑنے والے اثرات پر کسی اور نشست میں بات کریں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تک محدود جاتا ہے کے ساتھ ہے اور کے لیے اور اس

پڑھیں:

’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود

بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔

29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔

ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔

ڈرائیور سے اداکار تک

محمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔

انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔

ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبار

محمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔

محمود کے صاحبزادے مقصود محمود علی عرف لکی علی (بائیں) بھی شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔

مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔

سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔

محمود کے ورسٹائل انداز

سال1961  کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔

اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینی

محمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔

سنہ 1970  کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔

محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہ

انہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔

23  جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔

وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی

متعلقہ مضامین

  • مشہور برطانوی اداکار جنسی زیادتی اور تشدد کے سنگین الزامات کی زد میں
  • کمالیت پسندی: خوبی، خامی یا ایک نفسیاتی مرض!
  • حمزہ علی عباسی کو حجاب سے متعلق متنازع بیان دینا مہنگا پڑگیا
  • دلجیت دوسانجھ کس پاکستانی گلوکار کے مداح نکلے؛ مشہور گانا بھی گنگنایا
  • رجب بٹ کے مسائل کے پیچھے کونسی مشہور شخصیت ہے؟ ٹک ٹاکر کاشف ضمیر نے بتا دیا
  • ’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
  • یہ کون لوگ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہمارے لیے سیلاب میں اترتے ہیں؟
  • بھارتی سیریل ’تارک مہتا کا الٹا چشمہ‘ کے مشہور کردار جیٹھا لال نے کیا ڈرامے کو الوداع کہہ دیا؟
  • رجب بٹ کے مسائل کے پیچھے کونسی مشہور شخصیت ہے؟ ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کا دعویٰ
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟