فتنہ الخوارج، دہشت گردی اور نوجوان
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ جب تک قوم اور بالخصوص نوجوان پاک فوج کے پیچھے کھڑے ہیں اور جب تک ہمارے اندر قربانی کا یہ جذبہ موجود ہے تو پاک فوج کو کوئی کبھی شکست نہیں دے سکے گا۔ یونیورسٹی طلبہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے مزید کہا کہ خارجی، اسلام کی غلط تشریح کر رہے ہیں جو اسلام میں جائز نہیں، پاک فوج فتنہ الخوارج کے خلاف لڑ رہی ہے۔
یونیورسٹی طلبہ سے خطاب میں پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر نے صائب خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بلاشبہ آج کا فتنہ الخوارج بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے پا ک فوج پر عزم ہے۔ خوارج تاریخی طور پر وہ گروہ ہیں جو مذہبی شدت پسندی کے باعث اسلام کے بنیادی اصولوں سے منحرف ہوئے اور خلافت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ آج بھی مختلف شدت پسند گروہ ان کے نظریات کو اپنائے ہوئے پاکستان میں انتشار اور فتنہ و فساد پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ گروہ خود کو اسلام کا علمبردار قرار دیتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں جس سے مسلم معاشرے میں افراتفری اور انتشار پھیلنے کے مواقعے بڑھ جاتے ہیں۔
خوارج کی دہشت گرد کارروائیاں خصوصاً خیبر پختونخوا خصوصاً سابقہ قبائلی اضلاع میں زیادہ دیکھی گئی ہیں۔ خوارج کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ عوام اور پاک فوج کے درمیان اختلافات پیدا کریں۔ افواج پاکستان اور عوام کے درمیان پائے جانے والے اتحاد و یکجہتی کے مقدس رشتے کو زک پہنچائیں۔ انھیں یہ خوف ہے کہ اگر عوام اور فوج ایک ساتھ کھڑے رہے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس لیے یہ عناصر دہشت گرد حملے کرکے عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں اور پھر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ریاست اور عسکری ادارے ان کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
سیاست کا لبادہ اوڑھے ہوئے بعض گروہ خوارج کے ناپاک ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ لوگ چیک پوسٹوں کو ختم کرنے اور فوجی آپریشنز کو روکنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں تاکہ دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل سکے۔ درحقیقت، یہ عناصر خوارج کے سہولت کاروں کے طور پر کام کرتے ہیں اور عوام کو ریاست کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔
پاکستان کے بازاروں، مساجد، امام بارگاہوں، فوجی مقامات و تنصیبات اور اسکولوں پر حملے میں ملوث جملہ تحریکوں اور تنظیموں میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ اپنی کارروائیاں مذہب کی آڑ لے کر کرتی ہیں۔ اِس گمراہ کن اور ہلاکت انگیز ذہنیت نے پوری اِنسانیت کوبالعموم اور اُمتِ مسلمہ کو بالخصوص ایک عجیب اذیت ناک صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ جوانمردی، استقامت، حوصلہ مندی، جرات اور بہادری کا مظاہر ہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔ پاک فوج ہر دہشت گرد کو اس کے انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتی ہے۔
ہمارے نوجوان جو قوم کی امید ہوتے ہیں، دہشت گرد اپنے مکروہ عزائم کے لیے ان کی معصومیت کو استعمال کرتے ہیں۔ انھیں جنت میں جانے کے جھانسے دیتے ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ دہشت گرد جماعتیں بے روزگار نوجوانوں کا برین واش کر کے ان کو ملک دشمنی اور دہشت گردی کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ بے روزگار، کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مظاہروں میں انتخاب کیا جاتا ہے اوران کی مجبوریوں اور دیگر مسائل کا پتہ لگا کر اسی طریقے سے ان کو کو اپنا حصہ بنایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کے انتخاب اور انھیں مائل کرنے کے لیے دہشت گردوں کے سہولت کار سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے رابطے کرتے ہیں۔ دہشت گردوں نے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنا ہدف بنا لیا ہے اور وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ان تک رسائی کر کے انھیں گمراہ کرتے، اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے اور راستے سے بھٹکاتے ہیں۔
بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ گمراہی کے اس راستے پر چل پڑے ہیں، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گرد اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں، غریب طبقے کو معمولی رقم کا لالچ دے کر گمراہ کیا جا سکتا ہے، اِس لیے ان پر توجہ مرکوز رکھی گئی ۔
دہشت گردوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے حلیے کی وجہ سے جلد ہی نگاہوں میں آجاتے ہیں تو انھوں نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی اور کلین شیو دہشت گرد بھی سامنے آنے لگے۔ اب آگے بڑھ کر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دہشت گردی کے نیٹ ورک میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔حکومت اور مقتدر اداروں کو چاہیے کہ وہ ملکی اور عالمی سطح پر ایسے تمام محرکات اور اسباب کا تدارک کریں جن سے عوام الناس تشکیک کا شکار ہوتے ہیں اور دہشت گردی کے سرغنے کئی مضطرب اور جذباتی نوجوانوں کو آسانی سے اکسانے، ورغلانے اور گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں بلکہ انھیں دہشت گردی کے لیے تیار کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔
نوجوان نسل جتنی باشعور، ڈسپلنڈ اور باکردار ہو ملک بھی اُسی قدر مضبوط اور توانا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں نوجوان جو کل آبادی کا لگ بھگ 60 فیصد ہیں واحد طبقہ ہیں جن کی گرومنگ اور تربیت اُس انداز میں نہیں ہو پارہی جس کی انھیں ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں نوجوان کے ہاتھ سے اسمارٹ فون چھیننے کا رواج تو موجود ہے لیکن اُس کو اسمارٹ فون کے مثبت استعمال سے متعلق رہنمائی یا پھر اُس کے ہاتھ میں کوئی اچھی کتاب تھمانے کا کوئی رواج موجود نہیں۔ بہت کم والدین اور اساتذہ بچوں کی تربیت اس انداز سے کرپاتے ہیں وہ معاشرے کے لیے ایک مفید شہری بن کر سامنے آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا پڑی تو اُس میں وہ نسل جو دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں زیادہ استعمال ہوئی وہ نوجوان نسل ہی تھی۔
حتیٰ کہ کم عمر اور نابالغ لڑکوں کو خود کش دھماکوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایسے بچے شاید اس لیے بھی استعمال ہوئے کہ اُن کے گھر والوں اور علاقوں میں نوجوانوں کی تربیت کا وہ نظام موجود نہیں تھا جو ترقی یافتہ معاشروں میں موجود ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نوجوان اس لیے خود کش دھماکے کرتے ہیں کہ اُن کو مزدوری نہیں مل رہی تھی اور بے روزگاری تھی تو یہ درست نہیں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ تعلیم کا فقدان تھا، اس لیے نوجوان استعمال ہوئے تو یہ بھی غلط ہے۔
ہمارے ہاں تعلیم شاید مختلف علوم کے پانچ پانچ سوال رٹ لینے کا نام ہے۔ بہت کم نوجوان ایسے ہیں جنھیں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور وہ مختلف جامعات سے تعلیم حاصل کرکے عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔
لہٰذا ضروری تصور کیا جاتا ہے کہ ان نوجوانوں کی ڈِکشن کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر ہی ایسی ہوجائے کہ وہ اپنے ملک، قوم اور نظریے کے ساتھ اس قدر مخلص اور جُڑے ہوئے ہوں کہ ملک کی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائیں۔ دہشت گرد عناصر جن واقعات و حالات کو اپنے ناپاک ایجنڈے کے لیے بطورِ ایندھن استعمال کرتے ہیں ان پالیسیوں میں واضح اور مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ان اسباب و محرکات کا بھی قلع قمع کیا جاسکے۔ اسی طرح اگر عالمی طاقتیں اور پاکستانی ایجنسیاں عوام کے حقیقی مسائل، مشکلات اور شکایات کی طرف توجہ نہیں دیں گی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دو رُخی پالیسی نہیں چھوڑیں گی، اُس وقت تک امن کی حقیقی بحالی محض خواب ہی رہے گی۔
معاشرے سے اِنتہا پسندی کے خاتمے کے لیے عملی اِقدامات کیے جائیں تاکہ دہشت گردوںکے فکری و نظریاتی سرچشموں کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے۔ مزید برآں اِنتہا پسندانہ اَفکار و نظریات کے خلاف مدلل مواد ہر طبقہ زندگی کو اُس کی ضروریات کے مطابق فراہم کردیا جائے تاکہ معاشرے سے اس تنگ نظری و اِنتہا پسندی کا بھی خاتمہ ہوسکے جہاں سے اِس دہشت گردی کو فکری و نظریاتی غذا حاصل ہوتی ہے۔یہ وقت پوری قوم، سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور خاص طور پر افواج پاکستان کے لیے امتحان کا وقت ہے۔
تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ فیصلہ کریں کہ وہ اس ملک کو امن اور عدم تشدد کا معاشرہ دینا چاہتے ہیں۔ جب تک یکسو ہو کر تمام سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مرتکب افراد، ان کے معاونین اور فکری گماشتوں کا قلع قمع نہیں کیا جاتا، امن ہمارا خواب ہی رہے گا اور اس کی عملی تعبیر کبھی ممکن نہ ہو سکے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دہشت گردی کے تعلیم یافتہ کرتے ہیں ہیں اور پاک فوج کے خلاف اس لیے کے لیے اور اس
پڑھیں:
پاکستان اور ترکی کا دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا عزم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے منگل کو انقرہ میں ملاقات کے دوران دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور عالمی چیلنجز کے حل کے لیے تعاون کے عزم کا اعادہ کیا۔
بعد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ایردوآن نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کوششوں کے لیے ترکی کی مکمل حمایت کا اظہار کیا۔
جب کہ پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششیں کی جائیں۔پاکستانی وزیراعظم آج ترکی کے دورے پر
دونوں رہنماؤں نے میڈیا سے خطاب میں عالمی مسائل پر اپنے نقطہ نظر میں مضبوط صف بندی پر زور دیا۔ ایردوآن نے کہا، "ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ ہم تقریباً ہر معاملے پر ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
"انہوں نے دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک کے "پرعزم موقف" کو سراہا۔ ایردوآن نے صحافیوں کو بتایا، "پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "ترکی اس لعنت کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔"
ترک صدر کا دورہ پاکستان، تجارت اور عالمی امور پر گفتگو
اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون پر ترکی کا شکریہ ادا کیا۔
شہباز شریف نے مسئلہ کشمیر پر ترکی کی غیر متزلزل حمایت پر بھی شکریہ ادا کیا۔
مختلف شعبوں میں باہمی تعاون پر اتفاقپاکستانی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق شہباز شریف نے بتایا کہ دونوں ممالک نے توانائی، کان کنی، معدنیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون اور مشترکہ منصوبے شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
ترک صدر کا دورہ پاکستان بھارت کی نگاہوں میں
شہباز شریف نے دفاع اور زرعی پیداوار میں مشترکہ منصوبوں کی گنجائش کو بھی اجاگر کیا، علاقائی اور دو طرفہ رابطوں کو فروغ دینے کے لیے تجارت اور لوگوں کے درمیان تبادلے کو فروغ دینا، اور سائبر سیکیورٹی اور مصنوعی ذہانت جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں تعاون کو گہرا کرنے پر زور دیا۔
بیان کے مطابق، انقرہ پہنچنے کے فوراً بعد، انہوں نے صدر ایردوآن سے ملاقات کی اور علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا اور قومی مفاد کے امور پر ایک دوسرے کی حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے خطے میں امن اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے دوطرفہ اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
ترک صدر نے کیا کہا؟ترک صدر رجب طیب ایردوان نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ وزیراعظم شہبازشریف کو خوش آمدید کہتے ہیں، ترکی اور پاکستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باہمی رابطے مضبوط دوستی کی علامت ہوتے ہیں، پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے، اور ہم ہرقسم کی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔
رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ ترکی اپنے بھائی پاکستان کی ہرممکن مدد اور تعاون کے لیے ہر وقت تیار ہے۔
ایردوآن کا کہنا تھا کہ ترکی دفاعی شعبے میں مشترکہ منصوبے شروع کرنا چاہتا ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ترک صدر رجب طیب اردوان کی دعوت پر دو روزہ دورے پر منگل کو ترکی پہنچے تھے۔ ان کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی گیا ہے۔
ج ا ⁄ ص ز (خبر رساں ادارے)