مصطفیٰ عامر قتل کیس، انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ معطل، سندھ ہائیکورٹ نے ریمانڈ کے لیے ملزم کو طلب کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
سندھ ہائیکورٹ نے محکمہ پراسیکیوشن کی درخواست منظور کرتے ہوئے 10 فروری کا انسداد دہشتگری کا فیصلہ معطل کردیا اور ملزم کو ریمانڈ کے لیے آج ہی کورٹ نمبر ٹو میں دوبارہ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
انسداد دہشتگردی منتظم عدالت کے ملزم کے جسمانی ریمانڈ نہ دینے کے خلاف محکمہ پراسیکیوشن کی درخواست پر ملزم ارمغان کو عدالت میں پیش کردیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کسٹڈی کہاں ہے؟
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ارمغان کو پیش کردیا گیا اور ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔ 6 جنوری کو مصطفیٰ عامر کو اغوا کیا گیا، مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا۔ درخشاں تھانے کے پولیس افسر نے مصطفیٰ کی والدہ کا بیان ریکارڈ کیا،13 جنوری کو تاوان کی کال کے بعد مقدمہ اے وی سی سی کو منتقل ہوا۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس پارٹی نے گزری میں ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا۔ ملزم کے گھر سے بڑی تعداد میں ہتھیار برآمد ہوئے، ملزم کے خلاف مزید مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ 9 جنوری کو اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرکے راہداری ریمانڈ لیا گیا اور 10 جنوری کو پولیس نے کسٹڈی اے ٹی سی میں پیش کی۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقات مکمل کرنے کے لیے ریمانڈ ضروری تھا لیکن منتظم عدالت نے ملزم کے جسمانی ریمانډ کی استدعا مسترد کی۔
یہ بھی پڑھیےلاپتا مصطفیٰ عامر کے قتل کی وجہ سامنے آگئی
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وجہ بتائی منتظم عدالت نے ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کی؟ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ کوئی وجہ نہیں بتائی۔
ملزم سے مغوی کا ایک موبائل فون برآمد کیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم پہلے کب مقدمات میں مفرور تھا؟پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ملزم کا سی آر او پیش کیا گیا ہے۔ 5 مقدمات ملزم کے خلاف درج ہیں۔ ملزم بوٹ بیسن تھانے کے بھتے کے کیس میں مفرور ہے۔
عدالت نے ایک بار پھر استفسار کیا کہ پولیس کسٹڈی کی درخواست کس بنیاد پر مسترد کی گئی؟کیا تشدد کیا گیا؟
ملزم ارمغان نے عدالت کو بتایا کہ مجھ پر تشدد کیا گیا ہے۔ عدالت کے استفسار کیا کہ دکھائیں نشانات کہاں ہیں؟ عدالت میں ملزم کی شرٹ اتار کر دکھائی گئی۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ملزم کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر تشدد کی شکایت تھی تو میڈیکل چیک اپ کا آرڈر کرتے۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ریمانڈ پراسیکیوشن کا حق تھا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ملزم نے جیل میں درد کی شکایت کی ہے؟ کیا جیل میں علاج یا معائنے کی درخواست دی تھی؟ ارمغان نے بتایا کہ میں شاک میں تھا۔
یہ بھی پڑھیےکراچی پولیس اور مقتول مصطفیٰ کی والدہ نے بیٹے کی قبر کشائی کے لیے درخواست دائر کردی
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے مزید بتایا کہ منتظم عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر جے آئی ٹی بنانے کا آرڈر جاری کیا۔ ملزم کے گھر سے خون کے نمونے ملے تھے۔ وہ نمونے والدہ سے میچ کرگئے ہیں۔ خون مغوی مصطفی عامر کا ہی تھا۔ ڈی این اے میچ کیا ہے۔ مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ ضروری ہے۔ ملزم کے قبضے سے لیپ ٹاپ ملے ہیں جن کا فارنزک کروانا ہے۔ منتظم جج نے ایم ایل او کے لیے زبانی احکامات دیے۔ تحریری طور پر کچھ نہیں دیا۔
عدالت نے تفتیشی افسر امین اشفاق کو روسٹر پر طلب کیا اور استفسار کیا کہ آپ لے کر گئے تھے میڈیکل کے لیے؟ کوئی لیٹر دیا تھا؟
تفتیشی افسر نے بتایا کہ عدالت نے ہمیں کوئی لیٹر نہیں دیا تھا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے کوئی لیٹر دیا تھا؟ وہ کہاں ہے؟ کب ہدایت کی تھی منتظم عدالت نے؟کس وقت عدالت نے آرڈر کیا عدالتی ریمانڈ کے لیے؟ عدالتی ریمانڈ دیدیا تو یہ آپ کی ذمہ داری نہیں تھی، آپ کا کام کسٹڈی جیل انتظامیہ کے حوالے کرنا تھا۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ منتظم عدالت نے زبانی احکامات دیے تھے۔
اس پر عدالت نے رجسٹرار انسداد دہشتگردی عدالت کو روسٹر پر طلب کیا اور پوچھا کہ رجسٹرار انسداد دہشتگردی کہاں ہیں؟
یہ بھی پڑھیےپولیس نے مصطفیٰ عامر کی لاش کیسے تلاش کی؟
نمائندہ محکمہ داخلہ کا کہنا تھا کہ رجسٹرار کی پوسٹ خالی ہے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ پورے آرڈر پر وائٹ لگایا ہوا ہے۔ پولیس کسٹڈی پر وائٹو لگا کر جوڈیشل کسٹڈی کیا گیا۔ پولیس اب بھی لکھا ہوا نظر آرہا ہے، وائٹو صحیح سے نہیں لگایا۔
پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے بتایا کہ ملزم کا والد منتظم جج کے چیمبر میں بیٹھا رہا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس چیز کے دلائل نہ دیں جو آپ نے درخواست میں نہیں لکھی۔
سندھ ہائیکورٹ نے محکمہ پراسیکیوشن کی درخواست منظور کرتے ہوئے 10 فروری کا انسداد دہشتگری کا فیصلہ معطل کردیا اور ملزم کو ریمانڈ کے لیے آج ہی کورٹ نمبر ٹو میں دوبارہ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جرائم کراچی مصطفیٰ عامر قتل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کراچی مصطفی عامر قتل انسداد دہشتگردی منتظم عدالت نے ریمانڈ کے لیے نے بتایا کہ کی درخواست جنوری کو کیا گیا کہ ملزم ملزم کے کے خلاف
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق اپیلیں نمٹا دیں
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 اپریل 2025ء ) سسپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر اپیلیں نمٹادیں۔ تفصیلات کے مطابق دوران سماعت سپریم کورٹ میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلوں پر سماعت ہوئی جہاں سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں، عدالت نے قرار دیا کہ گرفتاری کوڈیڑھ سال گزرچکا اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، عمران خان کے وکلاء دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ دوران سماعت پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ ’ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں، ملزم ٹیسٹ کرانے کیلئے تعاون نہیں کرہا‘، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ملزم حراست میں ہے، زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کرسکتا؟ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی‘، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ ’کسی قتل اور زناء کے مقدمہ میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی‘۔(جاری ہے)
جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزید کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے جسمانی ریمانڈ دیا، ہائیکورٹ نے تفصیلی وجوہات کے ساتھ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، اب یہ درخواست غیر مؤثر ہوچکی، جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا‘، جسٹس صلاح الدین پنہور ے استفسار کیا کہ ’آپ کے پاس ملزم کیخلاف شواہد کی یو ایس بی موجود ہے؟ اگر موجود ہے جا کر اس کا فرانزک کرائیں‘، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ’ہم ملزم کی جیل سے حوالگی نہیں چاہتے، چاہتے ہیں بس ملزم تعاون کرے‘۔ اس پر وکیل عمران خان سلمان صفدر نے کہا کہ ’پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ سے 30 دن کا ریمانڈ لیا، ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، ملزم کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیے بغیر جسمانی ریمانڈ لیا گیا، ریمانڈ کیلئے میرے مؤکل کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش کیا گیا تھا، ایف آئی آر کے اندراج کے 14 ماہ تک پراسیکیوشن نے نہ گرفتاری ڈالی نہ ہی ٹیسٹ کرائے، جب میرا مؤکل سائفر اور عدت کیس میں بری ہوا تو اس مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی، پراسیکیوشن لاہور ہائیکورٹ کو پولی گرافک ٹیسٹ کیلئے مطمئن نہیں کرسکی‘۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم چھوٹے صوبوں کے لوگ دل کے بڑے صاف ہوتے ہیں، ہم تین رکنی بینچ نے آج سے چند روز قبل ایک ایسا کیس سنا جس سے دل میں درد ہوتا ہے، ایک شخص آٹھ سال تک قتل کے جرم میں جیل کے ڈیتھ سیل میں رہا، آٹھ سال بعد اس کے کیس کی سماعت مقرر ہوئی اور ہم نے باعزت بری کیا‘، بعد ازاں عدالت نے پنجاب حکومت کی اپیلیں خارج کردیں۔