مغربی کنارے کا الحاق اور فلسطینی اتھارٹی کی تنسیخ، 10 صہیونی منصوبے
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: رکاوٹوں ختم کروانے اور بستیوں کی تعمیر روکنے کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نابلس اور رام اللہ کے گورنریٹس کے درمیان واقع دیہات سب سے زیادہ بستیوں پرآباد کاروں اور سیکورٹی فورسز کے حملوں کا شکار ہیں۔ 2024 میں صیہونی آباد کاروں نے تقریباً 10,000 پھل دار درخت کاٹ دیے اور 904 مکانات اور عمارتیں تباہ کر دیں۔ اس سال صہیونی فوج اور آباد کاروں نے 16,612 حملے کیے جن میں سے 3,000 حملے صہیونی آباد کاروں نے کیے جس کے نتیجے میں آباد کاروں کی فائرنگ سے 10 فلسطینی کسان شہید ہوئے۔ ترتیب و تنظیم: علی احمدی
مغربی کنارے میں صیہونی حکومت کا "اسٹیل وال" آپریشن مسلسل دوسرے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے اور اس میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے، جن میں جنین، طلکرم کیمپ اور یہاں تک کہ صوبہ توباس، خاص طور پر تمون اور الفا کیمپ شامل ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یہ کارروائی صیہونی حکومت کی سیاسی اور سیکورٹی کابینہ کی جانب سے جنگی اہداف میں "مغربی کنارے میں سیکورٹی کو مضبوط بنانے" کی شق کو شامل کرنے کے فیصلے کے بعد شروع ہوئی اور صیہونی حکومت کے وزراء نے اس سال کو مغربی کنارے کے الحاق اور اس پر خودمختاری کے استعمال کے سال کے طور پر متعارف کرایا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی کوششوں میں، صیہونی حکومت نے تمام شعبوں میں جارحانہ، پرتشدد اجتماعی سزا کی پالیسیاں اپنائی ہیں، جن میں قتل، نقل مکانی، حراست اور روزمرہ کے حملوں کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے اور عوامی سہولیات کی تباہی؛ اس آپریشن کے آغاز سے اب تک 60 فلسطینی شہید اور 220 سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ دسیوں ہزار فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور صیہونی حکومت نے تقریباً 14 بار بمباری کی ہے۔
1۔ جبالیہ پلان کا اعادہ:
اسرائیلی چینل 12 ٹی وی نے 9 فروری کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں جنین میں ہونے والی تباہی کو غزہ میں نسل کشی کی جنگ کے دوران جبالیہ اور غزہ کی تباہی کے تجربے کو نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے صہیونی ماہر محمد حلیح نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کا دائیں بازو سیکیورٹی رکاوٹوں کو توڑ کر اور خطے میں جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی جگہ کو استعمال کرتے ہوئے مغربی کنارے پر قبضہ کرنے میں بہت دلچسپی رکھتا ہے۔
2۔ جبری نقل مکانی:
اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) نے ایک ہفتہ قبل اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی حکومت کی فولادی دیوار کی کارروائی سے تقریباً 40,000 فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں اور بہت سے پناہ گزین کیمپوں کو خالی کر چکے ہیں، جس سے وہ رہائش کے قابل نہیں ہیں۔ "آبادکاری کے امور کے ماہر، جمال جمعہ نے الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں نشاندہی کی کہ "جنین، طولکرم، نور شمس اور شمالی مغربی کنارے کے دیگر دیہاتوں میں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا آپریشن صیہونی حکومت کی طرف سے بنائے جانے والے منصوبے کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جو کہ غزہ کو پیچھے دھکیلنے کے لیے لاگو کیا گیا ہے، بجلی، پانی سمیت تمام سہولیات،انفراسٹرکچر جیسے سڑکیں، اور طبی مراکز وغیرہ کو تباہ کرنا ہے جس کی وجہ سے فلسطین کے مختلف علاقوں میں رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔"
3۔ ابتدائی قوانین
29 جنوری کو، اسرائیلی کنیسٹ نے ایک ابتدائی اجلاس میں ایک قانون منظور کیا جو اسرائیلی آباد کاروں کو مغربی کنارے میں زمین خریدنے اور اس کے مالک ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ صیہونی اخبار کے رپورٹر کے مطابق یہ قانون غیر ملکیوں کو جائیداد کی لیز اور فروخت سے متعلق اردنی قانون کو مؤثر طریقے سے منسوخ کرتا ہے، یا 1953 کا قانون نمبر 40، جس میں مغربی کنارے میں ایسے غیر ملکیوں کی طرف سے زمین خریدنے پر پابندی تھی جن کے پاس اردنی یا عرب شہری نہیں ہیں۔
4۔ قدیم مقامات کا الحاق
2023 میں اسرائیلی حکومت نے فلسطینی قدیم مقامات کو اسرائیلی نوادرات اتھارٹی کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا، اور نوا سپیگل نے 7 جولائی 2024 کو اسرائیلی اخبار ہارتیز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ مغربی کنارے میں 3,200 سے زائد قدیم مقامات ہیں، جن میں سے زیادہ تر Area C، سو سے زائد Area B کے اندر واقع ہیں۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ نیسیٹ میں ایک قانون منظور کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے کہ یہ علاقے یہودی تاریخ سے گہرے جڑے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان دریافتوں کا PA سے کوئی تاریخی یا دوسرا تعلق نہیں ہے، اور اس وجہ سے یہودیہ اور سامریہ (مغربی کنارے) کی سیاسی حیثیت کا اسرائیل کی اپنے لوگوں سے متعلق آثار قدیمہ کی دریافتوں کی ذمہ داری پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔"
5۔ بستیوں کی تعمیر
21 جنوری 2025 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2024 کے دوسرے نصف حصے میں نام نہاد "B" علاقوں میں 7 نئے آباد کاری مراکز کی تعمیر کا مشاہدہ کیا گیا، جو کہ 1995 میں طے پانے والے اوسلو معاہدے کی شقوں کی پہلی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق "B" کے زیرِ انتظام شہری علاقوں سمیت مکمل طور پر سرحدی علاقوں میں آباد ہیں۔ سروے اینڈ کنسٹرکشن اتھارٹی اور صیہونی حکومت کے پاس ان علاقوں پر صرف سیکورٹی کنٹرول ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے سال مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں 52 آباد کاری مراکز کی تعمیر کا مشاہدہ کیا گیا، جو کہ مغربی کنارے میں آباد کاری کے مراکز کی کل تعداد میں 13 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔
6۔ اتھارٹی کی منسوخی:
گذشتہ سال جولائی میں اسرائیلی حکومت نے مغربی کنارے کے 3 فیصد حصے پر محیط ایریا B خاص طور پر صحرائے بیت المقدس میں فلسطینی اتھارٹی کے انتظامی اختیارات کو منسوخ کر دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ان علاقوں کو اسرائیلی سول انتظامیہ کی نگرانی میں کام کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے آباکاری امور کے ماہر جمال جمعہ نے بتایا کہ اوسلو معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد غیر ملکی اداروں اور فلسطینی اتھارٹی نے مغربی کنارے کے 60 فیصد علاقے پر محیط علاقے C میں تعمیر و ترقی کو روکا اور ان علاقوں کے مکینوں کو نقل مکانی اور اپنے گھر چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا، جس کی وجہ سے اس وقت صرف 300,000 فلسطینی وادیٔ فلسطین میں موجود ہیں۔
7۔ آبادکاروں کی دہشت گردی
صیہنیوں کے لئے غزہ کی جنگ ایک بار پھر مغربی کنارے میں سب سے بڑے دہشت گردانہ حملوں کا بہانہ بن گئی۔ رکاوٹوں ختم کروانے اور بستیوں کی تعمیر روکنے کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نابلس اور رام اللہ کے گورنریٹس کے درمیان واقع دیہات سب سے زیادہ بستیوں پرآباد کاروں اور سیکورٹی فورسز کے حملوں کا شکار ہیں۔ 2024 میں صیہونی آباد کاروں نے تقریباً 10,000 پھل دار درخت کاٹ دیے اور 904 مکانات اور عمارتیں تباہ کر دیں۔ اس سال صہیونی فوج اور آباد کاروں نے 16,612 حملے کیے جن میں سے 3,000 حملے صہیونی آباد کاروں نے کیے جس کے نتیجے میں آباد کاروں کی فائرنگ سے 10 فلسطینی کسان شہید ہوئے۔ اس سال فلسطینیوں سے 46,597 دونم اراضی بھی ضبط کی گئی تھی اور صیہونی حکومت نے 24,000 دونم اراضی کو قومی زمین ہونے کے بہانے ضبط کرنے کا اعلان کیا ہے جو 1967 میں مغربی کنارے پر قبضے کے بعد زمین کی ضبطی کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔
8۔ فلسطینی شہروں کے گرد حصار:
گزشتہ سال 14 اگست کو اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے بیت المقدس کے مغرب میں تعمیر ہونے والی صہیونی بستی نہال ہلیٹس کو 148 فیڈان اراضی مختص کرنے کا حکم جاری کیا۔ 21 جنوری کو شائع ہونے والی "مغربی کنارے میں 2024.
9۔ سیٹلمنٹ ایڈمنسٹریشن کا قیام:
29 مئی کو صیہونی حکام نے زمین اور بستیوں سے متعلق انتظامی اختیارات فوج سے حکومت کے سول شعبے کو منتقل کر دیے۔ تاکہ صہیونی بستیوں سے متعلق اختیارات صہیونی فوج سے لے کر "سیٹلمنٹ ایڈمنسٹریشن" کو منتقل کر دیے جائیں، جو براہ راست سموٹریچ کی وزارت کی نگرانی میں کام کرتی ہے اور جس کے سربراہ، یھودا الباہو، "ریگافیم" آبادکاری تنظیم کے قیام میں سموٹریچ کے شراکت دار ہیں۔ 19 اگست 2024 کو شائع ہونے والی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ "قانونی اور ساختیاتی تبدیلیاں حکومت کی خودمختاری کے استعمال کی پالیسی کو نافذ کرتی ہیں اور مقبوضہ علاقوں کی علیحدہ انتظامیہ کو ختم کرتی ہیں، اس لیے سیٹلمنٹ ایڈمنسٹریشن مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو ضم کرنے کے معاملے کو ادارہ جاتی شکل دیتی ہے۔"
10۔ امریکی حمایت:
21 جنوری 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں ملوث اسرائیلی آباد کاروں پر سے پابندیاں اٹھانے کے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔ یہ اقدام سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے مغربی کنارے میں ہنگامی حالت کو مزید ایک سال کے لیے بڑھانے کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں سامنے آیا ہے۔ عبرانی زبان کے اخبار اسرائیل ٹوڈے نے گزشتہ نومبر میں انکشاف کیا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو صیہونی حکومت کے سخت حامی ہیں اور مغربی کنارے کے بجائے "یہودا اور سامریہ" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ پیس موومنٹ اپنی 2024 کی رپورٹ کا اختتام یہ کہہ کر کرتی ہے کہ "قانونی، انتظامی اور مادی صورتحال کسی بھی چیز سے زیادہ واضح طور پر اسرائیل کے مزید تجاوز کی طرف اشارہ کرتی ہے۔" اس طرح، 2024 نہ صرف آباد کاری کے منصوبے کے عروج کا سال تھا، بلکہ الحاق کا سال بھی تھا۔ یہاں تک کہ صیہونی حکومت نے مقبوضہ علاقوں کو غاصب ریاست کا ایک لازم و ملزوم حصہ بنا دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کو شائع ہونے والی اور صیہونی حکومت صیہونی حکومت نے اسرائیلی حکومت مغربی کنارے کے آباد کاروں نے ایک رپورٹ میں کو اسرائیلی علاقوں میں اعلان کیا آباد کاری نقل مکانی کے مطابق حکومت کے کی تعمیر سے زیادہ حکومت کی کیا گیا کرنے کا ہیں اور گیا ہے کے لیے اور اس اس سال
پڑھیں:
غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
وہی ہوا جو منطقی تسلسل میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں باقاعدہ ضم کرنے کی علامتی قرار داد گذرے بدھ تیرہ کے مقابلے میں اکہتر ووٹوں سے منظور کر لی۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر نیتن یاہو حکومت مستقبلِ قریب میں ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پارلیمان اس کے پیچھے کھڑی ہے۔گزشتہ برس نو کے مقابلے میں اڑسٹھ ووٹوں سے دو ریاستی حل کا فارمولا مسترد کرنے کی قرار داد بھی کنیسٹ منظور کر چکی ہے۔
مغربی کنارے کو باقاعدہ ضم کرنے کی قرار داد کی مخالفت میں جو تیرہ ووٹ آئے وہ پارلیمنٹ میں عرب بلاک کے نمایندوں اور بائیں بازو بشمول لیبر ارکان نے دیے۔نام نہاد اعتدال پسند صیہونی جماعتوں ، دائیں بازو کی حکمران لیخود پارٹی اور اس کی حواری متشدد مذہبی پارٹیوں نے مقبوضہ علاقے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے سے اتفاق کیا۔
تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مقبوضہ غربِ اردن کی فلسطینی آبادی کو ضم ہونے کی صورت میں برابر کا اسرائیلی شہری تسلیم کیا جائے گا اور ان پر موجودہ فوجی قوانین کے بجائے وہی سویلین قوانین لاگو ہوں گے جو اسرائیلی شہریوں پر لاگو ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔
اس کا عملی مطلب یہ ہے کہ انضمام کے بعد مسلح یہودی آبادکاروں کے حملے اور تیز ہو جائیں گے ، فلسطینیوں کی باقی ماندہ نجی زمینوں پر فوجی سنگینوں کے سائے میں ’’ دفاعی مقاصد ‘‘ کے نام پر قبضے کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔ان زمینوں پر نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔یعنی ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا کہ لاکھوں فلسطینیوں کا آخری ریلا بھی ’’ رضاکارانہ ‘‘ طور پر اپنی زمین سے نکل جائے اور جوڈیا سماریا (غربِ اردن ) ایک مکمل یہودی خطہ بن جائے۔
یہ قرار داد اسرائیلی کابینہ کے پندرہ وزرا کے بنام سرکار خط کی روشنی میں لکھی گئی۔ خط کے مطابق ’’ ایرانی شیطانی تکون ( حزب اللہ ، بشار الاسد ، یمنی ہوثی ) پر فتح کے بعد اب اندر موجود بقائی خطرے ( مقبوضہ فلسطینی ) سے بھی موثر انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔امریکا اور اسرائیل کی اسٹرٹیجک ساجھے داری اور صدر ٹرمپ کی مکمل حمائیت کے سبب یہی مناسب وقت ہے کہ آیندہ اسرائیلی نسلوں کا جغرافیائی مستقبل محفوظ کیا جائے۔ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے المیے نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست ہر شکل میں اسرائیل کی بقا کے لیے سنگین خطرہ ہے۔لہٰذا جوڈیا سماریا ( مقبوضہ کنارہ ) پر اسرائیل کا مکمل اختیار نافذ کیا جائے ‘‘۔
قرار داد کی علامتی اہمیت اپنی جگہ مگر عملاً اسرائیل بیشتر مقبوضہ علاقے کو پہلے ہی بتدریج ہضم کر چکا ہے۔مغربی یروشلم انیس سو اڑتالیس میں ہی اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا گیا۔فلسطینی اکثریتی مشرقی یروشلم انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد گریٹر یروشلم میونسپلٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔ فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یروشلم کے چاروں طرف آبادکار بستیوں کا جال بچھا دیا گیا۔
حالانکہ اقوامِ متحدہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جو قرار داد منظور کی تھی اور جس کی بنیاد پر چھ ماہ بعد اسرائیل کا وجود عمل میں آیا۔ اس قرار داد کے تحت یروشلم ایک کھلا بین الاقوامی شہر ہو گا۔مگر اسرائیلی پارلیمان نے انیس سو اسی میں متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا تاریخی دارالحکومت قرار دے کے قصہ چکتا کر دیا۔
اسرائیل نے شام سے انیس سو سڑسٹھ میں چھینی گئی گولان پہاڑیوں کو انیس سو اکیاسی میں باقاعدہ ضم کر لیا۔اگرچہ سلامتی کونسل نے اس اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔مگر پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے دو ہزار انیس میں نہ صرف گولان کو اسرائیل کا جائز حصہ مان لیا بلکہ یروشلم پر بھی اسرائیل کی حاکمیت کو قانونی تسلیم کر کے وہاں سفارت خانہ منتقل کر کے عشروں پرانی مبہم امریکی پالیسی ٹھکانے لگا دی۔
غزہ کے المئے نے نہ صرف وہاں کی پوری آبادی کو غذائی و عسکری نسل کشی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے بلکہ مغربی کنارے کی قسمت بھی سربمہر کر دی ہے۔اس بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مغربی کنارے پر اکتیس نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی منظوری دی جا چکی ہے۔مزید چالیس ہزار سے زائد فلسطینی خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ فصلیں اور باغات نذرِ آتش ہو چکے ہیں یا اجاڑے جا رہے ہیں ، لگ بھگ ایک ہزار فلسطینی شہید اور چار گنا زخمی ہو چکے ہیں۔
انیس سو چورانوے کے نام نہاد اوسلو سمجھوتے کے تحت مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ ایریا سی کے نام پر اسرائیل کی دفاعی ضروریات کے لیے مختص ہے۔یہاں کوئی فلسطینی باشندہ کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتا۔اکیس فیصد علاقہ ایریا بی کے نام سے اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔ عملاً اسرائیلی فوج مسلح آباد کاروں کو آگے رکھ کے ایریا بی کو بھی مقامی آبادی سے صاف کر رہی ہے۔
اب رہ جاتا ہے انیس فیصد ایریا اے۔کہنے کو یہاں فلسطینی اتھارٹی کی اتھارٹی چلنی چاہیے۔مگر اسرائیلی فوج دھشت گردوں کے قلع قمع کے نام پر ایریا اے کے شہروں اور قصبوں میں جس وقت جہاں اور جب چاہے گھس جاتی ہے ، ناکہ بندی کرتی ہے اور برسوں سے قائم پناہ گزین کیمپوں کو بھی مکمل منہدم کر رہی ہے۔
مسجدِ اقصی کا احاطہ اگرچہ قانوناً غیر مسلموں پر بند ہے اور اس احاطے کی علامتی نگرانی اردن کے ہاتھ میں ہے۔مگر کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی صیہونی جتھہ اس احاطے میں نہ گھسے اور نمازیوں کو بے دخل نہ ہونا پڑے۔
مسجد مسلسل فوج اور پولیس کے محاصرے میں رہتی ہے۔یعنی یروشلم سمیت مغربی کنارہ عملاً اسرائیل میں ضم ہو چکا ہے۔بس باضابطہ اعلان کی کسر ہے تاکہ عرب ممالک ، او آئی سی ، اقوامِ متحدہ اور کچھ غیر عرب ریاستیں بین الاقوامی قوانین کا علم اٹھائے پہلے کی طرح کچھ ہفتے ماتم کر سکیں۔
اگلا منصوبہ یہ ہے کہ اسرائیل کس طرح غزہ سے تمام فلسطینیوں کو زندہ یا مردہ نکالتا ہے ، جنوبی لبنان کی سرحدی پٹی پر مستقل پنجے گاڑنا ہے اور جنوبی شام کے گولان سے متصل کچھ اور علاقے ہڑپ کرنے کے عمل میں قبائلی و علاقائی خانہ جنگی کو ہوا دے کر شام کے چار ٹکڑے ( دروز ، علوی ، سنی ، کرد ) کرواتا ہے۔
علاقے میں بس ترکی آخری طاقت رہ گیا ہے جو اسرائیل کو کبھی منہ دے سکے۔چنانچہ ان سب ہتھکنڈوں کا ہدف اگلے مرحلے میں ترکی کو تنہا کرنا ہے۔
آپ کے علم میں ہے کہ اسرائیلی بچوں کو اسکول میں کیا پڑھایا جاتا ہے ؟
’’ خدا نے دریاِ نیل تا فرات پھیلی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے بخشی ہے ‘‘۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)