سپریم کورٹ کی جج جسٹس مسرت ہلالی—فائل فوٹو

سپریم کورٹ کی جج جسٹس مسرت ہلالی نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے خلاف بہت خبریں لگتی ہیں بہت دل کرتا ہے جواب دوں، میرا منصب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ جواب دوں۔ 

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

دورانِ سماعت اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آج عذیر بھنڈاری نے دلائل دینے تھے، بھنڈاری صاحب سے بات کر لی ہے، آج میں دلائل دوں گا۔

جس پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ لوگ آپس میں طے کر لیں ہمیں اعتراض نہیں کہ دلائل کون پہلے دے کون بعد میں۔

اعتزاز احسن نے سلمان اکرم راجہ کے گزشتہ روز کے دلائل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سلمان اکرم راجہ بھی میرے وکیل ہیں، انہوں نے کل جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا، میں نے سلمان اکرم راجہ کو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی، جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیے فوجی عدالت میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی یہ تفریق کیسے کی گئی کہ کونسا کیس ملٹری کورٹس میں، کونسا اے ٹی سی میں جائے گا؟ جسٹس نعیم اختر افغان

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اعتراض شاید صرف آرٹیکل 63 اے والے فیصلے سے متعلق ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جسٹس منیب کے فیصلے کے صرف ایک پیرا گراف سے اختلاف کیا تھا، کل دلائل ارزم جنید کی جانب سے دیے تھے اور ان پر قائم ہوں، میڈیا میں تاثر دیا گیا جیسے پتہ نہیں میں نے کیا بول دیا ہے، آپ کے سوال کو سرخیوں میں رکھا گیا کہ عالمی قوانین میں سویلینز کے کورٹ مارشل کی ممانعت نہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ جو سوال پوچھا تو وہ سب کے سامنے ہے، سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں ہم بھی نہیں دیکھتے، سوشل میڈیا کو دیکھ کر نہ اثر لینا ہے نہ اس سے متاثر ہو کر فیصلے کرنے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میڈیا کو بھی رپورٹنگ میں احتیاط کرنا چاہیے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بغیر کسی معذرت کے اپنے دلائل پر قائم ہوں۔ 

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سوال تو ہم صرف مختلف زاویے سمجھنے کے لیے کرتے ہیں، ہو سکتا ہے ہم آپ کے دلائل سے متفق ہوں۔

اعتزاز احسن نے اپنی درخواست کا نمبر تبدیل ہونے پر اعتراض اٹھا دیا

اعتزاز احسن نے اپنی درخواست کا نمبر تبدیل ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ میری درخواست پہلے دائر ہوئی تھی، جواد ایس خواجہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیں، جواد ایس خواجہ کی بعد میں دائر درخواست کو میرا کیس نمبر الاٹ کر دیا گیا۔

جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ایسا نہ کریں، ایسی باتوں سے اور کہیں پہنچ جائیں گے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں، اس کیس کی وجہ سے سپریم کورٹ انڈر ٹرائل ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں ہے، عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کا تاریخ پھر جائزہ لیتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ لطیف کھوسہ صاحب آپ کا چشمہ آگیا ہے؟ قانونی نکات پر دلائل شروع کریں، پہلے سیکشن ٹو ڈی کی قانونی حیثیت پر دلائل دیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سیکشن ٹو ڈی کو 9 اور 10 مئی کے ساتھ مکس نہ کریں، پہلے ان سیکشن کی آزادانہ حیثیت کا جائزہ پیش کریں، سیکشن ٹو ڈی کا 9 مئی اور 10 مئی پر اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ 

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آئین میں بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، سیکشن ٹو ڈی برقرار نہیں رکھا جا سکتا، ملٹری کورٹس تشکیل کو تاریخی تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ جسٹس مسرت ہلالی سپریم کورٹ کے فیصلے

پڑھیں:

عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر تھے؟ سپریم کورٹ کا استفسار

---فائل فوٹو 

سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما عمر سرفراز چیمہ کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

 سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ اور جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کیس پر سماعت کی۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے اپیل پر دلائل کے لیے مہلت کی استدعا کر دی۔

سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر رہے ہیں؟

عمر سرفراز چیمہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمر سرفراز چیمہ سابق گورنر ہیں، عمر سرفراز چیمہ 2 ماہ سے اسپتال میں ہیں۔

9 مئی: عمر سرفراز چیمہ کا کیس عمران خان کے ساتھ سننے کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے عمر سرفراز چیمہ کا کیس بانئ پی ٹی آئی عمران خان کے کیس کے ساتھ کلپ کر دیا۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ عمر سرفراز چیمہ 9 مئی کو اسلحے سے لیس تھے، ان سے برآمدگی کرنی ہے۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ سپریم کورٹ انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں کو 4 ماہ میں فیصلے کا حکم دے چکی ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ مضامین

  • عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کردیا
  • بیوائیں تمام شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری اور خودمختاری کا حق رکھتی ہیں، سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ 
  • عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر تھے؟ سپریم کورٹ کا استفسار
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ