Islam Times:
2025-11-03@14:50:56 GMT

کیمپ ڈیوڈ کی موت

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

کیمپ ڈیوڈ کی موت

اسلام ٹائمز: مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں تناو تصویر کا صرف ایک رخ ہے جبکہ مصر اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی شدید کشیدگی کی جانب گامزن ہیں۔ قاہرہ کی جانب سے اہل غزہ کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے کے امریکی منصوبے کی مخالفت کی جا رہی ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات گذشتہ چند عشروں میں کشیدہ ترین صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ کسی صورت غزہ سے فلسطینی مہاجرین کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کی نظر میں اس منصوبے کی حمایت کا مطلب فلسطین کاز ختم کرنے کی سازش میں شریک ہونا ہے۔ اسی طرح السیسی نے خبردار کیا ہے کہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید عدم استحکام اور ٹکراو کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تحریر: رسول قبادی
 
مغربی ایشیا خطہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے نظریات کی تلاطم خیز تجربہ گاہ ہے۔ یہ خطہ ایک بار پھر ایسی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے جنہوں نے دیرینہ نظریات اور مفروضات کو چیلنج کر ڈالا ہے۔ گذشتہ چند دنوں سے مصر اور اسرائیل کے تعلقات عالمی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جنہوں نے تقریباً نصف صدی پہلے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ انجام دیا تھا۔ اب دونوں کے درمیان عدم اعتماد، تناو اور حتی جنگ کی دھمکیوں جیسی فضا چھا چکی ہے جس نے کیمپ ڈیوڈ کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ حقیقت عیاں کر دی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم سے کوئی بھی امن معاہدہ پائیدار نہیں ہو سکتا۔ حقیقت پسندانہ مکتب فکر کی روشنی میں ایک اہم اصول مدمقابل کی نیتوں کا غیر یقینی ہونا ہے۔ یہ غیر یقینی صورتحال عدم اعتماد کو جنم دیتی ہے اور حکومتوں کو فوجی طاقت میں اضافے کی ترغیب دلاتی ہیں۔ یہ اصول حتی مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات پر بھی صادق آتا ہے۔
 
کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 1978ء میں انجام پایا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں مصر، غاصب صیہونی رژیم کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔ لیکن کمیپ ڈیوڈ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا امن ہمیشہ چیلنجز کا شکار رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین، سرحدی تنازعات اور خطے میں طاقت کا بدلتا توازن وہ وجوہات ہیں جنہوں نے امن کو خطرے کا شکار کیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی انجام پانے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ فوجی جارحیت نے مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ مصر کی نظر میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی نے اس ملک کو نئے سیکورٹی خطرات سے روبرو کر دیا ہے۔ دوسری طرف صیہونی فوج کی جانب سے غزہ اور مصر کی مشترکہ سرحد پر فلاڈیلفیا راہداری تک پیشقدمی نے بھی قاہرہ کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔
 
فلاڈیلفیا راہداری ایک اسٹریٹجک علاقہ ہے جو ہمیشہ سے مصر کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس علاقے پر صیہونی فوج کے قبضے کا مطلب غزہ کی سرحدوں پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے جس کے باعث اس علاقے میں مصر کی رسائی بھی محدود ہو گئی ہے۔ قاہرہ اس بات پر پریشان ہے کہ اسرائیل اس علاقے پر کنٹرول کو فلسطینیوں پر دباو ڈال کر انہیں جبری طور پر مصر جلاوطن کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ یہ بات مصر کے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ مصر حکومت اسے اپنے لیے سیکورٹی خطرہ سمجھتی ہے اور یوں اس کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ مصر نے ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیلی سرحدوں پر فوجی موجودگی بڑھا دی ہے۔ ٹینکوں، جنگی طیاروں اور جدید فضائی دفاعی نظام کی تعیناتی صیہونی رژیم کے لیے یہ واضح پیغام ہے کہ مصر اپنے قومی مفادات کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
 
دوسری طرف صیہونی رژیم مصر کے ان اقدامات کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہے اور انہیں مصر کی جانب سے جنگ کے ذریعے خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کرنے کی علامت قرار دیتی ہے۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے مصر کی فوجی نقل و حرکت کو توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے اور اس بارے میں مختلف رپورٹس اور تجزیات شائع کر کے خوف کی فضا پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کچھ صیہونی ذرائع ابلاغ نے حتی اسرائیل کی جانب سے مصر پر حملہ کرنے میں پہل (preemptive attack) کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی جنگ نے تناو کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور غلط فہمی کے نتیجے میں نادرست اقدام کا احتمال بھی بڑھ گیا ہے۔ صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ کئی عشروں بعد اسرائیل اور مصر کے درمیان تعلقات پر کالے بادل چھا گئے ہیں۔
 
مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں تناو تصویر کا صرف ایک رخ ہے جبکہ مصر اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی شدید کشیدگی کی جانب گامزن ہیں۔ قاہرہ کی جانب سے اہل غزہ کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے کے امریکی منصوبے کی مخالفت کی جا رہی ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات گذشتہ چند عشروں میں کشیدہ ترین صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ کسی صورت غزہ سے فلسطینی مہاجرین کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کی نظر میں اس منصوبے کی حمایت کا مطلب فلسطین کاز ختم کرنے کی سازش میں شریک ہونا ہے۔ اسی طرح السیسی نے خبردار کیا ہے کہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید عدم استحکام اور ٹکراو کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
 
دوسری طرف امریکہ مصر پر غزہ سے فلسطینی مہاجرین قبول کرنے کے لیے دباو ڈال رہا ہے۔ کچھ امریکی حکام نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ اگر مصر اس منصوبے میں تعاون نہیں کرتا تو اس کی مالی امداد بند کر دی جائے گی۔ قاہرہ نے ان دھمکیوں پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ مصری حکام کا خیال ہے کہ امریکہ ان اقدامات کے ذریعے مصر پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کر رہا ہے اور یوں وہ مصر کے قومی مفادات کی بے احترامی کر رہا ہے۔ بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ موجود بحران مصر کے لیے امریکی تسلط سے آزاد ہو کر خودمختار ہو جانے کا تاریخی موقع ہے۔ ان کی نظر میں مصر خودمختار اور زیادہ متنوع خارجہ پالیسی اختیار کر کے اپنے قومی مفادات کا بہتر انداز میں تحفظ کر سکتا ہے۔ مصر، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں پیدا ہونے والا موجودہ بحران خطے میں طاقت کے توازن اور سیاسی مساواتوں میں گہری تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات صیہونی رژیم کی نظر میں کی جانب سے منصوبے کی کرنے کی مصر کی ہے اور رہا ہے کے لیے مصر کے کیا ہے دیا ہے کہ مصر

پڑھیں:

پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

251102-09-4

 

محمد مطاہر خان

پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔

1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔

اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔

وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔

بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔

محمد مطاہر خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • لاہور: جنسی تعلقات سے انکار پر خاتون کو قتل کرنے والا ملزم گرفتار
  • ٹھٹھہ: بریگیڈیئر (ر)خادم جتوئی ، سابق سیکرٹری صحت ڈاکٹر نسیم غنی ودیگر فری میڈیکل کیمپ کا دورہ کررہے ہیں
  • پاکستانی سفیر کی سعودی شوریٰ کونسل کے سپیکر سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • رجب بٹ کی والدہ کا بیٹے کے مبینہ ناجائز تعلقات کا دفاع
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
  • اسرائیل جنگ بندی ختم کرنے کے بہانے تلاش کررہا ہے: اردوان