Islam Times:
2025-06-18@11:15:26 GMT

کیمپ ڈیوڈ کی موت

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

کیمپ ڈیوڈ کی موت

اسلام ٹائمز: مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں تناو تصویر کا صرف ایک رخ ہے جبکہ مصر اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی شدید کشیدگی کی جانب گامزن ہیں۔ قاہرہ کی جانب سے اہل غزہ کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے کے امریکی منصوبے کی مخالفت کی جا رہی ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات گذشتہ چند عشروں میں کشیدہ ترین صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ کسی صورت غزہ سے فلسطینی مہاجرین کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کی نظر میں اس منصوبے کی حمایت کا مطلب فلسطین کاز ختم کرنے کی سازش میں شریک ہونا ہے۔ اسی طرح السیسی نے خبردار کیا ہے کہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید عدم استحکام اور ٹکراو کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تحریر: رسول قبادی
 
مغربی ایشیا خطہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے نظریات کی تلاطم خیز تجربہ گاہ ہے۔ یہ خطہ ایک بار پھر ایسی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے جنہوں نے دیرینہ نظریات اور مفروضات کو چیلنج کر ڈالا ہے۔ گذشتہ چند دنوں سے مصر اور اسرائیل کے تعلقات عالمی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جنہوں نے تقریباً نصف صدی پہلے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ انجام دیا تھا۔ اب دونوں کے درمیان عدم اعتماد، تناو اور حتی جنگ کی دھمکیوں جیسی فضا چھا چکی ہے جس نے کیمپ ڈیوڈ کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ حقیقت عیاں کر دی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم سے کوئی بھی امن معاہدہ پائیدار نہیں ہو سکتا۔ حقیقت پسندانہ مکتب فکر کی روشنی میں ایک اہم اصول مدمقابل کی نیتوں کا غیر یقینی ہونا ہے۔ یہ غیر یقینی صورتحال عدم اعتماد کو جنم دیتی ہے اور حکومتوں کو فوجی طاقت میں اضافے کی ترغیب دلاتی ہیں۔ یہ اصول حتی مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات پر بھی صادق آتا ہے۔
 
کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 1978ء میں انجام پایا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں مصر، غاصب صیہونی رژیم کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔ لیکن کمیپ ڈیوڈ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا امن ہمیشہ چیلنجز کا شکار رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین، سرحدی تنازعات اور خطے میں طاقت کا بدلتا توازن وہ وجوہات ہیں جنہوں نے امن کو خطرے کا شکار کیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی انجام پانے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ فوجی جارحیت نے مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ مصر کی نظر میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی نے اس ملک کو نئے سیکورٹی خطرات سے روبرو کر دیا ہے۔ دوسری طرف صیہونی فوج کی جانب سے غزہ اور مصر کی مشترکہ سرحد پر فلاڈیلفیا راہداری تک پیشقدمی نے بھی قاہرہ کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔
 
فلاڈیلفیا راہداری ایک اسٹریٹجک علاقہ ہے جو ہمیشہ سے مصر کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس علاقے پر صیہونی فوج کے قبضے کا مطلب غزہ کی سرحدوں پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے جس کے باعث اس علاقے میں مصر کی رسائی بھی محدود ہو گئی ہے۔ قاہرہ اس بات پر پریشان ہے کہ اسرائیل اس علاقے پر کنٹرول کو فلسطینیوں پر دباو ڈال کر انہیں جبری طور پر مصر جلاوطن کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ یہ بات مصر کے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ مصر حکومت اسے اپنے لیے سیکورٹی خطرہ سمجھتی ہے اور یوں اس کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ مصر نے ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیلی سرحدوں پر فوجی موجودگی بڑھا دی ہے۔ ٹینکوں، جنگی طیاروں اور جدید فضائی دفاعی نظام کی تعیناتی صیہونی رژیم کے لیے یہ واضح پیغام ہے کہ مصر اپنے قومی مفادات کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
 
دوسری طرف صیہونی رژیم مصر کے ان اقدامات کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہے اور انہیں مصر کی جانب سے جنگ کے ذریعے خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کرنے کی علامت قرار دیتی ہے۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے مصر کی فوجی نقل و حرکت کو توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے اور اس بارے میں مختلف رپورٹس اور تجزیات شائع کر کے خوف کی فضا پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کچھ صیہونی ذرائع ابلاغ نے حتی اسرائیل کی جانب سے مصر پر حملہ کرنے میں پہل (preemptive attack) کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی جنگ نے تناو کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور غلط فہمی کے نتیجے میں نادرست اقدام کا احتمال بھی بڑھ گیا ہے۔ صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ کئی عشروں بعد اسرائیل اور مصر کے درمیان تعلقات پر کالے بادل چھا گئے ہیں۔
 
مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں تناو تصویر کا صرف ایک رخ ہے جبکہ مصر اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی شدید کشیدگی کی جانب گامزن ہیں۔ قاہرہ کی جانب سے اہل غزہ کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے کے امریکی منصوبے کی مخالفت کی جا رہی ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات گذشتہ چند عشروں میں کشیدہ ترین صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ کسی صورت غزہ سے فلسطینی مہاجرین کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کی نظر میں اس منصوبے کی حمایت کا مطلب فلسطین کاز ختم کرنے کی سازش میں شریک ہونا ہے۔ اسی طرح السیسی نے خبردار کیا ہے کہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید عدم استحکام اور ٹکراو کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
 
دوسری طرف امریکہ مصر پر غزہ سے فلسطینی مہاجرین قبول کرنے کے لیے دباو ڈال رہا ہے۔ کچھ امریکی حکام نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ اگر مصر اس منصوبے میں تعاون نہیں کرتا تو اس کی مالی امداد بند کر دی جائے گی۔ قاہرہ نے ان دھمکیوں پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ مصری حکام کا خیال ہے کہ امریکہ ان اقدامات کے ذریعے مصر پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کر رہا ہے اور یوں وہ مصر کے قومی مفادات کی بے احترامی کر رہا ہے۔ بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ موجود بحران مصر کے لیے امریکی تسلط سے آزاد ہو کر خودمختار ہو جانے کا تاریخی موقع ہے۔ ان کی نظر میں مصر خودمختار اور زیادہ متنوع خارجہ پالیسی اختیار کر کے اپنے قومی مفادات کا بہتر انداز میں تحفظ کر سکتا ہے۔ مصر، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں پیدا ہونے والا موجودہ بحران خطے میں طاقت کے توازن اور سیاسی مساواتوں میں گہری تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات صیہونی رژیم کی نظر میں کی جانب سے منصوبے کی کرنے کی مصر کی ہے اور رہا ہے کے لیے مصر کے کیا ہے دیا ہے کہ مصر

پڑھیں:

عالمی مارچ برائے غزہ، پاکستان کے عوام کا مکمل یکجہتی کا اعلان

اسلام ٹائمز: کراچی میں لگائے گئے گلوبل مارچ ٹو غزہ یکجہتی کیمپ کے شرکاء سے اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر صابر ابومریم، ڈاکٹر اصغر دشتی، ڈاکٹر سدرہ، محفوظ یار خان ایڈوکیٹ، قاضی زاہد حسین، علامہ عقیل انجم قادری، اسرار عباسی، پیر خرم شاہ، محمد حسین محنتی، مسیحی رہنما پاسٹر ایمانئویل، یونس بونیری، جمشید حسین، چوہدری محمد طارق، نوید عالم، پیر معاذ نظامی سمیت دیگر نے خطاب کیا۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ دنیا بھر سے آنے والے آزادی پسندوں کے کاروان برائے غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لئے کراچی پریس کلب پر کیمپ لگایا گیا جس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین سمیت سول سوسائٹی، سوشل ورکرز اور انسانی حقوق کے نمائندوں نے شرکت کی۔ کیمپ کا انعقاد فلسطین فائونڈیشن پاکستان اور وفاقی جامعہ اردو سمیت تھنک ٹینک کیپ کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا تھا۔ یکجہتی کیمپ کا مقصد گلوبل مارچ ٹو غزہ کے شرکاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا تھا۔ واضح رہے کہ فریڈم فلوٹیلا کے بعد الجیریا سے چلنے والا زمینی کاروان برائے غزہ مختلف ممالک سے ہوتا ہوا مصر پہنچ چکا ہے جہاں سے غزہ کی طرف رفح کراسنگ جانا ہے تاہم مصر کی حکومت نے اس امدادی کاروان کو طاقت اور جبر کے ذریعہ روک دیا ہے اور آزادی پسند کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گلوبل مارچ ٹو غزہ یکجہتی کیمپ کے شرکاء سے جماعت اسلامی کے اسد اللہ بھٹو، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے ڈاکٹر صابر ابومریم، وفاقی اردو یونیورسٹی کے ڈاکٹر اصغر دشتی، ڈاکٹر سدرہ، سابق رکن سندھ اسمبلی محفوظ یار خان ایڈوکیٹ، پاکستان مسلم لیگ نواز کے قاضی زاہد حسین، جمعیت علماء پاکستان کے علامہ عقیل انجم قادری، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسرار عباسی، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے پیر خرم شاہ، محمد حسین محنتی، مسیحی رہنما پاسٹر ایمانئویل، عوامی نیشنل پارٹی کے یونس بونیری، ہیومن رائٹس کونسل کے جمشید حسین، پی پی پی کونسلر چوہدری محمد طارق، پاکستان عوامی تحریک کے نوید عالم، پیر معاذ نظامی سمیت دیگر نے خطاب کیا۔

یکجہتی غزہ مارچ کیمپ کے شرکاء نے غزہ کے امدادی کاروان کے لئے راستے روکے جانے پر مصری حکومت کی شدید مذمت کی اور اسکا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا۔ یکجہتی کیمپ کے شرکاء نے گذشتہ دنوں ایران پر ہونے والے اسرائیلی دہشت گردانہ حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ایران پر اسرائیلی جارحیت کو کھلی دہشت گردی قرار دیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ غزہ میں نسل کشی جاری ہے، امریکہ اور اسرائیل غزہ کے لوگوں کو بھوک کے ذریعہ قتل کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ امداد کے نام پر گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے غزہ میں جاری جارحیت پر عالمی برداری کی خاموشی اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ مسلم دنیا کے حکمران غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کریں۔ مقررین نے کہا کہ پاکستان کے عوام ایران کے ساتھ ہیں، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت مسئلہ فلسطین سمیت ایران کے معاملہ پر بھرپور حمایت کرے اور عملی اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ گلوبل مارچ ٹو غزہ یکجہتی کیمپ میں علامہ عبد الوحید یونس، قادر مسجد کے صدر مفتی عبد المجید، مفتی علی مرتضی سمیت روشن سومرو، ڈاکٹر افتخار طاہری، مجاہد چنا، ڈاکٹر ثمرین، سلیم صالح بزدرا، واحد بلوچ، گل محمد منگی، عطاء عمرانی، مخدوم ایوب قریشی، ڈاکٹر گوہر مہر سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ) https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial

متعلقہ مضامین

  • بھارت کا مسلہ کشمیر پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی قبول کرنے سے دوٹوک انکار
  • عالمی مارچ برائے غزہ، پاکستان کے عوام کا مکمل یکجہتی کا اعلان
  • بھارت اور افغانستان سے سوشل اکاؤنٹس کا پاک-ایران تعلقات کے خلاف پروپیگنڈا بے نقاب
  • روس کی اسرائیل اور ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش
  • ایران اسرائیل جنگ اور فیلڈ مارشل کا دورہ امریکا
  • غزہ میں خوراک کے متلاشی نہتے شہریوں پر اسرائیلی حملے، 40 شہید
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • قومی کرکٹرز کا اسکلز ڈیولپمنٹ کیمپ لاہور میں شروع
  • سعودی ولی عہد اور ایرانی سدر کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ
  • چین اور وسطی ایشیا ممالک کے درمیان اقتصادی و تجارتی تعلقات کا مسلسل فروغ