غزہ کے حوالے سے عرب رہنماؤں کا متبادل منصوبہ ابھی نہیں دیکھا،ڈونلڈ ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے عرب رہنماؤں کا وہ مجوزہ منصوبہ نہیں دیکھا جو غزہ میں جنگ بندی کے بعد زیر بحث آیا ہے۔
وائس آف امریکا کے مطابق صحافیوں سے گفتگو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جب میں معاہدہ ایک بار دیکھ لوں گا تو اس کے حوالے سے آگاہ کر سکوں گے۔
مجوزہ منصوبہ کیا ہے؟واضح رہے کہ عرب رہنماؤں کے مجوزہ منصوبے کے تحت غزہ میں بسنے والے فلسطینیوں کو یہاں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا جب کہ بحیرۂ روم کے ساحل پر موجود اس 41 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کا انتظام بھی فلسطینی خود سنبھالیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: یوکرین امن مذاکرات کی میزبانی پر پیوٹن کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی سعودی عرب کا شکریہ
امریکی صدر نے رواں ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ وہ غزہ سے تمام (تقریباً 20 لاکھ) فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک اردن اور مصر میں منتقل کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد امریکا اس علاقے کا انتظام سنبھال کر اس کی تعمیر و ترقی کرے گا۔ تاہم عرب ممالک نے امریکی صدر کے اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔
رواں ہفتے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ اگر علاقائی رہنما کوئی جوابی پیش کش سامنے رکھیں تو اس منصوبے کو مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
مصر، اردن، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے سفارت کار جمعے کو سعودی دارالحکومت ریاض میں ملاقات کریں گے۔
عرب رہنماؤں کی ملاقات میں زیربحث آنے والے معاملاتعرب رہنماؤں کی ملاقات میں غزہ کی تعمیر نو کے معاملے پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ مصر کا غزہ کی تعمیر نو کے لیے 20 ارب ڈالر جمع کرنے کا منصوبہ بھی زیرِ بحث آئے گا جو تین برس میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے جمع کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ امریکا، قطر اور مصر کی ثالثی کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ ماہ 3 مراحل پر مشتمل جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔
مزید پڑھیے: ’ان کے پاس ہم سے زیادہ پیسہ ہے،‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کو فنڈنگ بند کردی
جنگ بندی کے تحت پہلے مرحلے میں حماس کو 33 یرغمال جب کہ اسرائیل کو سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کرنے ہیں جس کے بعد فریقین کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات ہوں گے۔
غزہ جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔ امریکا، یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
حماس کی کارروائی کے بعد غزہ پر قہر ڈھاتے ہوئے اسرائیلی فوج نے 48 ہزار 291 فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ جب کہ ایک لاکھ 11 ہزار 722 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سرکاری میڈیا آفس نے اپنی ہلاکتوں کی تعداد کو کم از کم 61 ہزار 709 بتایا ہے کیوں کہ اس میں ان افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے جو ملبے تلے دبے اور اب تک لاپتا ہیں اور وہ مردہ تصور کیے جا رہے ہیں۔
فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں، اماراتدریں اثنا متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے امریکا کے وزیر خارجہ مارکو روبیو کو بتایا ہے کہ وہ امارات فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں۔ مارکو روبیو نے بدھ کو ابوظہبی کا دورہ کیا جہاں انہوں نے امارات کے صدر سے ملاقات کی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق مارکو روبیو کی اماراتی صدر سے ملاقات ان کے اس کثیر الملکی دورے کا حصہ تھی جس میں انہوں نے اسرائیل اور سعودی عرب کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی تھی۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان 19 جنوری سے شروع ہونے والی جنگ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے قریب ہے۔
یرغمالوں کی رہائیاس سے قبل حماس کے ایک رہنما خلیل الحیا نے ایک ریکارڈڈ بیان میں اعلان کیا تھا کہ ان کی تنظیم ہفتے کو 6 زندہ اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کرنے اور جمعرات کو 4 کی لاشیں دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ، فرانس نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ مسترد کردیا
یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں طویل عرصے سے مطلوب موبائل ہومز اور تعمیراتی سامان کی اجازت دینے کے بعد سامنے آیا ہے۔
ایک اسرائیلی عہدے دار کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے یرغمالوں کی رہائی میں تیزی لانے کے لیے غزہ میں موبائل ہومز اور تعمیراتی سامان کی اجازت دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔
گزشتہ ہفتے حماس نے موبائل ہوم کے مسئلے اور جنگ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید یرغمالوں کی رہائی روکنے کی دھمکی دی تھی۔
غزہ میں جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ مارچ کے شروع میں ختم ہونے جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت اب تک حماس نے 24 یرغمالوں جب کہ اسرائیل نے ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔
جنگ بندی کا دوسرا مرحلہاسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے اور زیادہ مشکل مرحلے پر مذاکرات ہونے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ لڑائی میں طویل تعطل اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی صورت میں ہی باقی یرغمالوں کو رہا کرے گی۔
دوسری جانب اسرائیل غزہ میں حماس کے کسی بھی طرح کے عسکری یا حکومتی کردار کو ختم کرنے کے اپنے مقصد پر قائم ہے۔
یہ بھی پڑھیے: حماس کا ٹرمپ منصوبے کیخلاف مصر و اردن کے مؤقف کا خیر مقدم
اسرائیل کے وزیرِ خارجہ غدعون ساعر نے منگل کو کہا تھا کہ اسرائیل دوسرے مرحلے کی تفصیلات پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت یہ بات چیت 2 ہفتے پہلے شروع ہونی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا حماس حماس اسرائیل جنگ بندی عرب رہنما غزہ غزہ متبادل منصوبہ فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا حماس اسرائیل جنگ بندی فلسطین فلسطینیوں کو اسرائیل اور مارکو روبیو جنگ بندی کے ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان انہوں نے حماس کے کے لیے غزہ کی تھا کہ کے تحت کے بعد
پڑھیں:
لبنان کا رواں برس ہی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اگست 2025ء) لبنان کی حکومت نے فوج کو ایک ایسا منصوبہ تیار کرنے کا کام سونپا ہے جس میں رواں برس کے اواخر تک صرف ریاستی اداروں کے پاس ہی ہتھیار ہوں گے۔
اس طرح کے اقدام کا مقصد ایران کی حمایت یافتہ شیعہ سیاسی جماعت اور لبنان میں عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کو مؤثر طریقے سے غیر مسلح کرنا ہے۔
منگل کے روز کا کابینہ کا فیصلہ امریکہ کی طرف سے شدید دباؤ کے بعد آیا ہے، جس میں واشنگٹن نے گروپ کو غیر مسلح کرنے کے لیے کہا ہے۔
یہ فیصلہ نومبر 2024 کی جنگ بندی کے نفاذ کے ایک حصے کے طور پر بھی ہے، جس کے تحت اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک سال سے زیادہ کی دشمنی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس جنگ بندی کے معاہدے کے تحت لبنان میں صرف فوج یا داخلی سلامتی سے متعلق حکام کے پاس ہی ہتھیار ہونے چاہئیں۔
(جاری ہے)
لبنان کے وزیر اعظم نواف سلام نے کہا ہے کہ حکومت نے لبنانی فوج کو "اس سال کے اختتام سے پہلے" ہی فوج اور دیگر ریاستی فورسز تک ہتھیاروں کو محدود کرنے کے لیے ایک عملی منصوبہ ترتیب دینے کا کام سونپا ہے۔
تقریباً چھ گھنٹے تک جاری رہنے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد نواف سلام نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس منصوبے کو اگست کے اواخر تک بحث اور منظوری کے لیے کابینہ کے سامنے پیش کیا جانا ہے۔
حزب اللہ کے پاس ہتھیار کیوں ہیں؟حزب اللہ لبنان کی ایک اہم سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ ہی عسکریت پسند گروپ بھی ہے جسے امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور کئی دیگر مغربی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
یہ ایسا واحد گروپ ہے، جس نے سن 1975-1990 کی خانہ جنگی کے بعد بھی اپنے آپ کو مسلح رکھا۔ یہ لڑائی اسرائیل کے خلاف "مزاحمت" کے نام پر شروع ہوئی تھی۔
حزب اللہ ایک طویل عرصے تک لبنان کی سب سے مضبوط فوجی قوت بھی تھی، جو کہ ایران سے فنڈنگ، تربیت اور ہتھیاروں کی بدولت ملک کی فوج سے بھی زیادہ طاقتور تھی۔ دنیا میں اس گروپ کو سب سے زیادہ ہتھیاروں سے لیس غیر ریاستی عنصر کے طور پر مانا جاتا رہا ہے۔
لیکن اسرائیل کے ساتھ جنگ نے حزب اللہ کو بری طرح کمزور بھی کر دیا، جس نے اس کے ہتھیاروں کو تباہ کر دیا اور اس کے بہت سے سیاسی اور فوجی رہنما ہلاک کر دیے گئے۔
کیا حزب اللہ غیر مسلح ہونے پر راضی ہو گی؟حزب اللہ کے رہنما نعیم قاسم نے منگل کے روز ہی کہا کہ جب تک اسرائیلی حملے جاری رہیں گے، اس وقت تک گروپ غیر مسلح نہیں ہو گا۔
کابینہ کے اجلاس کے دوران بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "عمل درآمد کے لیے پیش کردہ کسی بھی ٹائم ٹیبل کا نفاذ اسرائیل کی جارحیت کے ساتھ اتفاق سے نہیں کیا جا سکتا۔
"قاسم نے کہا، "مسئلہ سادہ سا ہو گیا ہے: ہمیں ہتھیار دے دو، لیکن کوئی قومی سلامتی نہ دو۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم اسے قبول نہیں کرتے، کیونکہ ہم خود کو لبنان کا بنیادی جزو سمجھتے ہیں۔"
لبنان کی شیعہ مسلم کمیونٹی میں حزب اللہ کو اب بھی نمایاں حمایت حاصل ہے۔
لیکن گزشتہ برس کے اوائل میں عرب بیرومیٹر کی طرف سے کی گئی رائے شماری سے معلوم ہوا کہ "لبنان میں حزب اللہ کے نمایاں اثر و رسوخ کے باوجود، اب نسبتاً کم لبنانی اس کی حمایت کرتے ہیں۔
" اسرائیل لبنان پر حملے کیوں کر رہا ہے؟حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کئی دہائیوں سے سرحد پار جھڑپیں ہوتی رہی ہیں اور اسرائیل نے نومبر 2024 کی جنگ بندی کے باوجودلبنان پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس کا کہنا ہے کہ یہ حملے حزب اللہ کے ہتھیاروں کے ڈپو اور جنگجوؤں پر مرکوز ہیں۔ وہ اس گروپ پر اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ تشکیل دینے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتا ہے۔
اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ جب تک اس گروپ کو غیر مسلح نہیں کیا جاتا لبنان پر وہ اپنے حملے جاری رکھے گا۔
ادارت: جاوید اختر