غزہ کے مستقبل پر ابہام
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے دوسرے مرحلے میں مستقل جنگ بندی کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا ایک ساتھ تبادلہ کرنے کی پیش کش کی ہے۔ دوسری جانب چینی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے دو ریاستوں، فلسطین اور اسرائیل کے قیام کی قرارداد کو منظور ہوئے ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن فلسطینیوں کے پاس اب بھی اپنا ملک نہیں ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کا حالیہ معاہدہ بہت مشکل سے طے پایا ہے، غزہ میں فائر بندی معاہدے کے مستقبل پر ابہام کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
بالخصوص دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات ابھی تک شروع نہیں ہو سکے ہیں۔ پندرہ ماہ سے جاری جنگ کسی نہ کسی طرح تھمی تو ہے، لیکن آنے والے دنوں اور ہفتوں میں جو کچھ سامنے آئے گا اس کے بیج ماضی میں بوئے گئے تھے۔کئی دہائیوں سے مغربی ذرائع ابلاغ کے ادارے، ماہرین تعلیم، فوجی ماہرین اور عالمی رہ نما قضیہ فلسطین و اسرائیل کو پیچیدہ اور تعطل کا شکار قرار دیتے رہے ہیں۔
عرب ملکوں اور بہت سے فلسطینیوں کو بھی یہ شبہ ہے کہ اسرائیل اس موقع کو ایک الگ ریاست کے فلسطینیوں کے مطالبے کو ختم کرنے کے لیے، آبادی کے تناسب میں زبردستی ایک مستقل تبدیلی کے واسطے استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ تمام تاریخی مثالیں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ جب بھی فلسطینیوں کو فلسطینی علاقے سے نکلنے پر مجبورکیا گیا انھیں کبھی واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور مصر غزہ میں اس نسلی تطہیرکے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتا اور ان عوامل کے سبب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آنے والے دنوں کا منظرنامہ کیا بنے گا۔
مصر اور اردن کی سرحدیں غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے سے ملتی ہیں اور دونوں ہی ملک فلسطینیوں کو پناہ دینے سے انکار کرچکے ہیں۔ دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کا مستقل بنیادوں پر اخراج چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں کی ایک الگ ریاست کے مطالبے کو ختم کیا جاسکے۔ اردن میں پہلے ہی بڑی تعداد میں فلسطینی آباد ہیں۔
اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی نسلوں کی تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے اور ان میں سے زیادہ تر مغربی کنارے، غزہ، لبنان، شام اور اردن میں کیمپوں وغیرہ میں مقیم ہیں۔ فلسطینیوں کی حالیہ تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اپنے گھروں اور علاقوں سے بے دخلی اس خوف کی بنیاد دکھائی دیتی ہے کہ دوسرے عرب ملک انھیں لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی معاہدے کے بعد غزہ کے رہائشیوں کو یہ اُمید تھی کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے لیکن ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
البتہ ایسا نظر آ رہا ہے کہ رکاوٹیں دورکرنے کے سلسلے میں وساطت کاروں کی کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں۔ ایک اسرائیلی سیاسی ذمے دار نے تصدیق کی ہے کہ ملبہ اٹھانے کے لیے اس مشینری کے داخلے کی اجازت معاہدے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے سلسلے میں ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی صورتحال ’’ تباہ کن‘‘ ہے۔ جنگ سے پہلے بھی غزہ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت میں رہتا تھا۔ تقریباً نصف آبادی بے روزگار تھی 46.
اُردو زبان میں یہ محاورہ مستعمل ہے کہ ’’ چشمِ فلک‘‘ نے دیکھا کہ دلی میں کیا کیا تباہی ہوئی تھی، تاہم اکیسویں صدی میں ’’چشمِ بشر‘‘ نے غزہ میں ہونے والی تباہی و بربادی کو شب و روز لائیو دیکھا۔ بالآخر غزہ میں 15 ماہ کے بعد مرحلہ وار سیز فائر کا اعلان کیا گیا، مگر مکمل جنگ بندی تک ابھی کئی کٹھن مقامات آئیں گے۔ اس قتل و غارت گری نے بڑی بڑی ٹیکنیکل اور ڈیجیٹل ترقی کرنے والی دنیا کو بتا دیا ہے کہ آج کا طاقتور انسان بھی اُتنا ہی وحشی اور درندہ صفت ہے جتنا غاروں اور جنگلوں میں رہنے والا تھا۔
گزشتہ 15 ماہ کے دوران اسرائیل نے ٹنوں وزنی بم جہازوں کے ذریعے گرا کر اور ٹینکوں و توپوں سے گولہ باری کر کے کم از کم 48 ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا جن میں سے آدھی تعداد بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی ہے۔ ایک لاکھ 10 ہزار کے قریب غزہ کے شہری شدید زخمی ہیں۔ اسی طرح 23 لاکھ کی آبادی میں سے 20 لاکھ شہری جانیں بچانے کے لیے شمالی غزہ سے نکل کر در بدرکی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
تقریباً 90 فیصد اسپتال تباہ ہو چکے ہیں‘ اکّا دُکّا باقی میڈیکل سینٹرز بھی ادویات و آلات سے محروم ہو چکے ہیں۔ صد آفرین ہے فلسطینی و غیر ملکی ڈاکٹروں اور نرسوں پرکہ دم توڑتی ہوئی سہولتوں کے باوجود وہ زندگی کی آس ٹوٹنے نہیں دے رہے اور کسی نہ کسی طرح مریضوں کا اپنی قوتِ ارادی سے علاج کر رہے ہیں۔ غزہ کے تمام تعلیمی ادارے، سڑکیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ایک بار پھر کُل عالم نے براہِ راست اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بڑی طاقتوں کی پروردہ اور مشرقِ وسطیٰ میں پلانٹڈ صہیونی ریاست کتنی ظالم اور سفاک ہے۔ دنیا پر یہ بھی واضح ہوا کہ اسرائیل کسی بین الاقوامی قانون اور ضابطے کو نہیں مانتا۔ وہ امریکی و یورپی حکومتوں کی شہ پر اپنی من مانی کرتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے عزائم صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ وہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
اس توسیعی اسرائیلی ریاست میں شام، لبنان، اُردن اور خیبر تک کے علاقے شامل ہیں۔ صہیونی ریاست نے اس معاملے میں انتہائی دیدہ دلیری سے کام لیتے ہوئے گریٹر اسرائیل کا نقشہ اپنی سرکاری ویب سائٹ پر بھی جاری کردیا ہے۔ موجودہ دگرگوں حالات میں حماس نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اچھی شرائط پر سیز فائرکیا ہے۔ مکمل فائر بندی کے بعد ہی اہلِ غزہ کی وسیع تر مشاورت سے حماس مستقبل کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرے کہ جس میں جوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی ہو۔
ایسے میں امریکا جیسی سپر پاورکی قیادت کو دانشمندی اور بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے، یہ اَمر افسوسناک بلکہ تشویشناک ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے ظلم پر اِس سے بازپرس کرنے کی بجائے اُلٹا فلسطینیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کی اپنے گھروں سے جبری بے دخلی کا منصوبہ پیش کردیا ہے، ابھی تو ان کی واپسی بھی درست طریقے سے شروع نہیں ہوئی ہے، تباہ حال فلسطینیوں نے ٹھیک طرح سے سکون کا سانس بھی نہیں لیا، ابھی تو ملبے سے لاشیں نکالی جا رہی ہیں کہ ان کو ایک اور آزمائش میں ڈالنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ تباہ حال فلسطینی طویل جنگ کے بعد، 48 ہزار شہادتوں اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہونے کے باوجود اپنی زندگی دوبارہ سے شروع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی خاص اچھی نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدر جوبائیڈن کا حکم معطل کرتے ہوئے اسرائیل کو دو ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی فراہمی کی اجازت دے دی ہے، اسرائیل ان بموں کو جنوبی غزہ کی پٹی میں واقع رفع کے مقام پر حملے میں استعمال کرنا چاہتا تھا، کیونکہ وہاں 14 لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ امریکا ویسے ہی گزشتہ سال میں سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے، اسرائیل کو اس نے اربوں ڈالرکا اسلحہ بیچا ہے اور اب وزنی بموں کی فراہمی کی اجازت دینے سے تو ان کے اپنے امن و سلامتی کے فلسفے کی نفی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس اقدام سے اسرائیلی وزیراعظم کے حوصلے بھی کافی بلند ہوئے ہیں اور انھیں نئی انتظامیہ کی حمایت کی امید بھی پیدا ہو گئی ہے۔
اصولی طور پر تو جنگ بندی کے حالیہ معاہدے کے بعد مفاہمت اور امن کا عمل تیزی سے آگے بڑھانا چاہیے تھا، امریکا اسرائیل کی پشت پناہی سے پیچھے ہٹ جاتا، مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی کا بندوبست کرتا، باہمی مشاورت کے ساتھ تعمیر نو کا ایسا منصوبہ پیش کرتا جو سب کے لیے قابل قبول ہوتا اور اس سے مزید کوئی تنازعہ کھڑا ہونے کا اندیشہ نہ پیدا ہوتا۔ صدر ٹرمپ کو مصر اور اْردن یا دیگر عرب ممالک پر دباؤ ڈال کر اپنی بات منوانے کی بجائے کوئی اور راستہ ڈھونڈنا چاہیے۔ امریکا امن و سلامتی کا علمبردار بن کر دوبارہ عظیم ہونے کی خواہش رکھتا ہے تو عملی طور پر اس پر عملدرآمد بھی کرے۔
اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کو اپنے ساتھ ساتھ امریکا کا دشمن بھی قرار دے رہے ہیں، معاملہ حقِ دفاع کی حمایت سے آگے بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ امریکی صدر اپنی اسرائیل نواز اور فلسطین مخالف پالیسی کا از سر نو جائزہ لیں، مجوزہ منصوبہ خود اْن کی اپنی جنگیں بند کرانے کے اعلان کی نفی کرتا نظر آ رہا ہے۔ ظلم، زیادتی اور دھونس کے سر پر ہونے والے فیصلے دیرپا ثابت نہیں ہوتے، اسرائیل فلسطین تنازعے کے مستقل حل کے لیے سب کو غیر جانبداری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے یہ بنیادی شرط ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو اسرائیل کے معاہدے کے کی اجازت نہیں ہو کے ساتھ کرنے کے رہے ہیں ہے کہ ا ا ہے کہ اور اس اور ان ہیں کہ کے لیے غزہ کے کے بعد
پڑھیں:
اسرائیل کیساتھ جنگ کیلئے تیار، پر امن مقاصد کیلئے جوہری پروگرام جاری رہے گا، ایرانی صدر
تہران(انٹرنیشنل ڈیسک)ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جنگ کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں، انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ تہران اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے جاری رکھے گا۔
قطری نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر پزشکیان نے کہا کہ ہم کسی بھی نئے اسرائیلی فوجی اقدام کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، اور ہماری مسلح افواج ایک بار پھر اسرائیل کے اندر گہرائی میں حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ایرانی صدرنے کہا کہ وہ اس جنگ بندی پر انحصار نہیں کر رہے جو 12 روزہ جنگ کے اختتام پر ہوئی تھی۔
مسعود پزشکیان نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں ہیں، اسی لیے ہم نے خود کو ہر ممکنہ منظرنامے اور کسی بھی ممکنہ ردعمل کے لیے تیار کیا ہے، اسرائیل نے ہمیں نقصان پہنچایا، اور ہم نے بھی اسے شدید ضربیں لگائی ہیں، لیکن وہ اپنے نقصانات کو چھپا رہا ہے۔
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ اسرائیل کے حملوں (جن میں اعلیٰ فوجی شخصیات اور جوہری سائنسدانوں کی اموات اور جوہری تنصیبات کو نقصان شامل تھا) کا مقصد ایران کی قیادت کو ختم کرنا تھا، لیکن وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
جون کے مہینے میں اسرائیل کے حملوں میں ایران میں 900 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی، جب کہ اسرائیل میں کم از کم 28 افراد مارے گئے اس سے پہلے کہ 24 جون کو جنگ بندی عمل میں آئی۔
افزودگی کا پروگرام جاری رہے گا
صدرپزشکیان نے کہا کہ ایران بین الاقوامی مخالفت کے باوجود یورینیم کی افزودگی کا پروگرام جاری رکھے گا، اور اس کی جوہری صلاحیتوں کی ترقی بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار میں کی جائے گی۔
ایرانی صدرنے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں اور ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، ہم جوہری ہتھیاروں کو مسترد کرتے ہیں اور یہ ہمارا سیاسی، مذہبی، انسانی اور تذویراتی مؤقف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے مستقبل کے کسی بھی مذاکرات ’ون-ون‘ منطق کے مطابق ہونے چاہئیں، اور ہم دھمکیوں یا جبر کو قبول نہیں کریں گے۔
پزشکیان نے کہا کہ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ ایران کا جوہری پروگرام ختم ہو چکا ہے، محض ایک فریب ہے، ہماری جوہری صلاحیتیں ہمارے سائنسدانوں کے ذہنوں میں ہیں، تنصیبات میں نہیں۔
صدرپزشکیان کے بیانات ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ان بیانات سے بھی ہم آہنگ تھے جو انہوں نے پیر کے روز امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں دیے۔
عراقچی نے کہا تھا کہ تہران کبھی بھی یورینیم کی افزودگی کا پروگرام ترک نہیں کرے گا، لیکن وہ ایک ایسے مذاکراتی حل کے لیے تیار ہے، جس میں وہ اس پروگرام کو پرامن ثابت کرنے کی ضمانت دے گا اور اس کے بدلے پابندیاں ہٹائی جائیں گی۔
اسرائیل نے ایرانی قیادت کو نشانہ بنایا
پزشکیان نے 15 جون کو تہران میں سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران اسرائیل کی جانب سے خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر بھی بات کی، جس میں انہیں معمولی زخم آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیلی کمانڈرز کا ایک حصہ تھا تاکہ ایرانی قیادت کو نشانہ بنا کر ملک میں افراتفری پھیلا دی جائے اور حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، لیکن یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی حملوں کے جواب میں ایران کی جانب سے قطر کے العدید اڈے پر کیے گئے حملے قطر یا اس کے عوام پر حملہ نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ذہن میں کبھی یہ تصور بھی نہیں آیا کہ قطر اور ہمارے درمیان کوئی دشمنی یا رقابت ہو، اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے حملوں کے دن قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کو فون کر کے اپنی پوزیشن واضح کی تھی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ میں صاف اور دیانت داری سے کہتا ہوں کہ ہم نے قطر پر حملہ نہیں کیا، بلکہ اس امریکی اڈے پر حملہ کیا، جس نے ہمارے ملک پر بمباری کی، جبکہ قطر اور اس کے عوام کے لیے ہمارے جذبات ہمیشہ مثبت رہے ہیں۔
یورپی طاقتوں سے مذاکرات بحال ہوں گے
عباس عراقچی نے پیر کو کہا تھا کہ ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم اب بھی یہ جائزہ لے رہی ہے کہ گزشتہ ماہ کے حملوں نے ایران کے افزودہ مواد کو کس حد تک متاثر کیا، اور تہران جلد ہی اس کی تفصیلات عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون بند نہیں کیا، اور اگر ایجنسی دوبارہ معائنہ کار بھیجنے کی درخواست کرے گی تو اسے پرکھا جائے گا۔
آئی اے ای اے کے معائنہ کار اس ماہ کے آغاز میں ایران چھوڑ گئے تھے، جب پزیشکیان نے ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے والا قانون منظور کیا تھا۔
دریں اثنا، ایران، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات جمعہ کو ترکی میں ہونے والے ہیں۔
یورپی فریقین، جو ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے (جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن) کا حصہ تھے، کہہ چکے ہیں کہ اگر ایران نے مذاکرات دوبارہ شروع نہ کیے تو اس پر بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔
Post Views: 4