Express News:
2025-06-09@21:02:42 GMT

غزہ کے مستقبل پر ابہام

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے دوسرے مرحلے میں مستقل جنگ بندی کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا ایک ساتھ تبادلہ کرنے کی پیش کش کی ہے۔ دوسری جانب چینی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے دو ریاستوں، فلسطین اور اسرائیل کے قیام کی قرارداد کو منظور ہوئے ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن فلسطینیوں کے پاس اب بھی اپنا ملک نہیں ہے۔

 ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کا حالیہ معاہدہ بہت مشکل سے طے پایا ہے، غزہ میں فائر بندی معاہدے کے مستقبل پر ابہام کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

بالخصوص دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات ابھی تک شروع نہیں ہو سکے ہیں۔ پندرہ ماہ سے جاری جنگ کسی نہ کسی طرح تھمی تو ہے، لیکن آنے والے دنوں اور ہفتوں میں جو کچھ سامنے آئے گا اس کے بیج ماضی میں بوئے گئے تھے۔کئی دہائیوں سے مغربی ذرائع ابلاغ کے ادارے، ماہرین تعلیم، فوجی ماہرین اور عالمی رہ نما قضیہ فلسطین و اسرائیل کو پیچیدہ اور تعطل کا شکار قرار دیتے رہے ہیں۔

عرب ملکوں اور بہت سے فلسطینیوں کو بھی یہ شبہ ہے کہ اسرائیل اس موقع کو ایک الگ ریاست کے فلسطینیوں کے مطالبے کو ختم کرنے کے لیے، آبادی کے تناسب میں زبردستی ایک مستقل تبدیلی کے واسطے استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ تمام تاریخی مثالیں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ جب بھی فلسطینیوں کو فلسطینی علاقے سے نکلنے پر مجبورکیا گیا انھیں کبھی واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور مصر غزہ میں اس نسلی تطہیرکے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتا اور ان عوامل کے سبب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آنے والے دنوں کا منظرنامہ کیا بنے گا۔

مصر اور اردن کی سرحدیں غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے سے ملتی ہیں اور دونوں ہی ملک فلسطینیوں کو پناہ دینے سے انکار کرچکے ہیں۔ دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کا مستقل بنیادوں پر اخراج چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں کی ایک الگ ریاست کے مطالبے کو ختم کیا جاسکے۔ اردن میں پہلے ہی بڑی تعداد میں فلسطینی آباد ہیں۔

اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی نسلوں کی تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے اور ان میں سے زیادہ تر مغربی کنارے، غزہ، لبنان، شام اور اردن میں کیمپوں وغیرہ میں مقیم ہیں۔ فلسطینیوں کی حالیہ تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اپنے گھروں اور علاقوں سے بے دخلی اس خوف کی بنیاد دکھائی دیتی ہے کہ دوسرے عرب ملک انھیں لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی معاہدے کے بعد غزہ کے رہائشیوں کو یہ اُمید تھی کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے لیکن ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

البتہ ایسا نظر آ رہا ہے کہ رکاوٹیں دورکرنے کے سلسلے میں وساطت کاروں کی کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں۔ ایک اسرائیلی سیاسی ذمے دار نے تصدیق کی ہے کہ ملبہ اٹھانے کے لیے اس مشینری کے داخلے کی اجازت معاہدے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے سلسلے میں ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی صورتحال ’’ تباہ کن‘‘ ہے۔ جنگ سے پہلے بھی غزہ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت میں رہتا تھا۔ تقریباً نصف آبادی بے روزگار تھی 46.

6 فیصد۔ اس کا تناسب نوجوانوں میں زیادہ تھا، 15 سے 29 سال کی عمرکے 62.3 فیصد افراد بے روزگار تھے۔

اُردو زبان میں یہ محاورہ مستعمل ہے کہ ’’ چشمِ فلک‘‘ نے دیکھا کہ دلی میں کیا کیا تباہی ہوئی تھی، تاہم اکیسویں صدی میں ’’چشمِ بشر‘‘ نے غزہ میں ہونے والی تباہی و بربادی کو شب و روز لائیو دیکھا۔ بالآخر غزہ میں 15 ماہ کے بعد مرحلہ وار سیز فائر کا اعلان کیا گیا، مگر مکمل جنگ بندی تک ابھی کئی کٹھن مقامات آئیں گے۔ اس قتل و غارت گری نے بڑی بڑی ٹیکنیکل اور ڈیجیٹل ترقی کرنے والی دنیا کو بتا دیا ہے کہ آج کا طاقتور انسان بھی اُتنا ہی وحشی اور درندہ صفت ہے جتنا غاروں اور جنگلوں میں رہنے والا تھا۔

گزشتہ 15 ماہ کے دوران اسرائیل نے ٹنوں وزنی بم جہازوں کے ذریعے گرا کر اور ٹینکوں و توپوں سے گولہ باری کر کے کم از کم 48 ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا جن میں سے آدھی تعداد بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی ہے۔ ایک لاکھ 10 ہزار کے قریب غزہ کے شہری شدید زخمی ہیں۔ اسی طرح 23 لاکھ کی آبادی میں سے 20 لاکھ شہری جانیں بچانے کے لیے شمالی غزہ سے نکل کر در بدرکی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

تقریباً 90 فیصد اسپتال تباہ ہو چکے ہیں‘ اکّا دُکّا باقی میڈیکل سینٹرز بھی ادویات و آلات سے محروم ہو چکے ہیں۔ صد آفرین ہے فلسطینی و غیر ملکی ڈاکٹروں اور نرسوں پرکہ دم توڑتی ہوئی سہولتوں کے باوجود وہ زندگی کی آس ٹوٹنے نہیں دے رہے اور کسی نہ کسی طرح مریضوں کا اپنی قوتِ ارادی سے علاج کر رہے ہیں۔ غزہ کے تمام تعلیمی ادارے، سڑکیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ایک بار پھر کُل عالم نے براہِ راست اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بڑی طاقتوں کی پروردہ اور مشرقِ وسطیٰ میں پلانٹڈ صہیونی ریاست کتنی ظالم اور سفاک ہے۔ دنیا پر یہ بھی واضح ہوا کہ اسرائیل کسی بین الاقوامی قانون اور ضابطے کو نہیں مانتا۔ وہ امریکی و یورپی حکومتوں کی شہ پر اپنی من مانی کرتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے عزائم صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ وہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

اس توسیعی اسرائیلی ریاست میں شام، لبنان، اُردن اور خیبر تک کے علاقے شامل ہیں۔ صہیونی ریاست نے اس معاملے میں انتہائی دیدہ دلیری سے کام لیتے ہوئے گریٹر اسرائیل کا نقشہ اپنی سرکاری ویب سائٹ پر بھی جاری کردیا ہے۔ موجودہ دگرگوں حالات میں حماس نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اچھی شرائط پر سیز فائرکیا ہے۔ مکمل فائر بندی کے بعد ہی اہلِ غزہ کی وسیع تر مشاورت سے حماس مستقبل کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرے کہ جس میں جوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی ہو۔

 ایسے میں امریکا جیسی سپر پاورکی قیادت کو دانشمندی اور بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے، یہ اَمر افسوسناک بلکہ تشویشناک ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے ظلم پر اِس سے بازپرس کرنے کی بجائے اُلٹا فلسطینیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کی اپنے گھروں سے جبری بے دخلی کا منصوبہ پیش کردیا ہے، ابھی تو ان کی واپسی بھی درست طریقے سے شروع نہیں ہوئی ہے، تباہ حال فلسطینیوں نے ٹھیک طرح سے سکون کا سانس بھی نہیں لیا، ابھی تو ملبے سے لاشیں نکالی جا رہی ہیں کہ ان کو ایک اور آزمائش میں ڈالنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ تباہ حال فلسطینی طویل جنگ کے بعد، 48 ہزار شہادتوں اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہونے کے باوجود اپنی زندگی دوبارہ سے شروع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی خاص اچھی نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدر جوبائیڈن کا حکم معطل کرتے ہوئے اسرائیل کو دو ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی فراہمی کی اجازت دے دی ہے، اسرائیل ان بموں کو جنوبی غزہ کی پٹی میں واقع رفع کے مقام پر حملے میں استعمال کرنا چاہتا تھا، کیونکہ وہاں 14 لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ امریکا ویسے ہی گزشتہ سال میں سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے، اسرائیل کو اس نے اربوں ڈالرکا اسلحہ بیچا ہے اور اب وزنی بموں کی فراہمی کی اجازت دینے سے تو ان کے اپنے امن و سلامتی کے فلسفے کی نفی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس اقدام سے اسرائیلی وزیراعظم کے حوصلے بھی کافی بلند ہوئے ہیں اور انھیں نئی انتظامیہ کی حمایت کی امید بھی پیدا ہو گئی ہے۔

اصولی طور پر تو جنگ بندی کے حالیہ معاہدے کے بعد مفاہمت اور امن کا عمل تیزی سے آگے بڑھانا چاہیے تھا، امریکا اسرائیل کی پشت پناہی سے پیچھے ہٹ جاتا، مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی کا بندوبست کرتا، باہمی مشاورت کے ساتھ تعمیر نو کا ایسا منصوبہ پیش کرتا جو سب کے لیے قابل قبول ہوتا اور اس سے مزید کوئی تنازعہ کھڑا ہونے کا اندیشہ نہ پیدا ہوتا۔ صدر ٹرمپ کو مصر اور اْردن یا دیگر عرب ممالک پر دباؤ ڈال کر اپنی بات منوانے کی بجائے کوئی اور راستہ ڈھونڈنا چاہیے۔ امریکا امن و سلامتی کا علمبردار بن کر دوبارہ عظیم ہونے کی خواہش رکھتا ہے تو عملی طور پر اس پر عملدرآمد بھی کرے۔

اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کو اپنے ساتھ ساتھ امریکا کا دشمن بھی قرار دے رہے ہیں، معاملہ حقِ دفاع کی حمایت سے آگے بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ امریکی صدر اپنی اسرائیل نواز اور فلسطین مخالف پالیسی کا از سر نو جائزہ لیں، مجوزہ منصوبہ خود اْن کی اپنی جنگیں بند کرانے کے اعلان کی نفی کرتا نظر آ رہا ہے۔ ظلم، زیادتی اور دھونس کے سر پر ہونے والے فیصلے دیرپا ثابت نہیں ہوتے، اسرائیل فلسطین تنازعے کے مستقل حل کے لیے سب کو غیر جانبداری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے یہ بنیادی شرط ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو اسرائیل کے معاہدے کے کی اجازت نہیں ہو کے ساتھ کرنے کے رہے ہیں ہے کہ ا ا ہے کہ اور اس اور ان ہیں کہ کے لیے غزہ کے کے بعد

پڑھیں:

مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر، وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے

اسلام ٹائمز: آج کے اسرائیل میں مسجد الاقصیٰ کو تباہ کرنے اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر نو کے مطالبے سامنے آنا عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج میں شامل سپاہی کسی تردد کے بغیر اپنی وردیوں پر تھرڈ ٹیمپل کے بیج لگاتے ہیں اور اپنی فوجی گاڑیوں پر الاقصیٰ کی فتح کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کرتے ہیں۔ انہیں بہت سی دولت مند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے جن میں ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ، ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل اور ایریٹز یسرائیل فیتھ فل تحریکیں شامل ہیں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ انہیں بہت سے امریکی انجیلی مسیحیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسیحا کی آمد کے پیش خیمہ کے طور پر ہیکل کی تعمیر نو کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تحریر: ضرار کھوڑو

کچھ روز قبل 26 مئی کو اسرائیل نے یومِ یروشلم منایا۔ یہ وہ دن ہے جب اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر قبضہ کیا تھا۔ اس دن کی تقریبات میں انتہائی دائیں بازو کے ہزاروں اسرائیلیوں کو سڑکوں پر نکل کر عربوں کو ہراساں کرنے کی قومی تفریح میں مشغول دیکھا گیا۔ اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اتامار بین گویر کی موجودگی اور ان کی حمایت سے ہجوم نے مسلم کوارٹر کی جانب مارچ کیا جہاں انہوں نے ’عربوں کو موت دو‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے غزہ کے باشندوں کی حالت زار کا مذاق اڑایا جبکہ اسلام اور اس کی معزز شخصیات کے خلاف گستاخانہ نعرے بلند کیے۔ یہ تمام سرگرمیاں اسرائیلی پولیس کے حفاظتی حصار میں کی گئی۔

ماضی کی روایات کے مطابق ان اسرائیلیوں نے الاقصیٰ کے احاطے پر بھی دھاوا بولا جہاں انہوں نے گانا گایا، رقص کیا اور تلمودی رسومات ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر نئے نکبہ اور فلسطینیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ غزہ نسل کشی کی حمایت کرنے والے ایک اہم نام اور صہیونی حکومت کے وزیرِ خزانہ بیزالیل اسموترخ نے بھی اس موقع پر تقریر کی اور ’فتح‘، قبضے’ اور ’آبادکاری‘ کو اپنے سب سے قیمتی مقاصد کے طور پر بیان کیا۔ ان کا ایک اور بیان جو ان کے سامعین کے کانوں میں شہد گھول گیا وہ ان کی جانب سے اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک، مسجد الاقصیٰ کے مقام پر ’ٹیمپل‘ کی تعمیرِ نو کا مطالبہ تھا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے بھی مسجد اقصیٰ کے زیرِزمین بڑی سرنگ پر ٹہلتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ سرنگیں آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کے لیے بنائی ہیں لیکن وسیع پیمانے پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ زیرِزمین کھدائی کا مقصد مسجد الاقصیٰ کی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے اور ایسا کوئی آثارِ قدیمہ کا ثبوت تلاش کرنا ہے جو انہیں ٹیمپل ماؤنٹ (جسے عرب حرم الشریف کہتے ہیں) پر اپنے مکمل قبضے کا جواز فراہم کرسکے۔ یوں وہ آخرکار نام نہاد تھرڈ ٹیمپل (ہیکلِ سلیمانی) کی تعمیر کرسکیں۔

اس سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے اور دوسرے ہیکل کیا تھے؟ تو پہلا ہیکل تقریباً 957 قبلِ مسیح میں تعمیر ہوا تھا جسے چند صدیوں بعد یروشلم کے محاصرے کے دوران سلطنت بابل نے تباہ کر دیا تھا۔ دوسرا ہیکل 538 قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن اسے بھی 70ء میں سلطنت روم کے خلاف یہودیوں کی خونریز اور بدقسمت بغاوت کے نتیجے میں رومی حکمرانوں نے تباہ کردیا تھا۔ دوسرے ہیکل کی باقیات میں سے صرف اس کی مغربی دیوار باقی رہ گئی ہے جو آج ’ویلنگ وال‘ کہلاتی ہے جہاں تقریباً ہر امریکی سیاستدان کو جانا پڑتا ہے اور یہاں ان کے لیے اسرائیل کے جھنڈے کے ساتھ وفاداری کا عہد کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اسی طرح طاقتور اسرائیلی لابیز کے فنڈز اور حمایت کے دروازے ان کے لیے کھلتے ہیں۔

تو نئے ہیکل کی تعمیر کیوں؟ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کیوں ضروری ہے؟ بعض یہود مذہبی دھڑوں میں یہ غالب سوچ پائی جاتی ہے کہ مسیحا کی آمد کو یقینی بنانے کے لیے تھرڈ ٹیمپل تعمیر کیا جانا چاہیے۔ یہ مسیحا ممکنہ طور پر یہودی بالادستی کے ایک نہ ختم ہونے والے سنہری دور کا آغاز کرے گا جس میں دیگر تمام قومیں ان کی مرضی کی تابع ہوجائیں گی لیکن اس کے لیے پہلے مسجد الاقصیٰ کو منہدم کرنا ہوگا۔ اس کے حق میں سب سے پہلی حقیقی آواز شلومو گورین نے اٹھائی جو اسرائیلی ’دفاعی‘ افواج کے سابق چیف ربی تھے۔ 1967ء میں وہ 50 یہودیوں کو مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں دعاؤں کی غرض سے لے گئے اور وہاں ہیکل کی تعمیرِنو کا مطالبہ کیا۔

یہ وہ دور تھا جب اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں عرب آبادی کو قطعی طور پر ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا یا یہ کہہ لیں کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ میں شاندار فتح کے باوجود اپنے عرب ہمسایوں کو ایک اور جنگ کا جواز فراہم کرنے کے معاملے میں کسی حد تک احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ اسی اثنا میں ربی شلومو گورین کی مذمت کی گئی اور اسرائیل کے چیف ربیوں نے حکم دیا کہ یہودیوں کے لیے رسمی ناپاکی کی وجوہات کی بنا پر ماؤنٹ ٹیمپل میں داخل ہونا ممنوع ہے۔ ان رسمی ناپاکی کی وجوہات کو اس کالم میں بتانا انتہائی مشکل ہے۔

سرکاری حکم نامے کے باوجود زیرِزمین کھدائی (اسرائیل کی مذہبی وزارت کے زیرِاہتمام) کا کام اسی سال شروع ہوا اور مسلم کوارٹر کی کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچانے کے بعد بھی یہ کام جاری ہے۔ لیکن 2025ء کا اسرائیل 1967ء کے اسرائیل سے انتہائی مختلف ہے کیونکہ یہ ایک قابض بالادست طاقت بن چکی ہے جو فلسطینیوں کی قومیت کو ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ وہ اس وقت تو انتہائی مذہبی منافرت اور تشدد سے متاثر نہیں ہوا تھا لیکن اب وہ اس کے رنگ میں ڈوبا نظر آتا ہے اور ممکنہ طور پر مستقبل میں بھی اسرائیل ایسا ہی کرتا رہے گا۔

آج کے اسرائیل میں مسجد الاقصیٰ کو تباہ کرنے اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر نو کے مطالبے سامنے آنا عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج میں شامل سپاہی کسی تردد کے بغیر اپنی وردیوں پر تھرڈ ٹیمپل کے بیج لگاتے ہیں اور اپنی فوجی گاڑیوں پر الاقصیٰ کی فتح کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کرتے ہیں۔ انہیں بہت سی دولت مند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے جن میں ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ، ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل اور ایریٹز یسرائیل فیتھ فل تحریکیں شامل ہیں۔

مزید اہم بات یہ ہے کہ انہیں بہت سے امریکی انجیلی مسیحیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسیحا کی آمد کے پیش خیمہ کے طور پر ہیکل کی تعمیر نو کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اگرچہ انجیلی مسیحیوں کے مطابق وہ یہودیوں سمیت پوری دنیا کو تبدیل کردیں گے (پھر چاہے وہ تبدیلی آگ اور تلوار سے ہی کیوں نہ لائی جائے) لیکن فی الحال دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ البتہ وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے۔

اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914867/the-third-temple

متعلقہ مضامین

  • فلسطینیوں کی منظم نسل کشی مہم میں برطانیہ کے براہ راست ملوث ہونے کا انکشاف
  • اسرائیل نے غزہ کی امداد کے لیے آنے والی میڈیلین کو قبضے میں لے لیا
  • اسرائیل نے غزہ پٹی کے لیے امداد لے جانے والے کشتی روک لی
  • رضوان، شان کا بطور کپتان مستقبل خطرے میں!
  • غزہ جنگ میں اسرائیلی فوج کی ہلاکتیں، اسرائیل کو 10 ہزار سے زائد اہلکاروں کی کمی کا سامنا
  • غزہ، امداد کے حصول کیلئے آنیوالے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی وحشیانہ فائرنگ، 5 شہید، 70 زخمی
  • مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر، وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے
  • اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے، مولانا شعیب احمد
  • انسانی بال سے بھی باریک برطانیہ میں دنیا کی سب سے چھوٹا وائلن تیار
  • اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!