غزہ کے مستقبل پر ابہام
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے دوسرے مرحلے میں مستقل جنگ بندی کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا ایک ساتھ تبادلہ کرنے کی پیش کش کی ہے۔ دوسری جانب چینی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے دو ریاستوں، فلسطین اور اسرائیل کے قیام کی قرارداد کو منظور ہوئے ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن فلسطینیوں کے پاس اب بھی اپنا ملک نہیں ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کا حالیہ معاہدہ بہت مشکل سے طے پایا ہے، غزہ میں فائر بندی معاہدے کے مستقبل پر ابہام کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
بالخصوص دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات ابھی تک شروع نہیں ہو سکے ہیں۔ پندرہ ماہ سے جاری جنگ کسی نہ کسی طرح تھمی تو ہے، لیکن آنے والے دنوں اور ہفتوں میں جو کچھ سامنے آئے گا اس کے بیج ماضی میں بوئے گئے تھے۔کئی دہائیوں سے مغربی ذرائع ابلاغ کے ادارے، ماہرین تعلیم، فوجی ماہرین اور عالمی رہ نما قضیہ فلسطین و اسرائیل کو پیچیدہ اور تعطل کا شکار قرار دیتے رہے ہیں۔
عرب ملکوں اور بہت سے فلسطینیوں کو بھی یہ شبہ ہے کہ اسرائیل اس موقع کو ایک الگ ریاست کے فلسطینیوں کے مطالبے کو ختم کرنے کے لیے، آبادی کے تناسب میں زبردستی ایک مستقل تبدیلی کے واسطے استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ تمام تاریخی مثالیں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ جب بھی فلسطینیوں کو فلسطینی علاقے سے نکلنے پر مجبورکیا گیا انھیں کبھی واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور مصر غزہ میں اس نسلی تطہیرکے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتا اور ان عوامل کے سبب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آنے والے دنوں کا منظرنامہ کیا بنے گا۔
مصر اور اردن کی سرحدیں غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے سے ملتی ہیں اور دونوں ہی ملک فلسطینیوں کو پناہ دینے سے انکار کرچکے ہیں۔ دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کا مستقل بنیادوں پر اخراج چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں کی ایک الگ ریاست کے مطالبے کو ختم کیا جاسکے۔ اردن میں پہلے ہی بڑی تعداد میں فلسطینی آباد ہیں۔
اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی نسلوں کی تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے اور ان میں سے زیادہ تر مغربی کنارے، غزہ، لبنان، شام اور اردن میں کیمپوں وغیرہ میں مقیم ہیں۔ فلسطینیوں کی حالیہ تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اپنے گھروں اور علاقوں سے بے دخلی اس خوف کی بنیاد دکھائی دیتی ہے کہ دوسرے عرب ملک انھیں لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی معاہدے کے بعد غزہ کے رہائشیوں کو یہ اُمید تھی کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے لیکن ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
البتہ ایسا نظر آ رہا ہے کہ رکاوٹیں دورکرنے کے سلسلے میں وساطت کاروں کی کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں۔ ایک اسرائیلی سیاسی ذمے دار نے تصدیق کی ہے کہ ملبہ اٹھانے کے لیے اس مشینری کے داخلے کی اجازت معاہدے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے سلسلے میں ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی صورتحال ’’ تباہ کن‘‘ ہے۔ جنگ سے پہلے بھی غزہ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت میں رہتا تھا۔ تقریباً نصف آبادی بے روزگار تھی 46.
اُردو زبان میں یہ محاورہ مستعمل ہے کہ ’’ چشمِ فلک‘‘ نے دیکھا کہ دلی میں کیا کیا تباہی ہوئی تھی، تاہم اکیسویں صدی میں ’’چشمِ بشر‘‘ نے غزہ میں ہونے والی تباہی و بربادی کو شب و روز لائیو دیکھا۔ بالآخر غزہ میں 15 ماہ کے بعد مرحلہ وار سیز فائر کا اعلان کیا گیا، مگر مکمل جنگ بندی تک ابھی کئی کٹھن مقامات آئیں گے۔ اس قتل و غارت گری نے بڑی بڑی ٹیکنیکل اور ڈیجیٹل ترقی کرنے والی دنیا کو بتا دیا ہے کہ آج کا طاقتور انسان بھی اُتنا ہی وحشی اور درندہ صفت ہے جتنا غاروں اور جنگلوں میں رہنے والا تھا۔
گزشتہ 15 ماہ کے دوران اسرائیل نے ٹنوں وزنی بم جہازوں کے ذریعے گرا کر اور ٹینکوں و توپوں سے گولہ باری کر کے کم از کم 48 ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا جن میں سے آدھی تعداد بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی ہے۔ ایک لاکھ 10 ہزار کے قریب غزہ کے شہری شدید زخمی ہیں۔ اسی طرح 23 لاکھ کی آبادی میں سے 20 لاکھ شہری جانیں بچانے کے لیے شمالی غزہ سے نکل کر در بدرکی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
تقریباً 90 فیصد اسپتال تباہ ہو چکے ہیں‘ اکّا دُکّا باقی میڈیکل سینٹرز بھی ادویات و آلات سے محروم ہو چکے ہیں۔ صد آفرین ہے فلسطینی و غیر ملکی ڈاکٹروں اور نرسوں پرکہ دم توڑتی ہوئی سہولتوں کے باوجود وہ زندگی کی آس ٹوٹنے نہیں دے رہے اور کسی نہ کسی طرح مریضوں کا اپنی قوتِ ارادی سے علاج کر رہے ہیں۔ غزہ کے تمام تعلیمی ادارے، سڑکیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ایک بار پھر کُل عالم نے براہِ راست اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بڑی طاقتوں کی پروردہ اور مشرقِ وسطیٰ میں پلانٹڈ صہیونی ریاست کتنی ظالم اور سفاک ہے۔ دنیا پر یہ بھی واضح ہوا کہ اسرائیل کسی بین الاقوامی قانون اور ضابطے کو نہیں مانتا۔ وہ امریکی و یورپی حکومتوں کی شہ پر اپنی من مانی کرتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے عزائم صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ وہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
اس توسیعی اسرائیلی ریاست میں شام، لبنان، اُردن اور خیبر تک کے علاقے شامل ہیں۔ صہیونی ریاست نے اس معاملے میں انتہائی دیدہ دلیری سے کام لیتے ہوئے گریٹر اسرائیل کا نقشہ اپنی سرکاری ویب سائٹ پر بھی جاری کردیا ہے۔ موجودہ دگرگوں حالات میں حماس نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اچھی شرائط پر سیز فائرکیا ہے۔ مکمل فائر بندی کے بعد ہی اہلِ غزہ کی وسیع تر مشاورت سے حماس مستقبل کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرے کہ جس میں جوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی ہو۔
ایسے میں امریکا جیسی سپر پاورکی قیادت کو دانشمندی اور بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے، یہ اَمر افسوسناک بلکہ تشویشناک ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے ظلم پر اِس سے بازپرس کرنے کی بجائے اُلٹا فلسطینیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کی اپنے گھروں سے جبری بے دخلی کا منصوبہ پیش کردیا ہے، ابھی تو ان کی واپسی بھی درست طریقے سے شروع نہیں ہوئی ہے، تباہ حال فلسطینیوں نے ٹھیک طرح سے سکون کا سانس بھی نہیں لیا، ابھی تو ملبے سے لاشیں نکالی جا رہی ہیں کہ ان کو ایک اور آزمائش میں ڈالنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ تباہ حال فلسطینی طویل جنگ کے بعد، 48 ہزار شہادتوں اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہونے کے باوجود اپنی زندگی دوبارہ سے شروع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی خاص اچھی نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدر جوبائیڈن کا حکم معطل کرتے ہوئے اسرائیل کو دو ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی فراہمی کی اجازت دے دی ہے، اسرائیل ان بموں کو جنوبی غزہ کی پٹی میں واقع رفع کے مقام پر حملے میں استعمال کرنا چاہتا تھا، کیونکہ وہاں 14 لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ امریکا ویسے ہی گزشتہ سال میں سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے، اسرائیل کو اس نے اربوں ڈالرکا اسلحہ بیچا ہے اور اب وزنی بموں کی فراہمی کی اجازت دینے سے تو ان کے اپنے امن و سلامتی کے فلسفے کی نفی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس اقدام سے اسرائیلی وزیراعظم کے حوصلے بھی کافی بلند ہوئے ہیں اور انھیں نئی انتظامیہ کی حمایت کی امید بھی پیدا ہو گئی ہے۔
اصولی طور پر تو جنگ بندی کے حالیہ معاہدے کے بعد مفاہمت اور امن کا عمل تیزی سے آگے بڑھانا چاہیے تھا، امریکا اسرائیل کی پشت پناہی سے پیچھے ہٹ جاتا، مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی کا بندوبست کرتا، باہمی مشاورت کے ساتھ تعمیر نو کا ایسا منصوبہ پیش کرتا جو سب کے لیے قابل قبول ہوتا اور اس سے مزید کوئی تنازعہ کھڑا ہونے کا اندیشہ نہ پیدا ہوتا۔ صدر ٹرمپ کو مصر اور اْردن یا دیگر عرب ممالک پر دباؤ ڈال کر اپنی بات منوانے کی بجائے کوئی اور راستہ ڈھونڈنا چاہیے۔ امریکا امن و سلامتی کا علمبردار بن کر دوبارہ عظیم ہونے کی خواہش رکھتا ہے تو عملی طور پر اس پر عملدرآمد بھی کرے۔
اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کو اپنے ساتھ ساتھ امریکا کا دشمن بھی قرار دے رہے ہیں، معاملہ حقِ دفاع کی حمایت سے آگے بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ امریکی صدر اپنی اسرائیل نواز اور فلسطین مخالف پالیسی کا از سر نو جائزہ لیں، مجوزہ منصوبہ خود اْن کی اپنی جنگیں بند کرانے کے اعلان کی نفی کرتا نظر آ رہا ہے۔ ظلم، زیادتی اور دھونس کے سر پر ہونے والے فیصلے دیرپا ثابت نہیں ہوتے، اسرائیل فلسطین تنازعے کے مستقل حل کے لیے سب کو غیر جانبداری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے یہ بنیادی شرط ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو اسرائیل کے معاہدے کے کی اجازت نہیں ہو کے ساتھ کرنے کے رہے ہیں ہے کہ ا ا ہے کہ اور اس اور ان ہیں کہ کے لیے غزہ کے کے بعد
پڑھیں:
غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔
غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔
غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔
تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔
دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔