وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عمران خان فوج کو اپنا ذیلی ادارہ بنانا چاہتے تھے اور اقتدار سے محرومی کے بعد ان کی جماعت انتشار کی سیاست میں مصروف ہے ایک انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اس وقت برطانیہ کے دورے پر ہیں جہاں پاکستان اور برطانیہ کے درمیان سفارتی عسکری اور معاشی تعلقات پر تبادلہ خیال ہوگا خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان نے ماضی میں آرمی چیف کو قوم کا باپ قرار دیا تھا مگر اب انہی کے خلاف بدزبانی کر رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان فیض حمید کو آرمی چیف بنوانا چاہتے تھے تاکہ فوج ان کے سیاسی مقاصد کے لیے کام کرے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی اقتدار سے محرومی کے بعد معیشت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے پروپیگنڈا کر رہی ہے اور بیرون ملک پاکستان کے خلاف سازشوں میں ملوث ہے وزیر دفاع نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک طرف خط لکھ کر منتیں کر رہی ہے اور دوسری طرف ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے ان کے بقول عوام باشعور ہیں اور سب دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں معاشی اور سیاسی حالات بہتر ہو رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی حقیقت بے نقاب ہو رہی ہے انہوں نے کہا کہ ماضی میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو بھی مشکلات کا سامنا رہا مگر کسی نے ملک دشمن راستہ اختیار نہیں کیا اس کے برعکس عمران خان اور ان کے ساتھی بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان کے خلاف بدترین پروپیگنڈا کر رہے ہیں جو ناقابل قبول ہے خواجہ آصف نے مزید کہا کہ فوج ملک کے دفاع کے لیے بے مثال قربانیاں دے رہی ہے لیکن کچھ عناصر اپنے مفادات کی خاطر ریاستی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ عمران خان کی سیاست صرف اقتدار کے گرد گھومتی ہے ان کا ملک اور قوم سے کوئی تعلق نہیں تاہم وقت کے ساتھ حالات بہتر ہوں گے اور انتشار کی سیاست ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گی

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: کہ عمران خان خواجہ آصف نے کہا کہ کی سیاست انہوں نے رہے ہیں کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

علاقائی سیاست اور باہمی تعلقات

پاکستان نے اگر آگے بڑھنا ہے تو اس کی ایک بڑی کنجی داخلی سیاست ،معیشت اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ساتھ علاقائی ممالک سے بہتر تعلقات ضروری ہیں۔ عالمی سیاست کی اہمیت اپنی جگہ مگر پہلی ترجیح علاقائی سیاست میں اپنی اہمیت منوانا ہے۔ سفارت کاری کے محاذ پر جب پاکستان اپنا مقدمہ علاقائی یا عالمی سیاست میں لڑتا ہے تو اس کی کامیابی کا بڑا انحصار بھی اس کی داخلی سیاست کے استحکام سے جڑا ہوتا ہے کیونکہ اگر ہم داخلی محاذ پر کمزور ہوں تو پھر سفارت کاری کے محاذ پر مشکلات پیش آتی ہیں۔دیگر ممالک ہماری داخلی کمزوریوں کو بنیاد بنا کر ہمارے خلاف اپنا مقدمہ مضبوط بناتے ہیں۔

علاقائی سیاست کے جو بھی تنازعات ہیں ان کا حل دو طرفہ بات چیت ہی سے ممکن ہے۔جنگ یا تنازعات کو ابھارنا یا خود کو اس میں الجھائے رکھنا مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ حکمت عملی ہمیں اور زیادہ مسائل میں الجھا دیتی ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری علاقائی سیاست کے تنازعات اور تضادات اتنے گہرے ہیں کہ ہم مشترکہ طور پر اعتماد سازی کے فقدان کا شکار ہیں اور کسی بھی طور پر ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ علاقائی سطح پر جو بھی سیاسی ،سماجی ،معاشی ، سیکیورٹی کے فورمز موجود ہیں وہ عدم فعالیت کا شکار ہیں ۔

مثال کے طور پر سارک فورم ہی کو دیکھ لیں جو نہ فعال ہے اور نہ ہی علاقائی ممالک کے درمیا ن جو بھی تنازعات ہیں ان کو ختم کرنے میں کوئی بڑ ا کردار ادا کرسکا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اہل سیاست یا پڑھے لکھے سنجیدہ افراد بھی اب ان فورم کی کارکردگی اور صلاحیت سے نالاں یا مایوس نظر آتے ہیں۔ علاقائی سیاست میں دہشت گردی یا انتہا پسندی ایک بڑا خطرہ ہے ۔

عمومی طور پر علاقائی ممالک کا مجموعی رویہ یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کی اپنی ناکام حکمت عملیوں پر خود کو ذمے دار سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ زیادہ تر حکمت عملی میں اپنی ناکامیوں کو چھپا کر علاقائی ممالک ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست کررہے ہیں۔ ایک رویہ یہ بھی ہے کہ ہم دہشت گردی کے بارے میں تو زیادہ حساس نظر آتے ہیں مگر دہشت گردی کے خاتمہ میں اپنی توجہ سیکیورٹی امور تک محدود کرکے معاملات کو دیکھتے ہیں ۔حالانکہ دہشت گردی کے خاتمہ میں سیاسی، سماجی اور معاشی فورمز کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ علاقائی ممالک کی ترقی میں ان فورمز کی فعالیت ،دو طرفہ تعلقات اور باہمی عوامی رابطوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔لیکن علاقائی ممالک اس میں ناکام ہیں اور وہ تنہا ہی معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں یا اپنی بالادستی دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ علاقائی سطح پر سارک فورم سمیت جو بھی دیگر فورمز ہیں ان کی عدم فعالیت میں بھارت کی حکمت عملی کا بھی بڑا دخل ہے ۔کیونکہ بھارت علاقائی سیاست میں ایک بڑا ملک ہے مگر وہ اس میں مثبت اور فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں اور اسی وجہ سے یہ فورمز وہ کچھ نہیں کر پارہے جو ان کی ذمے داری یا دائرہ کار میں آتے ہیں۔

مثال کے طور پر بھارت براہ راست پاکستان کی ریاست کو دہشت گردی کا ذمے دار قرار دیتا ہے۔ پاکستان جیسی ریاست جو خود دہشت گردی کا شکار ہواور جس نے دہشت گردی کے خلاف نہ صرف بڑی جنگ لڑی ہے بلکہ بڑی قربانیاں بھی دی ہیں۔اس لیے یہ الزام کہ پاکستان دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور اس سے دونوں ملکوں سمیت علاقائی استحکام بھی ممکن نہیں ہوگا۔

علاقائی سطح پر دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کا حل جہاں دو طرفہ تعلقات ، بات چیت ہے وہیں دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی اور میکنزم پر اتفاق رائے اور اس پر عمل درآمد پر ہر ملک کا اپنا اپنا اور پھر ایک اجتماعی کردار بھی ہے۔محض ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے مسائل کا حل ممکن نہیں بلکہ یہ حکمت عملی ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھنے کے امکانات کو محدود کرکے بداعتمادی کے ماحول میں اور زیادہ شدت پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں کوئی ایک ملک تن تنہا کچھ نہیں کرسکے گا۔ جب تک تمام ممالک اس مسئلہ پر مشترکہ حکمت عملی اور کردار ادا نہیں کریں گے کچھ بھی ممکن نہیں ہوگا۔

حال ہی میں چین میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ ہمیں ’’ شنگھائی ریجنل سیکیورٹی فورم‘‘ کی تشکیل نو کرنا ہوگی جو خطے میں سیکیورٹی سے جڑے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کے امکانات کو بڑھائے۔اس فورم کا مقصد ممبر ممالک چین، بھارت، روس،پاکستان ،ایران اور وسطی ایشائی ریاستوں کے انٹیلی جنس اور دفاعی حکام کو مشترکہ حکمت عملی کو اختیار کرنے میں ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے تاکہ وہ معلومات کا تبادلہ اور عملی اقدامات کی طرف بڑھ سکیں۔ایران کی طرف سے اس طرز کے فورم کی تشکیل اہم بات بھی ہے اور اسے ایک بڑی پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔

شنگھائی فورم پر اس مشترکہ سیکیورٹی فورم کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس میں چین ،بھارت اور روس سمیت پاکستان شامل ہے ۔چین اور روس ایک بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری پیدا کرنے سمیت علاقائی تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون کو بڑھانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کے خاتمے میں مشترکہ حکمت عملی پر زور دیا ہے اور اب اگر دیگر ممالک بھی اسی نقطہ پر زور دے رہے ہیں تو پاکستان کے موقف کی پزیرائی بھی ہے۔اسی طرح افغانستان کے امن اور داخلی بحران کا حل خطہ کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • علاقائی سیاست اور باہمی تعلقات
  • جنگ غزہ کو روکنے کیلئے امریکی مفادات پر دباؤ ڈالنا ہوگا، المنصف المرزوقی
  • خیبرپختونخوا: رواں سال خواجہ سراؤں پر تشدد کے 12 اور قتل کے 15کیسز رپورٹ
  • عمران نے پارٹی میں انتشار پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا کہا: علی امین گنڈا پور
  • عمران خان نے پارٹی میں انتشار پھیلانے والوں کیخلاف کارروائی کا کہا، علی امین گنڈاپور
  • عمران خان نے تحریک انصاف میں انتشار پھیلانےوالوں کےخلاف کارروائی کا حکم دیا ہے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور
  • عمران خان نے پارٹی میں انتشار پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا کہا، علی امین گنڈاپور
  • جب تم رفال اڑا ہی نہیں سکتے تو نئے جہاز کس لعنت کے لیے خرید رہے ہو؟ڈمی خواجہ آصف
  • 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ نے قوم کے بچوں کو انتشار میں لگایا اور اپنے بچوں کو ملک سے باہر رکھا: شرجیل میمن
  • عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ