Jasarat News:
2025-04-25@02:12:05 GMT

چیف جسٹس کا صائب مشورہ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

چیف جسٹس کا صائب مشورہ

نوٹ: اسکول، کالج، یونیورسٹی اور جج وغیرہ انگریزی الفاظ ہیں، یہ اب مُوَرَّد ہیں، انہیں اردو میں قبول کرلیا گیا ہے۔ پس اب اردو میں ان کلمات کی جمع کو اردو کی طرز پر اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ججوں یا جج صاحبان لکھنا اور بولنا چاہیے۔ ’بیٹس مین‘ انگریزی کا لفظ ہے، جب تک صرف مرد کرکٹ کھیلتے تھے تو ’بیٹس مین‘ بولاجاتا تھا، اب چونکہ خواتین بھی کرکٹ کھیلتی ہیں، تو اس کے لیے حالیہ برسوں میں ’بیٹر‘ کی اصطلاح رائج کی گئی ہے، اس کا اطلاق لفظِ مشترک کے طور پر مردانہ اور زنانہ دونوں طرح کے کھلاڑیوں پر یکساں ہوتا ہے۔ پہلے بیٹس مین کو اردو میں ’بلے باز‘ بولتے تھے، مگر اب انگلش کے غلبے کی وجہ سے یہ لفظ متروک ہوگیا ہے۔

چیف جسٹس نے عدالتی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سے کہا: ’’میں نے برادر ججوں کو مشورہ دیا تھا: سسٹم کو چلنے دیں، سسٹم کو نہ روکیں، مجھے جج لانے دیں، ہمیں چیزوں کو خلط ملط نہیں کرنا بلکہ حل کرنا ہے، ہمیں جاری نظام پر اعتبار کرنا ہوگا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ’’جج صاحبان کے خطوط لکھنے کی عادت پرانی چل رہی ہے، اسے ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا، پرانی چیزیں ہیں، آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میرے نام لکھا جانے والا خط مجھے بعد میں پہنچتا ہے، میڈیا پر پہلے نشر ہوجاتا ہے، جج صاحبان ’پینک‘ کرجاتے ہیں، شاید انہیں اعتبار نہیں رہا‘‘۔ پینِک کے لفظی معنی ہیں: ’گھبراہٹ‘، شاید یہاں جھنجھلاہٹ مراد ہے۔ انہوں نے کہا: ’مجھے جج لانے دیں، اچھے جج آرہے ہیں، جج صاحبان کے اٹھ کر چلے جانے کے سبب ایک اہل جج عدالت عظمیٰ کا حصہ بننے سے رہ گیا‘۔ انہوں نے جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کو بھی عدالت عظمیٰ میں لانے کا دفاع کیا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے: چیف جسٹس پاکستان جناب یحییٰ آفریدی متوازن مزاج کے حامل ہیں، اپنے مزاج میں تحمُّل اور بردباری رکھتے ہیں، جبکہ چند دوسرے جج صاحبان اس صفت سے عاری ہیں۔ موجودہ اور سابق جج صاحبان افتخار محمد چودھری، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، ثاقب نثار، عمر عطا بندیال، اعجاز الاحسن، سید منصور علی شاہ، منیب اختر، اطہر من اللہ، عائشہ ملک، قاضی فائز عیسیٰ، ملک شہزاد احمد خان اور عقیل عباسی اسی عدمِ تحمل کا مظہر ثابت ہوئے۔ انہوں نے پورے سسٹم کو جوتے کی نوک پہ رکھنا چاہا، حدود سے تجاوز کیا، لیکن انجامِ کار حاصل کچھ بھی نہ ہوا، یہی کیفیت اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ جج صاحبان کی رہی۔ ایسی ہی بے اعتدالی کا مظاہرہ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اُس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری کے ساتھ مل کر کیا تھا اور اُس کے نتیجے میں ’بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم‘ کا مصداق بنے، نہ تاریخ میں عزت ملی، کیونکہ یہ اُصول پسندی کا نہیں، عُجبِ نفس اور جوڑ توڑ کا مسئلہ تھا۔ آج پاکستان کے نامور ترین ججوں کی فہرست میں اُن کا نام کہیں نہیں ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا تاثُّر بہت اچھا تھا، لیکن وہ اتنے مغلوب الغضب ہوئے کہ توازن کھو بیٹھے اور اپنے ’چیمبرکے ساتھی‘ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی بھی رعایت نہ کی۔

دانا لوگوں کا کام دیوار سے ٹکریں مارکر دیوار کو گرانا یا خود کو لہولہان کرنا نہیں ہوتا، بلکہ مشکل حالات میں راستہ نکالنا ہوتا ہے، نظام کو بھی لے کر چلنا ہوتا ہے اور نظام کی خامیوں کو بھی آہستہ آہستہ دور کرنا ہوتا ہے، ضدی مُعانِد کا کردار ادا کرنے کے بجائے مُصلح کا کردار ادا کرنا اعلیٰ عدلیہ کے منصِب کو زیادہ زیب دیتا ہے۔ کیا ٹکریں مار کر نوے دن میں انتخابات کا ہدف حاصل کرلیا تھا، کیا تاریخ میں عدلیہ کے اس پورے دور کو سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ کیا بین الاقوامی معاہدات کو عالمی قوانین سے ناواقفیت کی بنیاد پر ردّ کرنے کے نتائج ملک کے لیے مثبَت نکلے۔ امیر المؤمنین علی المرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی طرف یہ قولِ زرّیں منسوب ہے: ’’لَا تَکُنْ لَیِّنًا فتُعْصَرَ وَلَا یَابِسًا فُتُکْسَر‘‘، ترجمہ: ’’اتنے نرم نہ بنو کہ تمہیں نچوڑ دیا جائے اور اتنے خشک بھی نہ بنو کہ تمہیں توڑ دیا جائے‘‘۔ یعنی ایک سلیم الفطرت اور متوازن انسان کے مزاج میں اعتدال ہوتا ہے، لچک ہوتی ہے، وہ ایک حد تک دبائو بھی قبول کرتا ہے اور ایک حد تک مزاحمت بھی کرتا ہے، لیکن معاملے کو بند گلی میں جانے نہیں دیتا۔

رسول اللہؐ کو نماز میں خشوع وخضوع بے انتہا پسند تھا، نماز کی معراج اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی درجے کی حضوری ہے کہ کسی اور طرف ذہن متوجہ ہی نہ ہو۔ مگر آپؐ اپنے ربّ کی حضوری میں بھی لوگوں کے بشری احوال کی رعایت فرماتے تھے، حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ نے فرمایا: (کبھی) میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لمبی نماز پڑھوں، اس دوران میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں کہ بچے کا رونا اس کی ماں کو پریشان کردے گا (اور نماز میں اس کی توجہ بٹ جائے گی)‘‘۔ (مسند احمد) الغرض ایک ماں کی قلبی کیفیت کی رعایت فرماتے ہوئے رسول اللہؐ اپنی شدید خواہش کے باوجود نماز کو مختصر فرما دیتے تھے۔

’’سیدنا عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں فجر کی جماعت چھوڑ دیتا ہوں، کیونکہ (فلاں) امام ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے، پس رسول اللہؐ اتنے غضب ناک ہوئے کہ میں نے کسی اور موقع پر آپ کو اس کیفیت میں نہیں دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا: لوگو! تم میں سے بعض (لوگوں کودین سے) متنفر کرنے والے ہیں، پس جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے، وہ اعتدال سے کام لے، کیونکہ اس کی اقتدا میں کمزور، بوڑھے اور کام کاج پر جانے والے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں‘‘، (بخاری) اس سے پہلی حدیث میں ان کلمات کا اضافہ ہے: ’’اور جب تم میں سے کوئی شخص تنہا اپنی نماز پڑھ رہا ہو تو جس قدر چاہے لمبی نماز پڑھے‘‘۔

ایک این جی او کی بیگم کے اُکسانے پر اور اپنی اَنا کے سبب اُس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد اتنے مغلوب الغضب ہوئے کہ کراچی میں ’نسلا ٹاور‘ کے مکینوں کو پرتعیّش فلیٹوں سے اتار کر فٹ پاتھ پر لاکھڑا کیا، اُن کے بحیثیت ِ مجموعی اربوں روپے ایک انا پرست شخص کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوگئے، اُن کو اپنے فیصلے میں کوئی تحفظ بھی نہ دیا، حالانکہ ایک معقول حل موجود تھا کہ جرمانہ لگاکر ان فلیٹوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت دی جائے، اسلام آباد میں ثاقب نثار ایسا کرچکے تھے۔ حکومت کو رقم بھی مل جاتی اور لوگوں کی جمع پونجی بھی تباہ وبرباد نہ ہوتی۔ لیکن اس سنگدل انسان کے دل میں ذرا بھی ترس نہ آیا، لوگوں کو رُلادیا اور وہ رُل گئے۔ وہ لوگ آج بھی اُس شخص کو بددعائیں دے رہے ہوں گے اور تین کروڑ کی آبادی والے شہر میں چند ہزار انسان بھی نہیں ہوں گے جو اُن کا نام عزت اور احترام سے لے رہے ہوں۔ آج وہ تاریخ کے ملبے تلے دفن ہوچکے ہیں، فرعونی مزاج کا انجام ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔

ہم بحیثیت ِ ملک وقوم کبھی بھی مثالی صورتِ حال میں نہیں رہے اور حالاتِ حاضرہ میں تو قطعاً نہیں ہیں، چند صاحبِ منصب شخصیات کی انتہائی حد تک ناپسندیدگی کی سزا پورے ملک اور قوم کو دینا ہرگز دانش مندی نہیں ہے۔ دو صوبوں میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں، روزانہ کے حساب سے ہمارے فوجی جوان وافسر اور عام شہری جان سے ہاتھ دھورہے ہیں، شہید ہورہے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا بھی مُدّعا یہی معلوم ہوتا ہے کہ نظام کتنا ہی برا ہو، اُس کی سزا پورے ملک اور قوم کو دینا دانش مندی نہیں ہے۔ ہم من حیث القوم انقلابی ہیں، نہ یہاں کوئی انقلابی تحریک چل رہی ہے، نہ قوم کا مزاج انقلابی ہے اور نہ انقلابی قیادت یہاں میسر ہے۔ جو کچھ بھی ہمیں حاصل کرنا ہے، اس نظام کے اندر رہتے ہوئے حاصل کرنا ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی کے بقول 2018 کے قومی انتخابات چوری ہوئے اور 2024 کے انتخابات میں ڈکیتی ہوئی، پس کوثر وتسنیم میں دھلا کوئی بھی نہیں ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کبھی بھی آئین میں دی گئی خود مختاری کی حامل نہیں رہی، یہی صورتِ حال عدلیہ کی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم پابندیوں میں انتہائی تابع فرمان بن جاتے ہیں اور آزادی کی ہوا چلے تو ساری حدیں عبور کرجاتے ہیں، توازن کھوبیٹھتے ہیں اور جمع شدہ پونجی بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں، ہم نے 1960 کے عشرے سے پاکستان کی تاریخ کو دیکھا اور برتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: چیف جسٹس انہوں نے ہوتا ہے نہیں ہے ا ہستہ بھی نہ ہے اور

پڑھیں:

پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی

عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیر،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

آئی بی اے کراچی مین کیمپس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ طلبہ کا ایک خصوصی سوال و جواب کے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ کو پاکستان کے موجودہ چیلنجز، قیادت، گورننس، اور ملکی مستقبل کی سمت پر کھل کر سوالات کرنے اور خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔

یہ تقریب آئی بی اے کے اسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس کی نظامت معروف ماہر تعلیم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے کی۔

سیشن میں ملکی سیاسی صورتحال، گورننس کی کمزوریاں، اور اصلاحات کی ضرورت جیسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دریائے سندھ کی نئی کینالز کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کینالز کا مسئلہ آج کا نہیں، میں نومبر میں سکھر آیا تھا، تب بھی لوگ بات کر رہے تھے، وفاقی حکومت آج تک واضح نہیں کر سکی کہ کینالز سندھ کے پانی پر کیا اثر ڈالیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کے اندر شدید بے چینی ہے، سڑکیں بند ہیں، مگر نہ میڈیا رپورٹ کر رہا ہے نہ مسئلے کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے، اج پیپلز پارٹی وفاق کے اندر حکومت کا حصہ ہے تو کس طرح اپنے اپ کو اسے لا تعلق کر سکتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس پارٹی کا کام ہے کہ وہ سینٹ کے اندر قومی اسمبلی میں اس سلسلے کے اندر ایشو پر کلئرٹی قائم کریں وضاحت ہو کہ یہ ایشو ہے کیا اس کے اثرات ملک کے عوام پر ملک کی کسان پر کیا اثر پڑھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سی سی آئی کی میٹنگ فوری بلائی جائے تاکہ اس حساس معاملے پر شفافیت لائی جا سکے۔ جتنی دیر کریں گے، اتنا شک و شبہ بڑھے گا اور صوبوں کے درمیان خلا ہوگا، جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا ہندوستان اکثر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے پاکستان پہ الزام لگاکرسیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اصل مسائل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔

انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ واقعے کو ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تقریباً 26 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں نہتے لوگوں پر حملے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی اس نوعیت کے مسائل موجود ہیں۔ اس کی پاکستانی مذمت ہی کر سکتا ہے۔ 

انہوں نے کرپشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا 25 سال ہو گئے، نیب کے مطابق لگتا ہے کہ سب سیاست دان پاک دامن ہیں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین سے سوال ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟ یہ سوال پوری دنیا پوچھتی ہے کرپشن کو ختم کیلئے واحد راستہ ہے۔

مہنگائی اور کسانوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسان تباہ ہو رہا ہے، گندم اٹھانے والا کوئی نہیں، اور حکومت نے قیمت 2200 سے 4000 تک پہنچا دی تھی، پاکستان اس کا بوجھ برداشت کرتا ہے کسان ناکام تو ملک کی معیشت بھی ناکام ہوگی کسان کا کوئی نہیں سوچتا۔ 

انہوں نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ کمیشن آج تک ان افراد کو ڈاکیومنٹ نہیں کر سکا، اور حکومت حقائق عوام سے چھپا رہی ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے سامنے تمام سچ لایا جائے۔ یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ حقائق کو سامنے لائیں، تاکہ ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔حکمران اج ہمارے وہ حکمران ہیں جو عوام کے اندر جا نہیں سکتے جو ان کو ڈیٹا دیا جاتا ہے اس کی بنیاد پہ بات کرنی شروع کردیتے ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کے ڈیٹا کو ڈاکیومنٹ کیا جانا چاہیے۔

طلبہ سے سوال جواب کے سیشن کے دوران عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہم آج بھی جمہوری اقدار کو اپنانے میں ناکام ہیں، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک فورم پر بیٹھ کر کھلے مکالمے کرنے چاہئیں تاکہ قومی معاملات بند کمروں کی بجائے عوامی سطح پر شفاف انداز میں حل ہوسکیں۔

انہوں نے کراچی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے، بلدیہ ٹاؤن میں لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں مگر وہاں پانی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی ایک انوکھا شہر ہے، جہاں رات 1 سے 5 بجے تک بجلی سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے جب تک کراچی ترقی نہیں کرے گا، ملک بھی ترقی نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اگر سنجیدہ اصلاحات کریں تو پاکستان بہتری کی طرف جا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ عوام کے بنیادی مسائل پر کام نہیں کرتیں۔

شاہد خاقان نے کہا کہ آج ہر اپوزیشن جماعت کے پاس کہیں نہ کہیں حکومت ہے، مگر کوئی بھی رول ماڈل نہیں بن رہا۔

انہوں نے کہا  وزیر اعظم بننا بانی پی ٹی آئی کی پہلی نوکری تھی، جسے سمجھنے میں وقت لگا۔ جیل میں سب سے زیادہ سوچنے اور سیکھنے کا وقت ملتا ہے، بانی پی ٹی آئی کے لیے آج ریفلیکٹ کرنے کا وقت ہےاگر خیبرپختونخوا حکومت منرلز کی لیزز پبلک کر دے تو سب حیران ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا پاکستان میں 23 سال بعد الیکشن ہوئے، ہم نے نتیجہ نہ مانا اور ملک ٹوٹ گیا، ہر الیکشن میں کسی کو ہروایا گیا اور کسی کو جتوایا گیا، میں نے 10 الیکشن لڑے ہیں، ہر ایک میں مختلف حالات رہے۔

انہوں نے وزرا پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کیونکہ ہر مسئلہ صرف وزیر اعظم کے پاس لے جانا درست حکمرانی کی نشانی نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کوئی بھی نماز پڑھنے سے نہیں روک سکتا، نصرت بھروچا ٹرولنگ پر پھٹ پڑیں
  • عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
  • خوابوں کی تعبیر
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ 
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • بابراعظم دراصل کہاں غلطی کر رہے ہیں ؟ محمد عامرکا ناقص پرفارمنس پر مشورہ
  • صدر مسلم لیگ ن نواز شریف نے لندن میں قیام بڑھا دیا