اردو سے صرف انہیں پریشانی ہے جو ہندو مسلم سیاست کو فروغ دیتے ہیں، اودھیش پرساد
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
سماجوادی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ نے اترپردیش کے وزیراعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ کے "کٹھ ملّا" والے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انکا یہ بیان کسی سنت یا سنیاسی انسان کا نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ سماجوادی پارٹی کے ایودھیا سے رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد نے کہا کہ اردو کسی خاص قوم یا برادری کی زبان نہیں ہے، بلکہ یہ محبت، عزت اور تہذیب کی زبان ہے۔ انہوں نے اُردو کو ملک کی سب سے بہترین زبان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی زبان ہے جو صدیوں سے مختلف طبقات کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ اودھیش پرساد نے کہا کہ سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں کئی اہم ریکارڈ اردو میں موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ درحقیقت اردو سے صرف انہیں پریشانی ہے جو ہندو مسلم سیاست کو فروغ دیتے ہیں، ورنہ باقی سب کے لئے یہ عام بول چال کی زبان ہے، جس میں ہندی کے کئی الفاظ بھی شامل ہیں۔ لوگ روزمرہ کی گفتگو اور تقاریر میں بھی اس زبان کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ یہ ایک عام فہم اور مقبول زبان ہے۔
انہوں نے اترپردیش کے وزیراعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ کے "کٹھ ملّا" والے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ بیان کسی سنت یا سنیاسی کا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش کی تاریخ شاندار رہی ہے، یہاں سے سات وزرائے اعظم منتخب ہو چکے ہیں، یہ ریاست ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب کی علامت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ لب و لہجہ ریاست کے وزیراعلیٰ کے شایان شان نہیں ہے، وہ اس وقت ذہنی دباؤ میں ہیں، کیونکہ مہاکمبھ میں بے شمار لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے اور اب وہ سوالات کے گھیرے میں ہیں۔ واضح رہے کہ اترپردیش اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے پہلے دن وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپوزیشن، خاص طور پر سماجوادی پارٹی پر سخت تنقید کی تھی۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے مزید کہا کہ سماجوادی پارٹی ملک کو "کٹھ ملّاپن" کی طرف لے جانا چاہتی ہے، جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا۔ انہوں نے ریاست کی مقامی بولیوں جیسے کہ بھوجپوری، اودھی، برج اور بندیل کھنڈی کو اسمبلی کی کارروائی میں شامل کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے لئے پوری طرح سنجیدہ ہے۔ ان کے مطابق یہ بولیاں ہندی کی ذیلی زبانیں ہیں اور ان کی ترقی کے لئے حکومت خصوصی اکیڈمیوں کا قیام عمل میں لا رہی ہے تاکہ ان کو مناسب شناخت اور عزت مل سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سماجوادی پارٹی ہوئے کہا کہ نے کہا کہ انہوں نے زبان ہے
پڑھیں:
مسلم امہ کو کمزور کرنیکی سازشوں کے خلاف اتحاد کی ضرورت ہے، میرواعظ عمر فاروق
حریت کانفرنس کے چیئرمین نے سپریم کورٹ کیجانب سے وقف معاملے پر دی گئی عبوری راحت کو خوش آئند قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ عدالت عظمیٰ مسلمانوں کے آئینی اور مذہبی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اس متعصبانہ قانون کو کالعدم قرار دیگی۔ اسلام ٹائمز۔ میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے حکام کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد آج بڈگام کا دورہ کیا اور معروف اور معتبر عالم دین آغا سید محمد باقر الموسوی النجفی کے انتقال پر ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔ انہوں نے مرحوم عالم دین کے بیٹوں آغا سید احمد موسوی، آغا سید ابو الحسن اور آغا سید حسن الموسوی الصفوی اور دیگر معزز اراکین خاندان سے ملاقات کر کے تعزیت کی اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے میرواعظ عمر فاروق نے مرحوم عالم دین کی دینی، علمی اور فکری خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے انتقال کو جموں و کشمیر کے مذہبی و علمی حلقے کے لئے ایک بڑا نقصان قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی عالم دین اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ علم، رہنمائی اور فکری وراثت چھوڑ کر جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی جلیل القدر شخصیات کے لیے بہترین خراج یہی ہے کہ ہم ان سے تحریک لیں اور بحیثیت امتِ مسلمہ ثابت قدمی اختیار کریں۔
میرواعظ کشمیر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج مسلمانوں کو مختلف سطحوں پر فرقہ وارانہ، سیاسی اور سماجی طور پر تقسیم کرنے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے متنازعہ وقف ترمیمی ایکٹ کو مسلمانوں کی دینی و ملی شناخت پر ایک اور حملہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حساس مسئلے پر بات چیت کے لئے متحدہ مجلس علماء جموں و کشمیر کو بھی حکام نے اجلاس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے باوجود ہم وادی کشمیر سے جموں اور لداخ تک متحد ہیں اور اس ناانصافی پر مبنی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں آگے بڑھیں گے۔
میرواعظ عمر فاروق نے سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے وقف معاملے پر دی گئی عبوری راحت کو خوش آئند قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ عدالت عظمیٰ مسلمانوں کے آئینی اور مذہبی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اس متعصبانہ قانون کو کالعدم قرار دے گی۔ اپنی مسلسل نظربندی پر بات کرتے ہوئے میرواعظ نے سخت افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں بار بار تاریخی جامع مسجد سرینگر میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی سے روکا جا رہا ہے اور اہم دینی مواقع پر مسجد کے دروازے بند کئے جا تے ہیں۔ انہوں نے کہا "میں نے اپنی طویل اور بلاجواز خانہ نظربندی کے خلاف معزز ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور اس ہفتے اس پر سماعت متوقع ہے"۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ عدالت حکومت کو اس غیر منصفانہ مداخلت سے باز رہنے کی ہدایت دے گی اور میرے مذہبی حقوق کا تحفظ کرے گی۔