بدنصیب اولاد اور سیاسی مسائل
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
آج پاکستان میں انارکی کی فضا اور افراتفری مچی ہوئی ہے، جس کی لاٹھی بے شک اسی کی بھینس ہے، ملکی فضا غیر منصفانہ رویے کی وجہ سے مکدر ہو چکی ہے۔
ایسا ہی حال بے شمار گھرانوں کا ہے جہاں یا تو بہت زیادہ آزادی اور اسلامی تعلیم کا فقدان ہے یا پھر یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی ناخواندگی اور غربت میں مبتلا ہے اس کی خاص وجہ ہمارے حکمرانوں کی غیر توجہی اور اپنی عوام سے دوری، ملکی خوشحالی اور ترقی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔
حال ہی میں مصطفیٰ عامر کی موت اور اس پر تشدد نے لوگوں کو دکھی کر دیا ہے۔ ماضی کے عبرت ناک واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ کس طرح قاتلوں نے جوان لڑکوں کو ان کی ماؤں کے سامنے خون میں نہلا دیا اور پاکستان کی تعلیم یافتہ بیٹیوں کا سرعام قتل کیا گیا، ان کے چہروں پر تیزاب پھینکا گیا اس قسم کے واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے ہیں۔
ان ظالموں کو باعزت طور پر بری کر دیا گیا اور مقتول کے والدین کو ملک چھوڑنے اور قصاص لینے پر مجبور کر دیا گیا بہت سے ماں باپ نے تو قصاص کی رقم کو بھی لینا شرم کا باعث جانا۔ لیکن قصاص کی رقم مقتول کو دینا اسلامی حکم ہے بہرحال۔
ایسے حالات میں بے شمار لوگوں کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ والدین کی تربیت نہیں ہے، غلطی والدین کی ہے اور یہ بھی کہ بچے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے وہ مہد سے لے کر لحد تک سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ سچ ہے لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ والدین تو پڑھا لکھا دیتے ہیں۔
اپنی زندگی کے خوبصورت دن اولاد کی اچھی تربیت اور اس کی پرورش میں گزار دیتے ہیں لیکن جب یہی بچے باہر کے ماحول اور دوستوں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں تب وہ ہواؤں میں اڑ رہے ہوتے ہیں تعلیم و تربیت دھری رہ جاتی ہے، نئے نئے شوق اور جستجو انوکھے کام کرنے کی طرف رغبت دلاتی ہے۔
ان حالات میں ان نوجوانوں کو والدین کی ہر بات گراں گزرتی ہے وہ اپنے گھر سے جانے اور آنے کا شیڈول ہرگز نہیں بتاتے ہیں چونکہ وہ طاقتور اور بلند قامت ہو چکے ہوتے ہیں، منفی سرگرمیوں اور سوچ کے تحت اپنے والدین کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔
چونکہ انھیں ایسے دوستوں کی صحبت میسر ہوتی ہے جو ہوائی فائرنگ توکرتے ہی ہیں ساتھ میں جرائم کرنے میں بے باک ہوتے ہیں، اپنے گھروں یا کرائے کے گھر لے کر تخریبی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں اگر گھر کا سربراہ جو کہ کسی کا والد ہوتا ہے اگر وہ مالی طور پر مضبوط اور تعلیم یافتہ ہے تو وہ اپنی اولاد کی مصروفیت پر گہری نگاہ رکھتا ہے اور اس پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔
ایسی صورت میں بے شمار نوجوان لڑکے، لڑکیاں اپنا وہ گھر جہاں انھوں نے شفیق والدین کے زیر سایہ بچپن بتایا چیزوں اور کائنات کے اسرار و رموز کے بارے میں علم حاصل کیا، اپنے بڑوں کی نصیحت سنی، باہرکا ماحول پل بھر میں سب کچھ بھلا بیٹھا اور ایسی بدنصیب اولادوں نے اپنا گھر چھوڑ دیا اور دوستوں کی سنگت میں رہ کر زندگی کو خوشگوار جانا، ماں باپ روتے رہے، تڑپتے اور سسکتے رہے انھوں نے اپنی شکل نہیں دکھائی اور آخر برے انجام کو پہنچے۔
اکثر والدین پولیس کا ڈراوا بھی دیتے ہیں، تھانے اور جیل کی ہوا کھلانے کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ بات زبانی کلامی ہوتی ہے، انھیں معلوم ہے ہماری پولیس سے بھی اچھی توقعات ذرا کم ہی ہیں، کہیں کوئی اور مسئلہ نہ پیدا ہو جائے ان کی اولاد بیٹھے بٹھائے مصیبت میں پھنس جائے۔
بے شک والدین، والدین ہی ہوتے ہیں، وہ اپنی اولاد کا کبھی برا نہیں چاہتے ہیں، بہت سے گھرانوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ دولت، پیسہ اپنے بچوں پر لٹاتے ہیں، انھیں یہ نہیں سکھاتے بیٹا! اسے ناجائز اور غلط طریقوں پر نہیں استعمال کرنا، بے جا ڈھیل دینے کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں۔
لیکن یہ بھی پیار اور اعتبار دینے کا انوکھا طریقہ ہے اور ایسا لاڈ پیار پوش علاقوں میں اولاد کے حوالے سے اکثر سامنے آتا رہتا ہے۔کوئی بھی کام کرنے سے پہلے نتائج پر نظر رکھنا اہم ترین ہوتا ہے ورنہ کردار کی عمارت لمحہ بھر میں ڈھیر ہو جاتی ہے اور اگر مثبت سوچ اور عمل ہے تو ستاروں پر کمند ڈالنے والے بھی ہمارے سامنے ہی ہیں۔
آج پاکستان کے بہت سے طلبا و طالبات سائنس کی ترقی اور ایجادات کے حوالے سے اہم امور پر کام انجام دے رہے ہیں اور کامیابی کا سہرا سجائے پوری دنیا کے سامنے آتے ہیں، انھوں نے اپنا بھی نام روشن کیا ہے اور اپنے پیارے وطن کا بھی۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرے اور انھیں وہ ذرایع مہیا کرے جن کی بنا پر وہ ہر رکاوٹ کو اپنی ذہنی سطح کی بنا پر دور کر سکیں۔
لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ حکومتی استحکام نہ ہونے کے برابر ہے، بس زور اس بات پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان تنخواہیں اور دوسری مراعات حاصل کر سکیں اور پاکستان کے نوجوان بھٹکتے رہیں، تاریک راہوں میں مارے جائیں، ان کی ٹارگٹ کلنگ کی جائے، سیاسی حالات بہت ابتر ہیں بالکل اس شعر کے مطابق:
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
علامہ اقبال کا ایک اور شعر یاد آگیا ہے حالات حاضرہ کے تناظر میں۔
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ہمارے ملک میں آمرانہ نظام ہے اسی وجہ سے اپنی مرضی سے قانون سازی محض اپنے مفاد کی خاطر کرتے ہیں۔ جمہوریت اور اسلامی آئین سے دور دور کا واسطہ نظر نہیں آتا ہے۔ قانون کا یہی سقم ہے کہ آج بے قصور مرد و زن جیل کاٹ رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دیتے ہیں ہوتے ہیں اور اس ہے اور
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
لاہور:سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ سویلینز پر جو حملہ ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے، میں شہریوں کہ مرنے پر ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں لیکن اس کو دیکھنا یہ پڑے گا کہ پاکستان میں شہریوں پر حملے ہو رہے ہیں تو کیا اسی طرح انڈین فارن آفس نے مذمت کی ہے؟، پاکستان کی وزارت خارجہ نے تو مذمت کی ہے تو ایک فرق ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں جب ٹرین سے اتارے گئے تھے لوگ، ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کو مارا گیا تھا تو دنیا سے تعزیت کے پیغامات آئے، میرا خیال تھا کہ بھارت سے بھی آئیں گے مجھے یا د نہیں آپ کو یاد ہے تو مجھے یاد کرا دیں،
تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ کئی لحاظ سے بڑا سادہ اور کئی لحاظ سے بڑا پیچیدہ موضوع ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان صاحب جو ہیں ان کی مقبولیت جو ہے اس کی بنیاد کیا ہے، اس کی بنیاد یہ تو نہیں ہے کہ جس پر ہم سارے کم و بیش متفق ہیں کہ عمران خان سیاسی طور پر پاکستان کے انتہائی مقبول رہنما ہیں تو کیا انھوں نے کشمری فتح کیا تھا؟،کشمیر تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے دے دیا تھا 5 اگست 2019 کو، عمران خان کے پاس سمجھ بوجھ کی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ نے بہت صلاحیتیں دی ہیں لیکن سیاسی داؤ پیچ، سیاسی حکمت عملی میں وہ صفر بٹا صفر ہیں۔
تجزیہ کار محسن بیگ مرزا نے کہا کہ بیسیکلی آپ نے جو کرائم کیا ایکٹ کیا وہ سب کے سامنے ہے اس میں یہ کہناکہ پروف لائیں وڈیو لائیں تو نیچرلی جب کیس چلیں گے تو پروف بھی آجائیں گے اور جو ایویڈنس ہے وہ بھی مل جائے گی لیکن بیسک چیز یہ ہے کہ اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے اس لیول پر جو اپنے آپ کو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ پاکستان کے بڑے ہی پاپولر لیڈر ہیں تو آپ کو ایڈمٹ کرنا چاہیے کہ آپ نے اداروں کیخلاف ایسا ماحول یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جا کر بنایا نوجوان نسل کو اتنا ورغلایا کہ شاید کوئی دشمن بھی یہ کام نہ کر سکے تو اس پر آپ کو ریلائز کرنا چاہیے یہ ملک آپ کو ملا پونے چار سال، آپ اس کو نہیں چلا سکے۔
تجزیہ کار نصر اللہ ملک نے کہا کہ میں پہلے دن سے سمجھتا ہوں میری یہ رائے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے براہ راست مذاکرات کا آغاز کبھی نہیں ہوا، کبھی کبھی کچھ باتیں سامنے آ جاتی ہیں علی امین گنڈاپور پیغام لیکر گئے اعظم سواتی پیغام لیکر گئے اس میں حقیقت ایسی نہیں ہے خواہشات کا اظہار ضرور ہوتا رہا ہے، پیغامات بھجوائے جاتے رہے ہیں ابھی بھی جو ڈیلیگیشن ملا، اس نے جا کر جو بات چیت کی، یہی کہا کہ عمران خان صاحب کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہییں پھر جو پیغامات بجھوائے گئے عمران خان صاحب نے بھی پیغامات بجھوائے ہیں۔