Daily Ausaf:
2025-11-04@04:55:31 GMT

دینی مدارس کے اہداف و مقاصد

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس پر وفد کے بعض پاکستانی حضرات نے کہا کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے جو کام حکومت کے سپرد ہو جاتا ہے اس کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے، اس حوالے سے مختلف محکموں کی مثالیں بھی دی گئیں۔ اس کی وجہ دریافت کی گئی تو میں نے وفد کے برطانوی ارکان سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ حضرات اسے شکوہ نہ سمجھیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے کم و بیش دو سو برس اس خطے پرحکومت کی لیکن یہاں کے لوگوں کو اچھی طرح حکومت کرنا نہیں سکھایا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ آپ لوگوں نے حکمرانی کی اچھی تعلیم نہیں دی یا ہمارے لوگوں نے اچھے طریقے سے تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن یہ حقیقت ہے ہمارے حکمران گروہ اور افراد آپ کے شاگرد ہیں اس لیے اس کا کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ دونوں آپ ہی کے کھاتے میں جاتے ہیں۔
وفد کے ارکان نے تصوف کے بارے میں دریافت کیا تو عرض کیا گیا کہ اس مدرسہ کے بانی حضرت مولانا عبدالحمید خان سواتی خودصوفی ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ و حکمت کے داعی اور شارح ہیں اور تصوف میں بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ وفد کےبعض حضرات کو تعجب ہوا کہ دیوبندی ہو کر آپ لوگ تصوف سے کیسے شغف رکھتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہم دیوبندی تو بڑے پکے صوفی ہوتے ہیں، ہم ذکر و اذکار کرتے ہیں، مختلف سلاسل سے تعلق رکھتے ہیں، میں خود نقشبندی اور قادری دونوں سلسلوں سے وابستہ ہوں، ہم ذکر کی محافل میں جاتے ہیں اور شریعت کی حدود میں تصوف کے تمام طریقوں پر یقین رکھتے ہیں۔
سماع کے بارے میں پوچھا گیا تو ہم نے عرض کیا کہ میوزک نہ ہو اور غیر محرم عورت کی آواز نہ ہو تو حسن صوت، ترنم، شعر و شاعری اور سماع کو ہم جائز سمجھتے ہیں اور اس کے بہت سے طریقے استعمال میں بھی لاتے ہیں۔ وفد نے عصری تعلیم کے حوالے سے دریافت کیا کہ مدارس میں اس کا اہتمام کیوں نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس کی وجوہ ہیں:
ایک یہ کہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ان مدارس سے فارغ ہونے والے افراد اسی شعبے میں رہیں اور مساجد و مدارس میں حافظ، قاری، امام، خطیب، مفتی اور مدرس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں کیونکہ مساجد و مدارس کے نظام کو چلانے کے لیے یہ رجال کار کہیں اور سے فراہم نہیں ہو رہے۔ اس لیے ہم نے بعض تحفظات اختیار کر رکھے ہیں تاکہ ہماری تیار کردہ کھیپ دوسرے شعبوں میں نہ چلی جائے اور ہم اپنی مساجد و مدارس میں افراد کار کی کمی کا شکار نہ ہو جائیں۔ یہ ہماری حکمت عملی کا حصہ ہے اور ہماری ضرورت ہے۔ دوسری وجہ اسباب کی کمی بھی ہے کہ دینی مدارس کو اس درجے کے اسباب و وسائل مہیا نہیں ہوتے کہ وہ ریاستی مدارس کی طرح عصری تعلیم کا اہتمام کر سکیں۔ اس لیے ہم عصری تعلیم کے لیے ریاستی اداروں پر ہی اعتماد کرتے ہیں اور دینی مدارس کو دینی تعلیم کے اہداف تک محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروریات کی حد تک عصری تعلیم کا رجحان اب دینی مدارس میں پیدا ہو رہا ہے۔ میٹرک تک کے عصری نصاب کو درس نظامی کے ساتھ شامل کر لیاگیا ہےاور اس کے علاوہ مزید پیشرفت کا سلسلہ جاری ہے لیکن ضروریات کی حد تک اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اس سے دینی تعلیم کے اصل اہداف متاثر نہ ہوں۔
دینی مدارس میں حکومت یا عالمی حلقوں کی طرف سے مجوزہ اصلاحات کے بارے میں وفد نے دریافت کیا تو راقم الحروف نے گزارش کی کہ ان اصلاحات و تجاویز میں جو بات بھی ہمارے بنیادی اہداف و مقاصد اور ہمارے کردار میں بہتری پیدا کرنے والی ہے ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں، اس پر غور کرنے اور اسے اپنانے کے لیے تیار ہیں، لیکن جو بات ہمیں ہمارے اہداف و مقاصد سے ہٹانے اور ہمارے کردار کا رخ تبدیل کرنے کے لیے ہو وہ بات ہم سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ’’سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘‘ کے جملے پر بطور خاص توجہ دی گئی اور وفد کے ارکان نے دوبارہ مجھ سے دریافت کیا تو میں نے اپنی بات دہرائی کہ ہاں ہاں! ہم ایسی کسی بات کو سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں جس کا مقصد دینی مدارس کا رخ ان کے اصل اہداف اور مقاصد سے ہٹانا ہو۔
معلوم نہیں دوسرے دوستوں کا تاثرکیا ہےلیکن میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ برطانوی وفد کا یہ دورہ ایک اچھی کوشش تھی، اس سے مغربی حکومتوں کو ہمارے مقاصد واہداف اور طریق کار کو براہ راست سمجھنے میں مدد ملے گی اور مغرب اسلام اور مغرب کے درمیان جس مکالمے کی ضرورت محسوس کر رہا ہے اس حوالے سے بھی اسے اندازہ ہو جائے گا کہ مسلمانوں میں اسلام کی نمائندگی کرنے والا اصل طبقہ کون سا ہے اور اسے ’’مغرب اور اسلام‘‘ کے درمیان حقیقی مکالمے کے لیے کس سے بات کرنی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عصری تعلیم دریافت کیا دریافت کی کرتے ہیں تعلیم کے ہیں اور عرض کیا اور اس کیا کہ کے لیے وفد کے اور ہم

پڑھیں:

غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو

تل ابیب (ویب ڈیسک )اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں اب بھی حماس کی موجودگی ہے، ان علاقوں سے حماس کا منظم طریقے سے خاتمہ کر رہے ہیں۔ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کو کسی بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کا جواب دیں گے۔

نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ میں کسی بھی فوجی کارروائی کی پیشگی اطلاع امریکا کو دیتے ہیں۔دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ امریکا اسرائیل کو غزہ جنگ بندی معاہدے پر برقرار رکھنے کے لیے خاطر خواہ کوششیں نہیں کر رہا۔

متعلقہ مضامین

  • ایک حقیقت سو افسانے ( آخری حصہ)
  • پاکستان میں دینی مدارس کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے، احسن اقبال
  • پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • ہمارے ٹاؤن چیئرمینوں کی کارکردگی قابض میئر سے کہیں زیادہ بہترہے ، حافظ نعیم الرحمن
  • زباں فہمی267 ; عربی اسمائے معرفہ اور ہمارے ذرایع ابلاغ
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • ہمارے بلدیاتی نمائندوں نے اختیارات سے بڑھ کر کام کرنے کا وعدہ پورا کیا‘ حافظ نعیم الرحمن
  •  دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن 
  • وزارت خزانہ کے اہم معاشی اہداف، معاشی شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا امکان