وی پی این سروس فراہم کنندگان کو کلاس لائسنس کا اجراء شروع
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے پاکستان میں ڈیٹا سروسز کی فراہمی کے ضمن میں کلاس لائسنس کے تحت ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) سروس فراہم کنندگان کی لائسنسنگ کا آغاز کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اس عمل کے پیش نظر پی ٹی اے کی جانب سے دو کمپنیوں کی درخواستیں وی پی این سروسز کے ضمن میں کلاس لائسنس کے اجرا کے لئے منظوری دیدی گئی ہے۔
یہ اقدام کاروباری اداروں کو وی پی این کے قانونی استعمال کی سہولت فراہم کرتا ہے، جس سے ڈیٹا کی سیکیورٹی، پرائیویسی اور قواعد و ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکتا ہےجبکہ شفافیت کو بھی فروغ ملے گا۔
اعلامیے کے مطابق پی ٹی اے اداروں کو ذمہ داری کے ساتھ کنیکٹیویٹی کے حوالے سے معاونت کے لیے پُرعزم ہے، وی پی این سروس فراہم کنندگان کو کہا جاتا ہے کہ وہ کلاس لائسنس کے لیے آن لائن درخواست دینے کے لیے پی ٹی اے سے سے رجوع کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کلاس لائسنس پی ٹی اے
پڑھیں:
یورپی اداروں کے اہلکاروں کا حساس موبائل ڈیٹا فروخت کیے جانے کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یورپ کے متعدد میڈیا اداروں کی مشترکہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بیلجیئم میں لاکھوں شہریوں اور حساس اداروں کے ملازمین کے موبائل فونز کی لوکیشن اور ڈیٹا خفیہ طور پر جمع کرکے فروخت کیا جارہا ہے، اس ڈیٹا میں یورپی یونین کے اداروں، نیٹو ہیڈکوارٹرز اور فوجی اڈوں کے ملازمین کے فونز بھی شامل ہیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق فرانسیسی اخبار Le Monde، بیلجیئن جریدے L’Echo، جرمن نشریاتی اداروں BR اور ARD، ویب سائٹ Netzpolitik.org اور BNR Nieuwsradio کی رپورٹ کے مطابق مختلف موبائل ایپلی کیشنز صارفین کی اجازت کے بغیر ان کا مقام (location data) اکٹھا کرتی ہیں، جسے بعد میں ڈیٹا بروکرز مارکیٹنگ اور دیگر مقاصد کے لیے فروخت کرتے ہیں حالانکہ ان معلومات کو باضابطہ طور پر گمنام یا anonymous قرار دیا جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ ڈیٹا افراد کی نقل و حرکت کو انتہائی درست انداز میں ظاہر کرتا ہے، جن سے ان کے گھروں، دفاتر اور معمول کے مقامات کی نشاندہی ممکن ہوجاتی ہے۔ اس عمل سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو حساس یا دفاعی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ موبائل سگنلز ناتو ہیڈکوارٹرز (Brussels)، SHAPE (Supreme Headquarters Allied Powers Europe – Mons)، بیلجیئن جوہری بجلی گھروں Doel اور Tihange، اور فوجی اڈوں Kleine-Brogel سمیت متعدد حساس مقامات پر پائے گئے جہاں امریکی جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
ایک نیٹو ترجمان نے تسلیم کیا کہ تھرڈ پارٹی ڈیٹا کلیکشن کے خطرات سے آگاہ ہیں اور ان خطرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں، صرف نیٹو مقامات پر ہی ایک ہزار سے زائد موبائل فونز کی موجودگی ریکارڈ کی گئی۔
بیلجیئن وزارت دفاع نے وضاحت کی کہ تمام حساس علاقوں میں موبائل فون کا استعمال ممنوع ہے، جبکہ نیوکلیئر پلانٹس کے آپریٹر Engie نے کہا کہ جوہری تنصیبات کے اندر صرف پیشہ ورانہ مقاصد کے لیے ہی ڈیوائسز استعمال کی جاسکتی ہیں۔
تحقیقی ٹیم نے یہ ڈیٹا اُن بروکرز سے خریدا جو مختلف ایپس سے معلومات اکٹھی کرکے فروخت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق صرف بیلجیئم سے متعلق لوکیشن ڈیٹا سالانہ 24 ہزار سے 60 ہزار ڈالر میں دستیاب ہے، جو روزانہ سات لاکھ موبائلز کی نگرانی پر مشتمل ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر گمنام دکھایا جانے والا ڈیٹا بھی آسانی سے de-anonymize کیا جاسکتا ہے کیونکہ کسی شخص کے گھر اور دفتر جیسے صرف دو مقامات جان لینے سے اس کی 95 فیصد درست شناخت ممکن ہے۔
یورپی کمیشن نے اس انکشاف کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ نجی ڈیٹا کی اس غیر قانونی تجارت پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔