انسانی حقوق کے بہانے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مخالفت کی جائے، چینی وزیر خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
اقوام متحدہ :چین کے وزیر خا رجہ وانگ ای نے کہا ہے کہ چینی صدر شی جن پھنگ نے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے اہم تصور اور گلوبل ڈیولپمنٹ انیشیٹو، گلوبل سیکورٹی انیشیٹو، گلوبل سولائزیشن انیشیٹو پیش کئے ہیں ۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 58ویں اعلیٰ سطح اجلاس سے ویڈ یو لنک کے ذ ریعے خطاب میں منگل کے روز وانگ نے کہا کہ چینی صدر نے دنیا کو چینی حل پیش کیا ہے۔ ہم مختلف ممالک کے ساتھ مل کر صحیح انسانی حقوق کے نظریہ پر قائم رہتے ہوئے عالمی انسانی حقوق کے نظم و نسق میں اصلاحات اور بہتری لانے کے لیے کوشش کریں گے۔ پہلا، ابتدائی مشن کو یاد رکھنا ہے۔ عوام کو مرکز میں رکھتے ہوئے، عوام کے لیے ترقی، عوام پر انحصار کرتے ہوئے ترقی، اور ترقی کے ثمرات کو عوام میں بانٹنے سے عملدرآمد کیا جائے۔
انسانی حقوق کے بہانے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت، قومی خودمختاری، سلامتی اور عوام کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے والے بیانات اور اقدامات کی سختی سے مخالفت کی جائے۔دوسرا،عدل و انصاف کو برقرار رکھنا ہے۔ زندہ رہنے کے حق اور ترقی کے حق کو اولین بنیادی انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیا جائے، اور ملکی خودمختاری، سلامتی اور وقار کے تحفظ کی بنیاد میں فرد کے حقوق اور اجتماعی حقوق کا توازن برقرار رکھا جائے، اور سیاسی، معاشی، سماجی، ثقافتی، ماحولیاتی،تعلیمی سمیت تمام حقوق کو ہم آہنگی کے ساتھ بڑھایا جائے۔ انسانی حقوق کے معاملے میں دوہرے معیارات یا متعدد معیارات اپنانے والے رویوں اور بیانات کو سختی سے مسترد کیا جائے۔تیسرا، باہمی تبادلے اور باہمی سیکھنے پر قائم رہنا ہے۔ حقیقی کثیرالجہتی نظریے پر عمل کیا جائے، مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعمیری مکالمے اور تعاون کو فروغ دیا جائے، تاکہ منصفانہ، معقول اور جامع عالمی انسانی حقوق کے نظم و نسق کا نظام تعمیر کیا جا سکے۔ اپنے ماڈل اور ترجیحات کو دوسروں پر مسلط کرنے، انسانی حقوق کو سیاسی، آلہ کار اور ہتھیار بنانے کے اقدامات کو سختی سے مسترد کیا جائے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انسانی حقوق کے کیا جائے
پڑھیں:
پاکستان کا اعلیٰ سطحی کثیر الجماعتی وفد لندن پہنچ گیا
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں 9 رکنی اعلیٰ سطحی وفد واشنگٹن اور نیویارک کے کامیاب دورے مکمل کرنے کے بعد لندن پہنچ گیا ہے۔
وفد کو وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ حالیہ گشیدگی پر پاکستان کا موقف پیش کرنے اور جموں و کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے مقرر کیا ہے۔
وفد کے دیگر ارکان میں وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک، چیئر پرسن، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی اور سابق وزیر برائے اطلاعات و موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کی چیئر پرسن اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، سابق وزیر تجارت، دفاع اور خارجہ امور، انجینئر خرم دستگیر خان، سینیٹ میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر و سابق وزیر برائے سمندری امور سید فیصل علی سبزواری اور سینیٹر بشریٰ انجم بٹ شامل ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر کے برخلاف پاکستان کے 24 کروڑ افراد کے پانی کے حق پر حملہ کر رہا ہے،
وفد میں 2 سابق سیکریٹری خارجہ، سفیر جلیل عباس جیلانی، جو نگراں وزیر خارجہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، اور سفیر تہمینہ جنجوعہ بھی شامل ہیں۔
لندن میں وفد برطانیہ کی پارلیمنٹ کی سینئر قیادت سے ملاقاتیں کرے گا جس میں پاکستان اور جموں و کشمیر پر آل پارٹیز پارلیمانی گروپ کے ساتھ ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ وفد کے اراکین فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) کی لیڈر شپ و سینئر حکام سے بھی ملاقات کریں گے۔
وفد کے ارکان علاقائی امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کرنے کے لیے سرکردہ تھنک ٹینکس اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بھی وسیع پیمانے پر بات کریں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں مگر شرائط پر نہیں، امن کا حصول مذاکرات اور سفارت کاری سے ہی ممکن ہے
اپنے دورے کے دوران وفد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے جارحانہ اقدامات کے پیش نظر پاکستان کے ذمہ دارانہ طرز عمل کو اجاگر کرے گا، وفد باور کروائے گا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، وہ اس بات پر بھی روشنی ڈالیں گے کہ مذاکرات اور سفارت کاری کو تنازعات اور تصادم پر ترجیح دی جانی چاہیے۔
وفد جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے فروغ کے لیے بین الاقوامی برادری پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دے گا۔
سندھ طاس معاہدے کی معمول کے مطابق کارروائی کو بحال کرنے کی ضرورت بھی وفد کی مہم کا ایک اہم موضوع ہوگا۔