Islam Times:
2025-07-26@22:17:07 GMT

طوفان الاحرار معاہدے کے تحت 620 فلسطینی اسیر رہا

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

طوفان الاحرار معاہدے کے تحت 620 فلسطینی اسیر رہا

42 سالہ فلسطینی بلال یاسین نے رائٹرز کو بتایا کہ اس نے 20 سال اسرائیلی جیلوں میں گذارے۔ اس نے مزید کہا کہ اس عرصے میں اسے ظلم اور ناقص حالات کا نشانہ بنایا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی اسیران میڈیا آفس نے بتایا ہے کہ طوفان الاحرار معاہدے کے پہلے مرحلے کے ساتویں دور میں آج جمعرات کی صبح 620 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ قیدیوں کے میڈیا آفس نے ایک بیان میں وضاحت کی کہ ساتویں کھیپ میں رہا کیے جانے والے قیدیوں میں عمر قید اور زیادہ سزاؤں والے 151 قیدی شامل ہیں۔ القدس اور مغربی کنارے کے 43 قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ معاہدے کے تحت 97 قیدیوں کو جلا وطن کیا جائے گا۔ اس کھیپ میں 24 خواتین اور بچے کے علاوہ 7 اکتوبر کے بعد غزہ سے گرفتار کیے گئے 445 قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہوگی۔

حماس کے ایک ذریعے نے بتایا کہ رہا کیے جانے والے فلسطینیوں میں 445 مرد، 24 خواتین اور نابالغ شامل ہیں جنہیں غزہ سے گرفتار کیا گیا تھا، اس کے علاوہ 151 دیگر قیدی اسرائیلیوں کو ہلاک کرنے کے الزامات کے تحت عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ اس سے قبل لائیو فوٹیج میں ایک بس کو رہائی پانے والے کچھ فلسطینیوں کو مقبوضہ مغربی کنارے کی اسرائیلی عوفر جیل سے نکل کر فلسطینی شہر رام اللہ پہنچتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ جیسے ہی یہ گروپ بس سے اترا، ان کے ارد گرد جمع ہونے والے سینکڑوں لوگوں کی طرف سے خوشی کے نعرے لگائے گئے۔ انہوں نے رہائی پانے والے کچھ قیدیوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔

اسی تناظر میں رہا ہونے والے 42 سالہ فلسطینی بلال یاسین نے رائٹرز کو بتایا کہ اس نے 20 سال اسرائیلی جیلوں میں گذارے۔ اس نے مزید کہا کہ اس عرصے میں اسے ظلم اور ناقص حالات کا نشانہ بنایا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے میں جو کہ اگلے ہفتے کو ختم ہو رہا ہے تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں کی 33 اسرائیلیوں کے بدلے میں رہا کیا جائے گا۔ لیکن اب یہ 42 دن کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کوئی توسیع جس کی وجہ سے باقی 59 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکے گی، یا معاہدے کے دوسرے مرحلے پر بات چیت شروع ہو سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: معاہدے کے قیدیوں کو

پڑھیں:

کولمبیا یونیورسٹی نے غزہ مظالم پر غیرت بیچ دی، ٹرمپ انتظامیہ سے 200 ملین ڈالر کا مک مُکا

واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) کولمبیا یونیورسٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے ایک معاہدے کے تحت 200 ملین ڈالر ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ تصفیہ اس الزام کے بعد کیا گیا کہ یونیورسٹی نے اپنے یہودی طلبہ کو درپیش خطرات کے خلاف مناسب اقدامات نہیں کیے۔

بین الاقوامی زرائع ابلاغ کے مطابق یہ رقم تین سال کی مدت میں امریکی وفاقی حکومت کو ادا کی جائے گی۔ اس معاہدے کے بدلے حکومت نے مارچ میں منجمد کیے گئے 400 ملین ڈالر کے وفاقی گرانٹس میں سے کچھ کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

احتجاج اور الزامات کا پس منظر
یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کولمبیا یونیورسٹی کو گزشتہ سال اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ کے دوران نیویارک کیمپس میں ہونے والے احتجاجات پر تنقید کا سامنا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے الزام عائد کیا تھا کہ یونیورسٹی کیمپس میں بڑھتے ہوئے سام دشمنی کے واقعات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

حکومت کی شرائط اور یونیورسٹی کی تبدیلیاں
اس معاہدے کے تحت کولمبیا یونیورسٹی نے کئی اہم اقدامات کیے ہیں، جن میں شامل ہیں:

مشرقِ وسطیٰ کے مطالعاتی شعبے کی تنظیم نو
خصوصی اہلکاروں کی تعیناتی جو مظاہرین کو ہٹا سکتے ہیں یا گرفتار کر سکتے ہیں
احتجاج میں شریک طلبہ کے خلاف کارروائی
مظاہروں میں شناختی کارڈ دکھانے کی شرط
مظاہروں کے دوران چہرے ڈھانپنے یا ماسک پہننے پر پابندی
طلبہ گروپوں پر سخت نگرانی
کیمپس سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ
ڈی آئی ای پالیسیوں کا خاتمہ
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ کولمبیا یونیورسٹی نے اس بات سے بھی اتفاق کیا ہے کہ وہ ڈی آئی ای (ڈائیورسٹی، اِکویٹی اینڈ اِنکلوژن) پالیسیوں کا خاتمہ کرے گی اور طلبہ کو صرف میرٹ کی بنیاد پر داخلہ دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ طلبہ کے شہری حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

آزاد نگران کی تقرری
معاہدے کے مطابق ایک آزاد نگران کو مقرر کیا جائے گا جو یونیورسٹی میں کی جانے والی اصلاحات کی نگرانی کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت منسوخ یا معطل کیے گئے بیشتر گرانٹس بھی بحال کیے جائیں گے۔

یونیورسٹی کا مؤقف
کولمبیا یونیورسٹی کی قائم مقام صدر کلیئر شپ مین نے ایک بیان میں کہا کہ یہ معاہدہ ادارے کی خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کے ساتھ شراکت داری کو بحال کرنے میں مدد دے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ کسی غلطی کا اعتراف نہیں بلکہ ایک باہمی اتفاق رائے پر مبنی فیصلہ ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کا مختلف موقف
دوسری جانب، ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف قانونی جنگ چھیڑ رکھی ہے اور عدالت میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ حکومت نے ہارورڈ کے خلاف بھی اربوں ڈالر کے فنڈز معطل کر دیے ہیں اور غیر ملکی طلبہ کے داخلے پر پابندیاں لگانے کی کوشش کی ہے۔ اس مقدمے کی سماعت پیر سے شروع ہو چکی ہے۔

Post Views: 7

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں 66 ہزار قیدیوں کے کھانے اور چائے پر اخراجات کی تفصیلات سامنے آ گئیں
  • کیا عالمی طاقتیں جنوب مشرقی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک رکھ پائیں گی؟
  • سعودی عرب اور شام کے درمیان 24 ارب ریال کے سرمایہ کاری معاہدے، اقتصادی تعاون کے نئے دور کا آغاز
  • جارج عبداللہ، 41 برس بعد آج فرانسیسی جیل سے رہا ہونے والا اہم شخص کون ہے؟
  • برطانیہ اور بھارت کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ طے پاگیا
  • بریگزٹ کے بعد برطانیہ کا بھارت کے ساتھ سب سے بڑا معاہدہ
  • کولمبیا یونیورسٹی نے غزہ مظالم پر غیرت بیچ دی، ٹرمپ انتظامیہ سے 200 ملین ڈالر کا مک مُکا
  • سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کی حمایت پر وزیرِاعظم کا اظہارِ تشکر
  • پاکستان اور افغانستان کے مابین درآمدی اشیاء پر ٹیرف میں کمی کا معاہدہ
  • ہم نے جنگبندی کے معاہدے کی تجاویز کا جواب دیدیا، حماس