زیلنسکی کا ٹرمپ سے تلخ کلامی پر معافی سے انکار، تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تلخ کلامی پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے جس سے تعلقات میں مزید کشیدگی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
جمعہ کے روز وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی ملاقات تلخ کلامی میں بدل گئی۔ روس کے ساتھ جنگ بندی پر دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے پر سخت الزامات لگائے۔
اس دوران صدر زیلنسکی نے متعدد بار جواب دینے کی کوشش کی لیکن صدر ٹرمپ نے انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا۔ نتیجتاً، ٹرمپ انتظامیہ نے باقی مصروفیات منسوخ کرتے ہوئے زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس سے روانہ کر دیا اور مشترکہ پریس کانفرنس بھی منسوخ کر دی۔
وائٹ ہاؤس سے روانگی کے بعد یوکرینی صدر نے تلخ کلامی پر معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ "آج وائٹ ہاؤس میں جو کچھ ہوا، وہ اچھا نہیں تھا۔ اگر ممکن بھی ہو تو میں دوبارہ وہاں نہیں جاؤں گا۔"
انہوں نے تسلیم کیا کہ یوکرین کے پاس روس کو اپنی سرزمین سے نکالنے کے لیے کافی ہتھیار نہیں ہیں اور امریکی حمایت کے بغیر روسی افواج کا حملہ روکنا مشکل ہوگا۔ صدر زیلنسکی نے مزید کہا کہ "امریکا کے ساتھ تعلقات کو بچایا جا سکتا ہے، ہم ایک شراکت دار کے طور پر امریکا کو کھونا نہیں چاہتے۔"
اس واقعے کے بعد بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وائٹ ہاؤس تلخ کلامی
پڑھیں:
ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا
واشنگٹن:امریکا کے وزیر توانائی کرس رائٹ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو ایٹمی تجربات کا حکم دیا گیا ہے، ان میں فی الحال ایٹمی دھماکے شامل نہیں ہوں گے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں امریکی وزیر توانائی اور ایٹمی دھماکوں کا اختیار رکھنے والے ادارے کے سربراہ کرس رائٹ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس وقت جن تجربوں کی ہم بات کر رہے ہیں وہ سسٹم ٹیسٹ ہیں اور یہ ایٹمی دھماکے نہیں ہیں بلکہ یہ انہیں ہم نان-کریٹیکل دھماکے کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات میں ایٹمی ہتھیار کے تمام دیگر حصوں کی جانچ شامل ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ صحیح طریقے سے کام کر رہے ہیں اور ایٹمی دھماکا کرنے کی صلاحیت کو فعال کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربے نئے سسٹم کے تحت کیے جائیں گے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئے تیار ہونے والے متبادل ایٹمی ہتھیار پرانے ہتھیاروں سے بہتر ہوں۔
کرس رائٹ نے کہا کہ ہماری سائنس اور کمپیوٹنگ کی طاقت کے ساتھ، ہم انتہائی درستی کے ساتھ بالکل معلوم کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے میں کیا ہوگا اور اب ہم یہ جانچ سکتے ہیں کہ وہ نتائج کس صورت میں حاصل ہوئے اور جب بم کے ڈیزائن تبدیل کیے جاتے ہیں تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔
قبل ازیں جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا فوری حکم دیا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ایٹمی تجربے کی آغاز کی دھمکی پر روس نے بھی خبردار کردیا؛ اہم بیان
ڈونلڈ ٹرمپ سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا ان تجربات میں وہ زیر زمین ایٹمی دھماکے بھی شامل ہوں گے جو سرد جنگ کے دوران عام تھے تو انہوں نے اس کا واضح جواب نہیں میں دیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکا نے 1960، 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔