جے یو آئی بلوچستان کے ڈپٹی سیکرٹری غلام سرور اور مولانا امان اللہ قاتلانہ حملے میں جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
کوئٹہ (نیوزڈیسک)جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹری غلام سرور زہری اور مولانا امان اللہ قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوگئے، مرحوم سابق صوبائی وزیر وڈیرہ عبدالخالق مرحوم کے فرزند اور اُن کے سیاسی جانشین تھے۔
ترجمان جے یو آئی اسلم غوری کی جانب سے جے یو آئی کے صوبائی رہنما وڈیرہ غلام سرور اور مولانا امان اللہ کی شہادت کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ اسلم غوری کا کہنا تھا کہ وڈیرہ غلام سرور اور مولانا امان اللہ کی شہادت افسوسناک ہے، ج
ے یو آئی اور مذہبی طبقے کے خلاف ٹارگٹ کلنگ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں جمہوریت کا ساتھ دینے کی سزا دی جا رہی ہے، غلام سرور اور مولانا امان اللہ کی شہادت نااہل بلوچستان حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے۔
ترجمان جے یو آئی نے بتایا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں، آئے روز ناحق انسانوں کا قتل کیا جا رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف آئے روز کے آپریشن لیکن دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے۔
شاہ نعمت اللہ ولی کی800 سال قبل کی گئی وہ پیشگوئیاں جو سچ ثابت ہورہی ہیں
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: غلام سرور اور مولانا امان اللہ
پڑھیں:
بلوچستان، خیبر پی کے میں حکومتی رٹ نہیں، دہشتگردی کا خاتمہ دور کی بات ہے: فضل الرحمٰن
اسلام آباد+لاہور(خبر نگار +نوائے وقت رپورٹ+خصوصی نامہ نگار)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ بہت دور کا لفظ ہے ، افسوس حکومت نام کی رٹ بلوچستان اور خیبر پی کے میں بالکل بھی نہیں۔ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام مجلس قائدین اجلاس اور ‘‘قومی مشاورت’’ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دن کے وقت بھی دہشتگرد دندناتے پھرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے ۔ یہ بدامنی ریاستی اداروں کی نااہلی ہے یا شعوری طور پر کی جا رہی ہے ، اس حوالے سے ہمیں جرأت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے ، مسلح جدوجہد جائز نہیں۔ افغانستان پر جب امریکا نے حملہ کیا اس وقت ایک انتشاری کیفیت تھی، اس وقت ملک میں متحدہ مجلس عمل فعال تھی، اتحاد امہ کے لیے ہم اس وقت جیلوں میں بھی گئے ۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردی کے خلاف سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے مگر جو مہاجر ہوئے وہ آج بھی دربدر ہیں، یہ لوگ جو افغانستان گئے تھے وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے ؟ مولانا فضل الرحمٰن نے واضح کیا کہ ہم نے 26 ویں ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبرداری پر مجبور کیا، اس کے بعد یہ 22 نکات پر منحصر ہوا جس میں ہم نے پھر مزید اقدامات کیے ۔ سود کے خاتمے کے حوالے سے 31 دسمبر 2027ء کی تاریخ آخری ہے اور اب باقاعدہ دستور میں درج ہے کہ یکم جنوری 2028ء تک سود کا مکمل خاتمہ ہوگا، ہم سب کو اس پر نظر رکھنی چاہیے کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا۔ ہم کورٹ میں گئے تو حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ہی آئین کے خلاف اٹارنی جنرل کھڑا کرے ۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی سپریم کورٹ کا اپیلٹ کورٹ میں جائے تو وہ معطل ہو جاتا ہے ، اب صورتحال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد اب یکم جنوری 2028ء کو اس پر عمل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دے ، یہ کیسا اسلامی جمہوریہ ہے کہ زنا بالرضا کی سہولت اور جائز نکاح کے لیے دشواری؟ غیرت کے نام پر قتل انتہائی قابل مذمت اور غیر شرعی ہے ، قانون سازی معاشرے کی اقدار کے مطابق ہونی چاہیے ۔ اگر معاشرتی اقدار کا خیال نہ رکھا جائے تو قانون سازی پر دونوں طرف سے طعن و تشنیع ہوتی ہے ۔دوسری جانب امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث سینیٹر حافظ عبدالکریم کی مولانا فضل الرحمن سے اہم ملاقات بھی ہوئی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں ملکی سیاسی، مذہبی اور معاشی صورتحال پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ فضل الرحمن نے کہا موجودہ حالات میں اتفاق، اتحاد اور یکجہتی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، مولانا فضل الرحمن، سینٹر عبدالکریم کا کہنا تھا دینی و سیاسی قیادت کو مل کر پاکستان کی ترقی کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا ہو گا۔ کوشش ہے کہ ملک میں تمام دینی جماعتیں ایک پیج پر ہوں اور مل بیٹھ کر قومی ایجنڈا ترتیب دیں۔