Daily Mumtaz:
2025-07-26@01:03:58 GMT

ٹرمپ زیلنسکی جھڑپ دنیا بھرمیں توجہ کامرکز

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

ٹرمپ زیلنسکی جھڑپ دنیا بھرمیں توجہ کامرکز

اسلام آباد(طارق محمود سمیر) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان وائٹ ہائوس میں تلخ کلامی کا واقعہ عالمی میڈیا اور دنیا کے تمام رہنمائوںکی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ،ڈونلڈ ٹرمپ اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ جنگ زدہ ملک کا کوئی صدر وائٹ ہائوس میں آکر امریکی صدر کو سخت زبان میں جواب دے گا ، امریکی صدر نے بھی اپنے مزاج کے مطابق سخت لب ولہجہ اپنایا اورامریکی نائب جے ڈی صدر وینس نے اپنے صدر کا بھرپور ساتھ دیا ، اگر وہاں میڈیا موجود نہ ہوتا تو صدر ٹرمپ یوکرین کے صدرکو باکسنگ سٹائل میں تھپڑ بھی رسید کرسکتے تھے ۔بہر حال یہ واقعہ مستقبل کے عالمی اتحاد بننے اور ٹوٹنے کے واضح اشارے دے رہا ہے ، دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا اور یورپ کی سوچ میں بڑا اختلاف سامنے آیا ہے۔ہٹلرکو ہرانے کیلئے امریکہ ،برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے آپس میں اتحادکیا تھا اور بعد ازاں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک عالمی امور میں ہمیشہ اتحادی رہے چاہے افغانستان سے روس کو نکالنے کیلئے افغان جہادکا زمانہ ہو ،افغان جہادکے شروع ہونے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے آپس میں اتحادکیا اور پاکستان کے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق نے افغان مجاہدین کے ذریعے روس کو پاش پاش کیا اور روس دو لخت ہوگیا اورکئی ریاستیں قائم ہوئیں ، روس کا گرم پانیوں تک جانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، پھر نائن الیون کے بعد افغانستان میں جوکارروائیاں ہوئیں ان میں امریکہ اور یورپ اتحادی رہے ، عراق جنگ ، لیبیا ، شام پر حملے ہوں یا ایران کے خلاف محاذ آرائی ہو اور حال ہی میں غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کے معاملے میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک نے اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا ، شاید 80سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ یوکرین جنگ بندکرانے کے معاملے پر اور امریکی صدرکی طرف سے روس کی پالیسیوںکا ساتھ دینے کے اعلانات پر برطانیہ اور یورپ کے حوالے سے امریکہ پہلی مرتبہ تنہائی کا شکار ہوا ہے،و ائٹ ہائوس میں ہونے والی تاریخی جھڑپ میں برطانیہ اور یورپی ممالک نے صدر زیلنسکی کا کھل کر ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے۔امریکی صدر جو دنیا کے بڑے بزنس مینوں میں شمارکئے جاتے ہیں وہ ہر معاملے کو بزنس اور پیسے پر تولنے کے ا نداز میں دیکھتے ہیں اسی لئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ یوکرین کو 350ارب ڈالر کا اسلحہ دیا اور ہم نے یوکرین کی جنگ لڑی ، دنیا میں سفارتی طور پر دیکھا جائے توکسی بھی تنازع کے حل یا اس کی طرف بڑھنے سے پہلے بیک ڈور ڈپلومیسی کی جاتی ہے پھر وزرائے خارجہ او ر سربراہ مملکت کے لیول کے حتمی بات چیت کے نتیجے میں معاہدوں کا اعلان کیا جاتا ہے ، یوکرین معاملے پر لگتا ہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی کرنے میں امریکی صدر ناکام رہے اور انہوں نے اپنے ذہن میں تصورکر لیا تھا کہ یوکرینی صدر جب وائٹ ہائوس آئیںگے تو وہ نہ صرف روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کا اعلان کردیںگے اور منرل معاہدے پر بھی دستخط کر دیںگے لیکن یوکرین کے صدر نے اپنے اتحادیوں برطانیہ اور یورپی ممالک کو اعتماد میں لیے بغیر صدر ٹرمپ کی بات ماننے سے صاف انکار کیا اور ان کے منہ پر خوب سنائیں، سفارتی ماہرین کے مطابق اگر امریکی صدر نے یہی طرز عمل جاری رکھا تو دنیا میںکوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا ہے ، یوکرین ، یورپ کا پڑوسی ملک ہے اور یورپی ممالک یہ سمجھتے ہیںکہ اگر روس نے یوکرین پر قبضہ کر لیا تو اگلی باری یورپی ممالک کی آئے گی لہٰذا اسی وجہ سے وہ یوکرین کیساتھ کھڑے ہیں، اس ساری صورتحال میں روس بہت خوش ہے اور روسی وزیر خارجہ نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وائٹ ہائوس میں جوکچھ ہوا وہ ہماری توقعات سے ہٹ کر ہے تاہم جوگفتگو ہوئی اس میں دیکھا جائے تو ٹرمپ کی جانب سے زیلنسکی کو تھپڑ نہ مارنا ایک معجزہ لگتا ہے ۔ امریکہ اور یورپی اتحادکے نتیجے میں دنیا میں بڑی تباہیاں ہوئی ہیں بالخصوص مسلم ممالک کو بہت نقصان پہنچایا گیا ،ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے ، عراق ، لیبیا، شام میں بھی لاکھوں افرادکی جانب سے گئے اور ان ممالک میں مرضی کی حکومتیں لانے کی کوششیںکی گئیں اب یوکرین کے صدر برطانیہ پہنچ چکے ہیں اور برطانوی وزیراعظم سمیت دیگر یورپی ممالک کے رہنمائوں ان کی اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں وہ امریکی صدرکے رویے پر مشاورت کریںگے ، اس تمام صورتحال کے باوجود اگر دیکھا جائے تو یورپ امریکہ کے بغیر مستحکم نہیں رہ سکتا اور انہیں اپنے دفاع کو مضبوط بنانے اور روسی خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکی اسلحے کی ضرورت رہے گی، آئندہ چند ہفتوں میں عالمی سطح پر بہت سے اہم فیصلے ہونے والے ہیں دیکھتے ہیں یورپی ممالک برطانیہ،امریکہ کے درمیان اختلافات کس حد تک مزید آگے بڑھتے ہیں ، حال ہی میں فرانس کے صدر بھی جب وائٹ ہائوس گئے تھے تو ان کی بھی سخت گفتگو امریکی صدر سے ہوئی تھی اور انہوں نے بھی امریکی صدرکے موقف کو مستردکیا تھا ۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: برطانیہ اور یورپ یورپی ممالک نے یوکرین کے صدر امریکی صدر وائٹ ہائوس ہائوس میں اور ان

پڑھیں:

اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ

اسلام ٹائمز: 5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انکا ملک پاکستان کیساتھ ملکر کابل ہوائی اڈے پر ہونیوالے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ اسوقت انکا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کیساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کیساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، نیویارک کے چار روزہ دورے کے بعد ایک روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق اسحاق ڈار کی اس دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے باضابطہ ملاقات ہوگی۔ پاکستانی وزیر خارجہ اس کے بعد اٹلانٹک کونسل امریکن تھنک ٹینک میں تقریر کریں گے، جہاں وہ علاقائی اور عالمی مسائل پر پاکستان کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کے مستقبل کی وضاحت کریں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں پاکستان امریکہ تعلقات کے اہم پہلوؤں اور تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کے فروغ پر خصوصی توجہ کے ساتھ ان رابطوں کو مضبوط بنانے کے طریقوں اور ذرائع کا جائزہ لیا جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور اقتدار کے آغاز کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی پاکستانی حکومت کے وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ امریکہ ہے۔ اس سے قبل پاکستانی فوج کے کمانڈر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے رواں سال 18 جون کو امریکہ کے سرکاری دورے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ اسلام آباد حکومت کے اعلیٰ ترین سفارت کار کا دورہ امریکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب امریکہ کی حمایت اور مغربی ممالک کی ملی بھگت سے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم جاری ہیں اور پاکستان نے غزہ میں نسل کشی اور اسلامی جمہوریہ ایران  کے خلاف صیہونی جارحیت کی متعدد بار مذمت کی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کل اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ملک کے وزیر خارجہ اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ اہم علاقائی اور عالمی مسائل بالخصوص ایران کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کے بعد کی حالیہ پیش رفت پر بات کریں گے۔

امریکہ اور اس کے یورپی شراکت داروں کے برعکس (جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حوالے سے اشتعال انگیز اور جارحانہ رویہ اپنایا ہے)، اسلام آباد، کسی بھی زبردستی کی مخالفت کرتے ہوئے، تہران کے جوہری مسئلے کے پرامن اور سفارتی حل پر زور دیتا ہے۔ اس سال جولائی کے اوائل میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کے حل کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت اور تعمیری طرز عمل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ جنگ میں امریکہ اور اسرائیلی حکومت کے رویئے نے خطے کو ناقابل تصور نتائج سے دوچار کیا ہے اور اسے تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ اسلام آباد نے صیہونی حکومت کی 12 روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی بھی مذمت کی ہے اور جارحین کے خلاف اپنے دفاع کے اسلامی جمہوریہ ایران کے جائز حق کی حمایت بھی کی ہے۔

ٹرمپ کی طرف سے پاک ہند کارڈ کے استعمال کی کوشش
اسحاق ڈار کے دورہ واشنگٹن کے مقاصد کے حوالے سے پاکستانی سیاسی اور میڈیا کے حلقوں میں ایک اور موضوع جو خصوصی طور پر زیر بحث ہے، وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ 4 روزہ جنگ میں ٹرمپ کی طرف سے دو ایٹمی ہمسایوں کے درمیان جنگ بندی قائم کرنے کا دعویٰ ہے۔ اسلام آباد نے تو ٹرمپ کی نام نہاد کوششوں کو سراہا ہے، لیکن نئی دہلی اپنے مغربی پڑوسی کے ساتھ تنازع کے حل میں امریکی صدر کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد ٹرمپ نے کئی بار ملکی اور غیر ملکی حلقوں میں خود کو فاتح قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنے تجارتی اقدامات سے اسلام آباد اور نئی دہلی کو جنگ کے پھیلاؤ سے دور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت پر سوال اٹھاتا ہے اور واشنگٹن کی جانب سے چین کے ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک تعلقات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے مطابق چین کے ساتھ سرد جنگ کو بڑھاوا دے کر امریکہ بیجنگ کے ساتھ دوسرے ممالک کے آزاد اور مستحکم تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چین مخالف مقاصد کے حصول کے لیے نئی دہلی کے ساتھ بڑے سکیورٹی اور فوجی تعاون کو بڑھا رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ سے توقع ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے بارے میں اپنے ملک کے تحفظات کا اظہار کریں گے، جس میں ہندوستان کی جانب سے "سندھ  طاس معاہدہ" کے نام سے موجود مشترکہ آبی معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ کیا امریکی نئی دہلی کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ دو جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے درمیان کشیدگی کو دوبارہ بڑھنے سے روکے۔

ٹرمپ کے کئی ممالک کے خلاف ٹیرف اقدامات کے بعد پاکستان نے بھی واشنگٹن سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ نے حال ہی میں واشنگٹن کا دورہ کیا اور وزیر خزانہ اور ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے تجارت سے ملاقاتیں کیں۔ اسلام آباد نے اعلان کیا ہے کہ ان مشاورت کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ افغانستان کی صورتحال اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدوں پر دہشت گردی کا چیلنج بھی اسحاق ڈار اور مارکو روبیو کے درمیان بات چیت کے دیگر شعبوں میں متوقع موضوع ہے۔ غور طلب ہے کہ پاکستان میں آئی ایس آئی ایس کے ایک کارکن کی گرفتاری پر مارچ کے وسط میں امریکی صدر کی بات چیت انسداد دہشت گردی کے شعبے میں دو طرفہ تعاون میں نسبتاً بہتری کی نشاندہی کرتی ہے۔

5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ مل کر کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کے ساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کے ساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔

جب امریکی صدر نے بیانات میں پاکستان پر جھوٹ اور فریب کا الزام لگایا تو انہوں نے دعویٰ تک کیا کہ ان کے ملک نے پاکستان کو دسیوں ارب ڈالر دینے کے باوجود انسداد دہشت گردی کے تعاون میں کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا۔ ٹرمپ کے ان ریمارکس پر پاکستان میں امریکہ کے خلاف مذمت کی لہر دوڑ گئی اور اسلام آباد میں اس وقت کی حکومت نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی مسلسل فضا کو تسلیم کرتے ہوئے واشنگٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا احترام کرے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
  • امریکا سے گوشت نہ خریدنے والے ممالک ‘نوٹس’ پر ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
  • استنبول: ایران اور یورپی ممالک کے درمیان جوہری مذاکرات دوبارہ شروع
  • دنیا میں استحکام کیلئے چین اور یورپی یونین کے تعلقات ناگزیر ہیں، چینی صدر
  • دنیا  امریکہ کی اداروں اور معاہدوں سے’’ دستبرداری‘‘کی عادی ہو گئی ہے، سی جی ٹی این کا سروے
  • انسداد دہشتگردی میں پاکستان کے کلیدی کردار کی دنیا معترف
  • سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا سکردو میں "حسین سب کا" کانفرنس سے خطاب
  • یوکرین کا زیلنسکی-پیوٹن براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ، روس کی مختصر جنگ بندی کی تجویز
  • غزہ سے یوکرین تک تنازعات کے پرامن حل میں سفارتکاری کو موقع دیں، گوتیرش
  • جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل