دنیا میں استحکام کیلئے چین اور یورپی یونین کے تعلقات ناگزیر ہیں، چینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 25th, July 2025 GMT
بیجنگ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جولائی2025ء)چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ دنیا میں استحکام کیلئے چین اور یورپی یونین کے تعلقات ناگزیر ہیں۔چین کے صدر شی جن پنگ نے 25 ویں چین، یورپی یونین سربراہی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ پیچیدہ عالمی حالات میں چین اور یورپی یونین دنیا میں استحکام کا ضامن ہونا چاہئے۔شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ چین اور یورپی یونین کو چاہئے کہ وہ دنیا میں زیادہ استحکام اوراعتماد فراہم کریں اور باہمی تعلقات کو پائیدار اور مثبت بنیادوں پر استوار رکھیں۔
انہوں نے یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا اور یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان ڈیر لیین سے ملاقات کے دوران کہاکہ رواں سال چین اور یورپی یونین کے سفارتی تعلقات کی 50ویں سالگرہ اور اقوامِ متحدہ کے قیام کی 80ویں سالگرہ ہے اور اس تناظر میں چین، یورپی یونین تعلقات ایک اہم تاریخی موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔(جاری ہے)
شی جن پنگ نے گزشتہ پانچ دہائیوں میں ہونے والی کامیاب باہمی تعاون و تبادلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان تعلقات سے دونوں فریقوں کو ناصرف فائدہ پہنچا بلکہ دنیا کو بھی ثمرات حاصل ہوئے، انہوں نے زور دیا کہ چین اور یورپی یونین کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔
چینی صدر کا مزید کہنا تھا کہ اختلافات کے باوجود مل کر کام کرتے ہوئے باہمی مفاد کی بنیاد پر تعاون کو فروغ دینا چاہئے، انہوں نے کہاکہ موجودہ عالمی تناظر میں جو ایک صدی میں پہلی بار اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے چین اور یورپی یونین کو قائدانہ بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے اقتصادی فیصلے کرنا ہوں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ دونوں فریق جو کہ کثیرالجہتی اور کھلے بین الاقوامی تعاون کے حامی ہیں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے سے تعلقات مضبوط کریں، اعتماد بڑھائیں اور گہرے تعاون کو فروغ دیں تاکہ موجودہ پیچیدہ عالمی حالات میں دنیا کو مزید استحکام فراہم کیا جا سکے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چین اور یورپی یونین کرتے ہوئے دنیا میں انہوں نے
پڑھیں:
استنبول مذاکرات میں عبوری رضامندی — خطے میں امن و استحکام کی نئی امید
پاکستان اس تمام معاملے کو internationalise کرنے میں کامیاب جو پاکستان کی ایک اہم سفارتی کامیابی ہے -
گزشتہ چھ روز سے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے وفود کے درمیان انتہائی اہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیش رفت حاصل کرنا تھا: افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکنا، اور بھارت کی پشت پناہی یافتہ دہشت گرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا۔
یہ مذاکرات کئی موقعوں پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیے۔ خاص طور پر گزشتہ روز تک صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا۔ تاہم، میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔
آج ہونے والے مذاکرات کے دوران ایک عبوری باہمی رضامندی پر اتفاق کیا گیا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:-
1. تمام فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دوحہ میں طے شدہ فائربندی کو پائیدار بنانے کیلئے اسے جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا (تاہم یہ رضامندی افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی نہ ہونے سے مشروط ہے : اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کریں گے)۔
3. مزید تفصیلات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کے لیے اگلی ملاقات 6 نومبر کو استنبول میں ہوگی۔
4. ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور verification میکانزم تشکیل دیا جائے گا جو امن کو یقینی بنانے کے ساتھ خلاف ورزی پارٹی کے خلاف فیصلہ کرنے کا بھی اختیار رکھے گا۔
5. ترکیہ اور قطر نے بطور ثالث اور میزبان دونوں فریقوں کی فعال شمولیت کو سراہا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ مستقل امن اور استحکام کے لیے دونوں فریقین کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔
مذاکرات کے دوران پاکستان کا وفد دلائل، شواہد اور اصولی مؤقف کے ساتھ ثابت قدم رہا۔ پاکستانی وفد نے جس استقامت، بصیرت اور منطقی بنیادوں پر اپنے مطالبات پیش کیے، وہ پیشہ ورانہ مہارت کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ آخر کار عوام کے مفاد کی جیت ہوئی اور افغان وفد ایک عبوری مفاہمت پر آمادہ ہونے پر مجبور ہوا ۔
اس تمام پس منظر میں جو عبوری پیش رفت حاصل ہوئی ہے، اسے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے عوام بلکہ خطے میں امن، استحکام اور عالمی سیکیورٹی کے لیے ایک مثبت سنگِ میل قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو مخالف قوتوں کی جانب سے پیدا کردہ رکاوٹوں، الزامات اور تخریبی ذہنیت کے باوجود دلیل، تدبر اور قومی مفاد پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ ہے۔
پاکستان نے جس سنجیدگی، فہم و فراست اور قومی وقار کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی، وہ قابلِ تحسین ہے۔ ساتھ ہی ترکیہ اور قطر جیسے برادر ممالک کی میزبانی اور ثالثی نے اس عبوری کامیابی کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
پاکستان کی ریاست، قیادت اور عوام کی طرف سے امن کی کوششیں جاری رہیں گی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ ملکی خودمختاری، قومی مفاد اور عوام کی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ ہرگز نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس مؤقف پر یکساں، پُرعزم اور مکمل طور پر متحد ہے، اور اپنی قوم کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ہر داخلی و خارجی خطرے کا مقابلہ بھرپور تیاری، وسائل اور عزم سے کرے گی۔