Daily Ausaf:
2025-07-26@14:21:24 GMT

اسلام میں گداگری کی ممانعت

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

گداگری بہت بڑا سوشل ایشو ہے جس نے مستقل پیشے کی صورت اختیار کر لی ہے۔گداگری کے اب نت نئے طریقے متعارف ہو گئے ہیں-شہر لاہور کا سروے کیا گیا تو پتہ چلا اس پیشے سے کئی سو خاندان وابستہ ہیں-جو شہر ہی کے مضافات میں واقع کچی بستیوں یا جھگیوں میں اقامت رکھتے ہیں۔اب ایسی خبریں بھی عام ہیں کہ چند منظم گروہ گداگری کو انٹرنیشنل سطح پر بھی پرموٹ کر رہے ہیں۔ تانے بانے سعودیہ میں بھی جا ملتے ہیں جہاں سے اب تک گداگری کے الزام میں بہت سے پاکستانیوں کو ’’ڈی پورٹ‘‘کیا جا چکا ہے-جن میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے-ہم مسلمان ہیں اور اسلام نے کسی بھی صورت گداگری کو پسند نہیں کیا بلکہ کسب حلال پر زور دیا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات سے منہ موڑ لیا ہے جس کے باعث ذلیل و خوار ہو رہے ہیں-اس ’’ذلت‘‘ کا اہم اور بڑا سبب ’’گداگری‘‘ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر سب سے پہلے حضرت آدمؑ کو مبعوث فرما کر ساتھ ہی ان کو ذریعہ معاش بھی دے دیا کہ’’روزی کما اور کھا‘‘ حضرت آدم کے بعد انبیا کرام کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع ہوا جبکہ ہر نبی نے اپنے لیئے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش اپنایا۔ جیسا کہ حضرت آدمؑ کھیتی باڑی اور حضرت زکریاؓ بڑھئی کا کام کرتے تھے جبکہ حضرت اویسؓ درزی کا کام کیا کرتے تھے-حضرت موسیٰ ؑ بھیڑ بکریاں چراتے تھے-حضرت داد آہن گر تھے۔ حضرت ابراہیم بزاز تھے-حضرت اسماعیل ؑ تیر بناتے تھے۔ خود حضرت محمد ﷺنے مزدوری پر بکریاں چرائیں اور تجارت بھی کی۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسان کے لیئے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے روزگار کمانا کتنا ضروری ہے،لیکن عام لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا اور تعداد میں اضافے کے ساتھ لوگ سہل پسندی کا شکار ہوتے گئے-کام کرنے کی بجائے انہوں نے دوسروں کے سامنے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیئے ہاتھ پھیلانا شروع کر دئیے۔ یہی گداگری کی ابتدا تھی-لفظ گداگری ’’گداگر‘‘سے ماخوذ ہے جو فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ایک مانگنے والا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے یہ کسی صورت بھی انسانیت کی تذلیل و تحقیر برداشت نہیں کرتا ۔ تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ صحابہ کرام کو انتہائی مشکل حالات سے بھی گزرنا پڑا لیکن ایسے حالات میں بھی انہوں نے صبر اور تقوی کی مثال قائم کی اور کسی کے بھی سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا،کیونکہ ان کے پیش نظر اللہ کا یہ فرمان تھا ’’ہم نے دن کو کسبِ معاش کا وقت بنایا ہے اس میں تمہارے لئے معیشت کے اسباب پیدا کئے اور ان (جانوروں اور پرندوں)کے لئے بھی جنہیں تم رزق مہیا نہیں کرتے،رزق حلال کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالی نے مزید ارشاد فرمایا کہ تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں اگر تم (زمانہ حج میں تجارت کے ذریعے) اپنے رب کا فضل یعنی رزق بھی تلاش کر لو،کسی قوم، قبیلے، ملک یا معاشرے کی ترقی کا انحصار اس کے ذرائع معاش پر ہوتا ہے-اگر معاشرے میں چوری، ڈکیتی، گداگری، رشوت اور اقربا پروری کا ماحول ہو تو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا جس معاشرے میں معاش کے ذرائع صحیح ہوں، وہی معاشرہ ترقی کر کے اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوا ’’بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی نہ لائیں-‘‘
آپﷺ نے ہمیشہ ہاتھ سے روزی کمانے کو ترجیح دی اور اس کی حوصلہ افزائی فرمائی-یہ الگ بات ہے کہ آپﷺ نے اپنے در سے کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا-مگر کبھی اس کی حوصلہ افزائی بھی نہ فرمائی۔ اس کی وضاحت اس حدیث مبارک سے بھی ہوتی ہے، حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا آپ نے فرمایا تمہارے گھر میں کچھ ہے؟ تو انصاری نے عرض کی ایک کمبل ہے جس کا کچھ حصہ بچھاتے ہیں اور کچھ اوڑھ لیتے ہیں۔ پانی پینے کا پیالہ بھی ہے-فرمایا ’’دونوں چیزیں لے آئو‘‘ انصاری دونوں چیزیں لے آیا۔رسول اللہ ﷺنے دونوں چیزیں لے لیں اور فرمایا یہ دونوں چیزیں کون خریدے گا! ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ میں دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔آپ نے پھر فرمایا ’’ایک درہم سے زیادہ کون دے سکتا ہے؟‘‘ ایک اور شخص نے عرض کیا ’’میں دو درہم دے سکتا ہوں۔‘‘ آپ نے دونوں درہم انصاری کو دے دئیے اور فرمایا ایک درہم سے گھر والوں کو کھانا خرید کر دو جبکہ دوسرے سے کلہاڑا خریدو اور میرے پاس لے آ-انصاری نے ایسا ہی کیا-رسول اللہ ؓ نے کلہاڑا لیا اور اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونکا اور فرمایا جا لکڑیاں کاٹو اور پندرہ یوم کے بعد دوبارہ میرے پاس آئووہ شخص لکڑیاں چیرتا اور بیچتا رہا۔ پندرہ دن کے بعد حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم تھے-نبیؓ نے فرمایا کچھ کا کھانا خرید لو اور کچھ سے کپڑا، پھر فرمایا’’خود کمانا تمہارے لئے بہتر ہے۔ تم قیامت کے روز ایسی حالت میں حاضر ہو کہ مانگنے کا داغ تمہارے چہرے پر نہ ہو۔ مانگنے کا عمل کسی طرح بھی درست نہیں۔ سوائے اس کے کہ انسان انتہائی محتاج یا سخت مقروض ہو‘‘ جب آپ سے کسب کے بارے دریافت کیا گیا کہ کون سا کسب یا کاروبار اچھا ہے تو آپ نے ہاتھ سے کام کرنے کو افضل قرار دیا اور عین فرض کہا۔ جس طرح ہمارے لیئے دوسرے فرائض کی بجا آوری لازم ہے-اسی طرح رزق حلال کا حصول بھی عین فرض ہے۔ حدیث ہے’’ بنیادی فرائض کے بعد رزق حلال کی طلب سب سے بڑا فرض ہے۔‘‘ آپ نے مالدار اور تندرست توانا کے لئے خیرات اور صدقہ کو حلال قرار نہیں دیا۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی مانگنا ایک قبیح فعل ہے جو اسلام کے نزدیک حرام ہے،دین نے اس کی سختی سے ممانعت کی ہے۔سوال کرنے والے کو اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس میں اس کے لئے کتنی ذلت، رسوائی اور خرابی ہے تو کبھی سوال نہ کرے،یعنی بھیک نہ مانگے۔ہمارے ملک میں گداگری باقاعدہ پیشہ بن گیا ہے جبکہ لوگ جوق در جوق اس سے وابستہ ہو رہے ہیں-بڑے شہروں کے علاوہ اب چھوٹے شہر اور قصبے بھی گداگری سے متاثر ہیں۔ماہ رمضان شروع ہوتا ہے تو گداگروں کی ایک بڑی تعداد شہروں کا رخ کرتی ہے-ان میں جرائم پیشہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں ۔گداگر مافیا سے وابستہ لوگ بڑے شہر کے بڑے چوراہے ٹھیکے پر بھی دینے لگے ہیں جبکہ ذمہ دار ادارے اس میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک اور ملک سے باہر گداگری کے پھیلتے ہوئے اس عفریت کو روکا جائے۔گداگری اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے جس پر سخت قانون سازی اور بڑے پیمانے پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دونوں چیزیں کے بعد کے لئے

پڑھیں:

سانحہ بابوسر ٹاپ: ’بیٹا، بھائی، اہلیہ سب کھو دیے، مگر حوصلہ چٹان سے کم نہیں‘

گلگت بلتستان میں حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ بابوسر ٹاپ کے مقام پر سیلابی ریلوں میں کئی سیاح بہہ گئے ان میں لودھراں سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان بھی شامل تھا جس کے کئی افراد جاں بحق ہو گئے اور ان کی لاشوں کو ریسکیو آپریشن کر کے نکالا گیا۔ جس میں فہد اسلام، ڈاکٹر مشعال فاطمہ ان کے بیٹے عبدالہادی شامل تھے۔

حادثے میں زندہ بچ جانے والے سعد اسلام نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان کا عقیدہ ہے ہر کسی نے دنیا سے جانا ہے۔ شاید ہماری قسمت میں ایسے ہی لکھا ہوا تھا میں اس بات پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ڈیڈ باڈیز مل گئیں کیونکہ میں وہاں پر دیکھ کر آیا ہوں کہ سارے کے سارے خاندان پانی میں بہہ گئے ہیں اور ان کو پیچھے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

اس چٹان جیسے حوصلے کو سلام ہے
لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا کی مثال
بیٹا بھائی اہلیہ سب پانی کی نذر ہوگئے اور شکر کا انداز سبحان اللہ ۔
خدا اس ہمت کو ہمیشہ قائم رکھے
آمین ۔ pic.twitter.com/F6qroNj5iv

— صحرانورد (@Aadiiroy2) July 25, 2025

ان کا کہنا تھا کہ میں اللہ کا شکر ہی ادا کر سکتا ہوں، ظاہر ہے میں غمگین ہوں کیونکہ میں نے اپنا پھول جیسا بیٹا، باپ جیسے بڑے بھائی اور اچھی نیک سیرت اور حافظ قرآن بیوی کو کھویا ہے اب میری ایک سال کی بیٹی ہے اللہ اس کے لیے آسانی والا معاملہ کرے۔ اللہ مجھے اور میرے خاندان کو صبر عطا فرمائے اور سب مسلمانوں کو ایسی آفت سے بچائے۔

سوشل میڈیا صارفین سعد اسلام کے حوصلے کی تعریف کرتے نظر آئے اور مرحومین کی بخشش کے لیے دعا کی۔ ایک صارف نے لکھا کہ واقعی یہ صبر کی وہ اعلیٰ مثال ہے جو ایمان کو جِلا بخشتی ہے۔

واقعی یہ صبر اور رضا بالقضا کی وہ اعلیٰ مثال ہے جو ایمان کو جِلا بخشتی ہے۔ "لا یکلف اللہ نفساً إلا وسعہا" کا عملی مظہر دیکھ کر دل نم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے صبر کو قبول فرمائے، ان کے پیاروں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور ان کے دل کو ہمیشہ اپنی خاص رحمت و سکون…

— sobia ashraf (@Sobiajournalist) July 25, 2025

ایک ایکس صارف کا کہنا تھا کہ انسان جب سب کچھ کھو دیتا ہے تو اللّه کے مزید قریب ہوجاتا ہے یقیناً اللّه اپنے بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ انہوں نے دعا کی کہ اللّه اس خاندان اور باقی سب جو اس حادثے میں دنیا سے چلے گئے ہیں اور جن کا کوئی پیچھے ان کو ڈھونڈھنے والا بھی نہیں سب کو جوار رحمت میں جگہ عطاء فرمائے۔

انسان جب سب کچھ کھو دیتا ہے تو اللّه کے مزید قریب ہوجاتا ہے یقیناً اللّه اپنے بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا
اللّه اس خاندان اور باقی سب جو اس حادثے میں دنیا سے چلے گئے ہیں جنکا یہ بھائی ذکر کر رہے ہیں جنکا کوئی پیچھے انکو ڈھونڈھنے والا بھی نہیں سب کو جوار رحمت میں جگہ عطاء فرمائے

— سچا پٹواری® (@Satcha_Patwari) July 25, 2025

ایک سوشل میڈیا صارف کا ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بھائی کی ہمت کو سلام ہے۔

بھائی کی ہمت کو سلام ہے https://t.co/no0Kyy9rq0

— Energy Engr (@KMazhar41818) July 25, 2025

واضح رہے کہ چند دن قبل لودھراں سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان اسکردو سے واپسی پر بابوسر ٹاپ کے مقام پر اچانک آنے والے سیلابی ریلے کی زد میں آگیا تھا۔ اس المناک واقعے میں ڈاکٹر مشعال فاطمہ، ان کا دیور فہد اسلام اور 3 سالہ عبدالہادی جاں بحق ہوگئے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بابو سر ٹاپ حادثے اور لاشیں دیامر حادثہ ڈاکٹر مشعال فاطمہ سیلابی ریلہ فہد اسلام

متعلقہ مضامین

  • الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)
  • وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی کی زیر صدارت حضرت بری امام سرکارؒ کے سالانہ عرس مبارک کے انتظامات سے متعلق ذیلی کمیٹی کا اجلاس
  • اہلِبیت اطہارؑ کی محبت و عقیدت قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے، علامہ رانا محمد ادریس
  • سانحہ بابوسر ٹاپ: ’بیٹا، بھائی، اہلیہ سب کھو دیے، مگر حوصلہ چٹان سے کم نہیں‘
  • ’اسلام میں سر ڈھانپنا فرض نہیں‘، حمزہ علی عباسی کا حجاب پر متنازع مؤقف تنقید کی زد میں
  • فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 
  • اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی
  • پانچ اگست کو اسلام آباد نہیں جارہے ہر جگہ پرامن احتجاج ہوگا، بیرسٹر گوہر
  • ’اسلام کا دفاع‘
  • غیرت کے نام پر کسی کو بھی قتل کرنا شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے، مولانا فضل الرحمان